اسلامی نظریاتی کونسل ڈکٹیٹر کی باقیات ، عوام کے ذہنوں میں کنفیوژن پیدا کرنے کا باعث بن رہی ہے، ختم کی جائے ، ضرورت نہیں رہی ، پیپلز پارٹی،کونسل کے چیئرمین اور ممبران اپنی جماعتوں کے سیاسی ایجنڈے کو آگے بڑھا رہے ہیں ،فرحت اللہ بابر ، اسلامی نظریاتی کونسل آئینی ادارہ ہے ،ضرورت نہیں تھی تو پیپلزپارٹی اپنے دور حکومت میں ختم کر دیتی، جے یو آئی (ف)،اخباری بیانات کو بنیاد بنا کر تحریکیں پیش کرنے کی اجازت نہ دی جائے، پہلے کونسل کی سفارشات کو ایوان میں پیش کیا جائے پھر اس پر بحث کی جا سکتی ہے ، سینیٹر حمد اللہ ، قائداعظم مذہبی آزادی کے خواہاں تھے ، لبرل اور ماڈرن پاکستان چاہتے تھے ، ایم کیوایم نے پیپلز پارٹی کی حمایت کردی ،آئین میں نہیں لکھا کہ اسلامی نظریاتی کونسل کو سات سال بعد ختم کر دیا جائیگا ، راجہ ظفر الحق

پیر 20 جنوری 2014 21:29

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔20 جنوری ۔2014ء) پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما سینیٹر فرحت اللہ بابر نے کہا ہے کہ اسلامی نظریاتی کونسل ڈکٹیٹر کی باقیات کی ہے ، کونسل عوام کے ذہنوں میں کنفیوژن پیدا کرنے کا باعث بن رہی ہے، کونسل کے چیئرمین اور ممبران اپنی جماعتوں کے سیاسی ایجنڈے کو آگے بڑھا رہے ہیں ،اب کوئی ضرورت نہیں رہی جبکہ جمعیت علمائے اسلام (ف)کے رہنما سینیٹر حمد اللہ نے کہا ہے کہ اسلامی نظریاتی کونسل آئینی ادارہ ہے ،ضرورت نہیں تھی تو پیپلزپارٹی اپنے دور حکومت میں ختم کر دیتی، اخباری بیانات کو بنیاد بنا کر تحریکیں پیش کرنے کی اجازت نہ دی جائے، پہلے کونسل کی سفارشات کو ایوان میں پیش کیا جائے پھر اس پر بحث کی جا سکتی ہے۔

پیر کو سینٹ اجلاس کے دور ان پیپلز پارٹی کے رہنما سینیٹر فرحت اللہ بابر نے 13 جنوری 2014ء کو اسلامی نظریاتی کونسل کے کام اور حالیہ بیانات کو زیر بحث لانے کی اپنی تحریک پر بحث کا آغاز کرتے ہوئے کہاکہ اسلامی نظریاتی کونسل نے ڈی این اے ٹیسٹ کو مسترد کرتے ہوئے اس کی بناء پر سزائیں نہ دینے کی سفارش کی جبکہ سپریم کورٹ نے ریپ کیسز میں اسے لازمی قرار دیا ہے اور ساری دنیا میں اس ٹیسٹ کو مانا جاتا ہے، اسی کونسل نے اپنی اندرونی بحث میں ناموس رسالت قانون کے غلط استعمال کو روکنے کے لئے قانون میں ترمیم کی ضرورت پر زور دیا تاہم بعد ازاں اس سے انکار کر دیا گیا فرحت اللہ بابر نے کہاکہ کونسل نے 2008ء میں 90 فیصد قوانین کی اسلام کی تعلیمات کے مطابق نظرثانی کرنے کی تجویز دی تھی۔

(جاری ہے)

اسلامی نظریاتی کونسل اپنا کام مکمل کر چکی ہے، وفاقی شرعی عدالت بھی یہی کام کر رہی ہے جو کونسل کر رہی ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اسلامی نظریاتی کونسل کی اب کوئی ضرورت ہے جبکہ وہ اپنے ذمہ جو کام تھا اسے مکمل کر چکی ہے، کونسل کے ارکان سیاسی جماعتوں کے کارکن ہیں، کونسل عوام کے ذہنوں میں کنفیوژن پیدا کرنے کا باعث بن رہی ہے، یہ ادارہ ڈکٹیٹر کی باقیات ہے اور کونسل کے چیئرمین اور ممبران اپنی جماعتوں کے سیاسی ایجنڈے کو آگے بڑھا رہے ہیں، جائزہ لیا جائے کہ اس کی ضرورت ہے یا نہیں۔

۔ انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے کے مطابق زنا کے تمام مقدمات میں تحقیقات کے لئے ڈی این ٹیسٹ کروانے اور اس کے نمونے محفوظ کرنے کے لئے کہا گیابلکہ اسے لازمی قرار دیا گیا۔ گزشتہ سال ستمبر میں کونسل نے پہلے تو اس قرارداد کی سفارشات کی منظوری دی جس میں توہین رسالت کے مقدمے میں جھوٹا الزام لگانے والے کے لئے سزا تجویز کی گئی تھی تاہم اس کے بعد اس قرارداد کی سفارشات کو ختم کر دیا گیا۔

