بامعنی مذاکرات کے سوا دوسرے راستے امن کے حصول کو دہائیوں پیچھے دھکیلے گے ،مولانا فضل الرحمن ، بندوق اٹھانے والے طالبان ہی نہیں بلکہ اور لوگ بھی ہیں جن کو سیاسی پشت پناہی حاصل ہے، حکومت کو مذاکرات کے حوالے سے ناکامی کا تاثر نہیں دینا چاہیئے، گڈ اور بیڈ طالبان کی اصطلاح ہم نے ایجاد نہیں کی ،سربراہ جے یو آئی

پیر 20 جنوری 2014 20:34

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔20 جنوری ۔2014ء) جمعیت علماء اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ طالبان کو آئینی دائرے میں لانے کے لئے بامعنی مذاکرات کے سوا دوسرے راستے امن کے حصول کو دہائیوں پیچھے دھکیلے گے، وقت آگیا ہے کہ ان حالات کا سد باب کیا جائے جس نے طالبان کو جنم دیا ۔ پیرکوجاری بیان کے مطابق مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ آئین کی بات کر نے والے یہ بات بھول گئے ہیں کہ جتنے طالبان آئین کی خلاف ورزی کر تے ہیں اتنے ہی ان میں آمر بھی شامل ہیں جن کو آج بھی وی آئی پی پروٹوکول دیا جارہا ہے ۔

انہوں نے کہا ہے کہ ریاست کے خلاف بندوق اٹھانے والے طالبان ہی نہیں بلکہ اور لوگ بھی ہیں جن کو سیاسی پشت پناہی حاصل ہے اور وہ عسکریت پسند بھی ہیں، گڈ اور بیڈ طالبان کی اصطلاح ہم نے ایجاد نہیں کی ۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا ہے کہ اگرچہ ہم بارہا کہہ چکے ہیں کہ پر تشدد کاروائیوں کے زریعے شریعت کا حصول ناقابل قبول ہے لیکن دوسری جانب بیوروکریسی آج بھی آئین میں ماننی گئی شریعت کو نافذ کر نے میں رکاوٹ اور وہ اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات کی روشنی میں قانون سازی کے لئے تیار نہیں ہے۔

انہوں نے کہا ہے کہ معافی کی بات تو چھوڑیئے امریکہ کے ایک فون پر ملک کو دہشت گردی کی جنگ میں جھونکنے کی غلطی تسلیم کر نے کے لئے بھی ہم تیار نہیں ۔انہوں نے کہا کہ حکومت کو مذاکرات کے حوالے سے ناکامی کا تاثرکا نہیں دینا چاہیئے اور اپوزیشن کو بھی سیاسی پوائنٹ سکورنگ کر نے کی ضرورت نہیں ہے۔ صوبہ خیبر پختونخوا کی حکومت مطالبات کرنے کے علاوہ اپنا کو ئی حصہ نہیں ڈال سکتی ۔تاہم مسئلے کا حل مذاکرات میں ہے اور فریقین کو لچک دکھانی ہوگی کیونکہملک میں قیام امن ناگزیر ہے ۔