امریکہ و بھارت طالبان سے مذاکرات کو ٹھنڈے پیٹوں برداشت نہیں کریں گے ،مذاکرات کو سبوتاژ کرنے کیلئے ہر حربہ استعمال کرینگے‘ سید منور حسن ، بندوق کی نالی اور خود کش حملوں سے شریعت نافذ کرنے کے خواہاں لوگوں کی نفی ہونی چاہیے ، شریعت قرآن و سنت کی تعلیمات پر عمل کر کے ہی نافذ کی جاسکتی ہے ، دینی جماعتوں کو متحد ہو کر مذاکرات کی مانیٹرنگ کیلئے فوری طور پر ایک کمیٹی تشکیل دینی چاہیے ‘ امیر جماعت اسلامی کی میڈیا سے گفتگو

جمعہ 31 جنوری 2014 20:49

امریکہ و بھارت طالبان سے مذاکرات کو ٹھنڈے پیٹوں برداشت نہیں کریں گے ..

لاہور (اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔31 جنوری ۔2014ء) امیر جماعت اسلامی سید منورحسن نے کہا ہے کہ امریکہ و بھارت طالبان سے مذاکرات کو ٹھنڈے پیٹوں برداشت نہیں کریں گے اور مذاکرات کو سبوتاژ کرنے کے لیے ہر حربہ استعمال کریں گے، دینی جماعتوں کو متحد ہو کر مذاکرات کی مانیٹرنگ کے لیے فوری طور پر ایک کمیٹی تشکیل دینی چاہیے ، بندوق کی نالی اور خود کش حملوں سے شریعت نافذ کرنے کے خواہاں لوگوں کی نفی ہونی چاہیے ، شریعت قرآن و سنت کی تعلیمات پر عمل کر کے ہی نافذ کی جاسکتی ہے ، شریعت پر کسی کو اختلاف نہیں اس کے نفاذ کے طریقہ کار میں اختلاف ہوسکتاہے جس کا باہمی افہام و تفہیم سے حل نکالا جاسکتاہے ، وفاق المدارس کی نگرانی میں دینی جماعتیں مذاکرات کی کامیابی کے لیے کانفرنسیں ، سیمینارز اور جلسے منعقد کریں تاکہ کل کلاں حکومت کو یہ کہنے کا موقع نہ مل سکے کہ طالبان صرف بندوق کی زبان سمجھتے ہیں ، خطے میں امریکی آمد سے سیاسی دہشتگردی بڑھی جس نے مسلح دہشتگردی کو جنم دیا ،الطاف حسین کو قومی و بین الاقوامی طاقتوں کی بجائے خود ایم کیو ایم سے جان کا خطرہ ہے ، بوری بند لاشوں اور ٹارگٹ کلنگ کا کلچر ایجاد کرنے والوں کو اسی کلچر سے جان کے لالے پڑے ہوئے ہیں ، بھارت کے ایما پر پوری مغربی دنیا نے بنگلہ دیش کے متنازع انتخابات اور حسینہ واجد کی خود ساختہ کامیابی پر آنکھیں بند کر لی ہیں ، بنگلہ دیش میں اسلامی قیادت کے خلاف جو کچھ ہورہاہے بھارت اس کی پشت پناہی اور سرپرستی کر رہاہے ،پاکستان کو حسینہ واجد کے مظالم کو روکنے کے لیے عالمی ادارہ انصاف سے رجوع کرنا چاہیے اور1974 ء میں پاکستان بھارت اور بنگلہ دیش کے درمیان طے پانے والے سہ ملکی معاہدے پر عملدرآمد پر زور دینا چاہیے ۔

(جاری ہے)