حال ہی میں کونسل نے ایک ایسے قانون کے مسودے کو جس میں عمررسیدہ لوگوں کے لئے گھر بنائے جانے تھے، یہ کہہ کر مسترد کر دیا کہ یہ اقدام معاشرے کے رسم و رواج کے خلاف ہے۔ کونسل نے خواتین کے تحفظ کا بل مجریہ 2006 یہ کہہ کر مسترد کر دیا تھا کہ یہ قرآن اور شریعت کی روح کے منافی ہے۔ کونسل کی جانب سے اس قسم کی سفارشات یہ ظاہر کرتی ہیں کہ یہ کونسل موجودہ وقت سے کس قدر فاصلے پر ہے۔

یہ درست ہے کہ اسلامی نظریاتی کونسل ایک مشاورتی ادارہ ہے لیکن چونکہ 1980 کی دہائی سے یہ ڈکٹیٹروں کا بوجھ اٹھائے پھر رہا ہے اور اس کے فیصلے اخلاقی اختیار تو رکھتے ہیں لیکن یہ ابہام پیدا کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کونسل نے تمام قوانین پر نظرثانی کر لی ہے اور 2008 کی اس کی اپنی رپورٹ کے مطابق 90فیصد قوانین اسلام کے مطابق ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اسلامی نظریاتی کونسل اب متروک ہو چکی ہے کیونکہ وفاقی شرعی عدالت قائم ہو چکی ہے جو کہ اس بات کا فیصلہ کر سکتی ہے کہ کوئی قانون اسلام کے مطابق ہے یا نہیں۔

اسلامی نظریاتی کونسل 1973 کے آئین میں دئیے گئے کام کو مکمل کر چکی ہے اور اب اس اضافی مشاورتی ادارے کی کوئی ضرورت باقی نہیں رہی۔ متحدہ قومی موومنٹ کے پارلیمانی لیڈر سینیٹر کرنل (ر) سید طاہر حسین مشہدی نے اسلامی نظریاتی کونسل کو تحلیل کرنے کی تائید کرتے ہوئے کہا کہ قائداعظم پاکستان میں مذہبی آزادی کے خواہاں تھے اور لبرل اور ماڈرن پاکستان چاہتے تھے۔

کرنل (ر) سید طاہر حسین مشہدی نے کہا کہ فرحت اللہ بابر کی تحریک وقت کی ضرورت ہے، کونسل نے اپنا کام مکمل کر لیا ہے، اب کونسل کی کوئی ضرورت نہیں، بانی پاکستان پاکستان میں ہر کسی کے لئے مذہبی آزادی چاہتے تھے، جہاں مذہب کا ریاست کے امور میں کوئی عمل دخل نہ ہو، وہ ایک لبرل اور ماڈرن پاکستان چاہتے تھے۔بحث میں حصہ لیتے ہوئے جمعیت علمائے اسلام (ف) کے رہنما سینیٹر حمد اللہ نے کہا کہ ملک کو سیکولر بنانے کے خواہاں اسلامی نظریاتی کونسل کو ختم کرنے کی مطالبے کر رہے ہیں، کونسل کے موجودہ ممبران کا تقرر پیپلزپارٹی نے ہی اپنے دور میں کیا تھا، اخباری بیانات کی بنیاد پر ایوان میں تحریکوں پر بحث کی اجازت نہ دی جائے۔

سینیٹر حمد اللہ نے کہا کہ اسلامی نظریاتی کونسل آئینی ادارہ ہے، اس کا مقصد اسلامی تعلیمات کی روشنی میں آئین کو ڈھالنے کے لئے سفارشات پیش کرنا ہے، اگر اس کی ضرورت نہیں تھی تو پیپلزپارٹی اپنے دور حکومت میں اسے ختم کر دیتی، ملک کو سیکولر ریاست بنانے کے خواہاں ایسے مطالبات کر رہے ہیں، کونسل کو ختم کرنا آئین سے خیانت ہے اس تحریک کو بحث کے لئے منظور ہی نہیں کیا جانا چاہیے تھا، جو لوگ آج کونسل کے ممبر ہیں ان کا تقرر بھی پیپلزپارٹی نے ہی اپنے دور میں کیا تھا، اخباری بیانات کو بنیاد بنا کر اس طرح کی تحریکیں پیش کرنے کی اجازت نہ دی جائے، پہلے کونسل کی سفارشات کو ایوان میں پیش کیا جائے پھر اس پر بحث کی جا سکتی ہے۔

سینیٹر امین حسنا ت نے بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ فرحت اللہ بابر نے نان ایشو کو ایشو بنانے کی کوشش کی ہے جب تک محمد عربی کا نام رہے گا اسلامی نظریاتی کونسل رہیگی قائد ایوان راجہ ظفر الحق نے کہاکہ فرحت اللہ بابر کی باتیں غیر آئینی تھیں۔آئین میں نہیں لکھا کہ اسلامی نظریاتی کونسل کو سات سال بعد ختم کر دیا جائیگا ۔ آئین میں ترمیم و اضافہ ہوتا رہتا ہے اس لئے اسلامی نظریاتی کونسل کی ضرورت موجود رہیگی ۔