سینیٹ میں پیپلز پارٹی کے سینیٹر کریم خواجہ کی ملک میں آئینی عدالت کے قیام کی قرارداد پر غور موخر کر دیا گیا،پانچ پیپلز پارٹی نے کام کیوں نہیں کیا؟ معاملے پر حکومت کو سیاسی جماعتوں سے مشاورت درکار ہے ،قائد ایوان راجہ ظفر الحق ،18 ویں ترمیم کے وقت دیگر جماعتوں کی رائے معاملے پر مختلف تھی ، حکومت کے ساتھ تعاون کیلئے تیار ہیں ،سینیٹر اعتزاز احسن ، آئینی عدالت کے قیام کے حوالے سے بال حکومت کے کورٹ میں ہے ،کریم احمد خواجہ

پیر 3 فروری 2014 21:11

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔3 فروری ۔2014ء) سینیٹ میں پیپلز پارٹی کے سینیٹر کریم خواجہ کی ملک میں آئینی عدالت کے قیام کی قرارداد پر غور موخر کر دیا گیا جبکہ قائد ایوان راجہ ظفر الحق نے کہا کہ معاملے پر حکومت کو سیاسی جماعتوں سے مشاورت درکار ہے۔ پیر کو اجلاس کے دوران پیپلزپارٹی کے سینیٹر کریم احمد خواجہ نے قرارداد پیش کی کہ یہ ایوان سفارش کرتا ہے کہ محترمہ بے نظیر بھٹو شہید اور میاں محمد نواز شریف کے درمیان میثاق جمہوریت پر عملدرآمد کیا جائے، خصوصاً تمام صوبوں سے ججوں کی مساوی تعداد کے ساتھ آئینی عدالت قائم کی جائے تاکہ آئینی معاملات کا فیصلہ کیا جاسکے۔

انہوں نے کہا کہ آئینی عدالت کے قیام کے حوالے سے بال حکومت کے کورٹ میں ہے، قائداعظم نے بھی آئینی عدالت کے قیام کا ذکر کیا تھا، اس وقت دونوں بڑی جماعتوں میں اچھی انڈر سٹینڈنگ ہے اور بہت سے اہم آئینی معاملات پر دونوں جماعتیں مل کر کام کر سکتی ہیں۔

(جاری ہے)

قائد ایوان سینیٹر راجہ ظفر الحق نے کہا کہ میثاق جمہوریت دو بڑی جماعتوں کے درمیان ہوا تھا، اس کے بعد پانچ سال پیپلزپارٹی کی حکومت رہی، معلوم نہیں انہوں نے اس حوالے سے کام کیوں نہیں کیا اب دیگر سیاسی جماعتیں بھی پارلیمنٹ میں موجود ہیں، کچھ کی صوبوں میں حکومت بھی ہے، یہ آئینی ترمیم کا معاملہ ہے اس پر دوسری جماعتوں سے مشاورت کرنا پڑے گی۔

قائد حزب اختلاف سینیٹر اعتزاز احسن نے کہا کہ 18 ویں ترمیم کے وقت دیگر جماعتوں کی رائے اس معاملے پر مختلف تھی اس لئے اسے 18 ویں ترمیم میں نہیں اٹھایا گیا، اب حکومت کو موقع ملنا چاہیے کہ اس معاملے پر دیگر جماعتوں سے مشاورت کر لے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت دیگر سیاسی جماعتوں کو آئینی عدالت کے قیام کے حوالے سے اعتماد میں لے اور اس پر اتفاق رائے پیدا کرنے کی کوشش کرے، اس سلسلے میں ہم بھی حکومت کے ساتھ تعاون کیلئے تیار ہیں۔

سینیٹر فرحت اللہ بابر نے کہا کہ اگر آئین وہ ہے جو سپریم کورٹ کہے تو سپریم کورٹ تو آئین کی تشریح میں ایک پارٹی ہوتی ہے اس طرح اس کی عزت و وقار پر حرف آ سکتا ہے اس لئے اس خدشہ کے پیش نظر ایک ایسی اعلیٰ عدالت ہونی چاہیے جو صرف آئین کی تشریح کرے نہ کہ وہ ازخود نوٹس لے یا دوسرے کیس نمٹائے، اسی لئے میثاق جمہوریت میں یہ شق رکھی گئی تھی۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے دور میں یہ معاملہ مسلم لیگ (ن) کی تجویز پر موخر کیا گیا چیئرمین سینٹ نے قائد ایوان کی تجویز پر اس معاملے پر غور موخر کر دیا۔