ان خیالات کا اظہار انہوں نے جامع مسجد منصورہ میں جمعہ کے بڑے اجتماع سے خطاب اور بعد ازاں میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے کیا ۔ سیدمنورحسن نے کہاکہ جس طرح وزیراعظم کی سربراہی میں چار رکنی کمیٹی طالبان سے مذاکرات کے لیے بنائی گئی ہے ، انہی بنیادوں پر طالبان کو دینی سپورٹ دینے کے لیے اور شرعی نقطہ نظر پیش کرنے کے لیے دینی جماعتوں کو ایک کمیٹی تشکیل دینی چاہیے ،خصوصاً وفاق المدارس کو اس طرف توجہ دینی چاہیے جو حکومت اور طالبان میں ہونے والے مذاکرات کی نہ صرف مانیٹرنگ کرے ، بلکہ دونوں اطراف سے پیدا ہونے والی کنفیوژن اور ڈیڈ لاک کو ختم کرنے کے لیے بھی اپنا کردار ادا کرے ۔

انہوں نے کہاکہ تمام دینی جماعتوں کا یہ فرض ہے کہ وہ ملک و قوم کو دہشتگردی سے نجات دلانے اور قیام امن کے لیے کوئی کسر اٹھا نہ رکھیں ۔ انہوں نے کہاکہ سیکولر لابی کی طرف سے میڈیا میں آنے والی بھانت بھانت کی بولیوں کا موٴثر جواب دینے اور مذاکراتی عمل کا دفاع کرنے کے لیے بھی ضروری ہے کہ دینی قیادت باہمی اختلافات کو پس پشت ڈال کر ایک نئے عزم کے ساتھ آگے آئے اور قوم کی رہنمائی کا فریضہ انجام دے ۔

سیدمنورحسن نے کہاکہ بندوق مارنے کا کام کرتی ہے بچانے کا کام نہیں کر سکتی ۔ طاقت اور قوت کا استعمال اندھا اور بہرہ ہوتاہے ۔ آپریشن سے کبھی کوئی مسئلہ حل نہیں ہوا بلکہ بے پناہ مسائل نے جنم لیاہے ۔بمباری سے کسی مخصوص عمارت یا چھاؤنی کو تو کامیابی سے ٹارگٹ کیا جاسکتاہے لیکن کسی وسیع و عریض علاقے کو زیر نہیں کیاجاسکتا۔ بنگلہ دیش میں امیر جماعت مطیع الرحمن نظامی اور دیگر تیرہ افراد کو دی جانے والی سزائے موت کے حوالے سے پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں سیدمنورحسن نے کہاکہ بنگلہ دیش کے حالات دن بدن خراب سے خراب ترہورہے ہیں ۔

عالمی برادری کو چاہیے کہ بنگلہ دیش کے عوام کو ان خراب حالات سے نجات دلانے کے لیے اپنا کردار ادا کرے ۔انہوں نے کہاکہ گزشتہ روز پروفیسر خورشید احمد کی قیادت میں جماعت اسلامی کے اعلیٰ سطحی وفد نے وزیراعظم میاں محمد نوازشریف سے ملاقات کر کے انہیں پاکستان بھارت اور بنگلہ دیش کے درمیان 1974 ء میں طے پانے والے معاہدہ کی نقل پیش کی ہے جس میں تینوں فریقین نے اس بات پر اتفا ق کیاہے کہ جنگی جرائم کے الزام میں بنائے گئے تمام مقدمات کو ختم کر دیا جائے گا ۔

تینوں ممالک ایک دوسرے کی آزادی اور خود مختاری کے خلاف کسی سازش کا حصہ نہیں بنیں گے اور جنگی جرائم کے الزام میں جیلوں میں بند قیدیوں کو رہا کر دیا جائے گا ۔انہوں نے کہاکہ اسی معاہدہ کی رو سے پاکستان نے بنگلہ دیش کو ایک آزاد اور خود مختار ملک کی حیثیت سے تسلیم کیاتھا ۔ سیدمنورحسن نے امید ظاہر کی کہ وزیراعظم پاکستان بنگلہ دیش اور بھارت سے اس معاہدے کی پابندی کروانے کے لیے عالمی سطح پر فضا ہموار کرنے کی کوششیں کریں گے ۔