نواز شریف ماضی کی غلطیاں نہ دہرائیں غلطیاں کرنی ہیں تو نئی غلطیاں کریں ‘ مشاہد حسین سید

ہفتہ 18 جنوری 2014 16:43

لاہور(اُردو پوائنٹ تازہ ترین اخبار۔ 18جنوری 2014ء) پاکستان مسلم لیگ (ق) کے سیکرٹری جنرل و سینیٹ کی دفاعی کمیٹی کے چیئرمین سینیٹر مشاہد حسین سیدنے کہا ہے کہ نواز شریف ماضی کی غلطیاں نہ دہرائیں غلطیاں کرنی ہیں تو نئی غلطیاں کریں ،قوم سے خطاب کر کے ملک کو درپیش مسائل پر اعتماد میں لیں اور وسعت قلبی کا مظاہرہ کرتے ہوئے تمام سیاسی قوتوں،فوج اور عدلیہ سے ملکر انتہا پسندی و دہشتگردی‘ معیشت ‘ توانائی اور تعلیم کے حوالے سے پانچ سالہ ایجنڈا طے کریں ،طالبان سے مذاکرات میں امریکہ ، فوج یا سیاسی جماعتیں ہرگز رکاوٹ نہیں لیکن حکومت اس معاملے میں تذبذب کا شکار لگتی ہے،اس وقت حکومت کے سامنے کوئی اپوزیشن نہیں بلکہ پوری دنیا افغانستان کی وجہ سے تعاون مانگ رہی ہے جسکے تحت ساری چوائسز حکومت کے پاس ہیں ۔

(جاری ہے)

برطانوی نشریاتی ادارے کو دئیے گئے انٹر ویو میں مشاہد حسین سید نے کہا کہ خارجہ پالیسی کے بارے میں حکومت واضح نہیں کیونکہ اس کے ایک یا دو شخص انچارج نہیں ۔خارجہ پالیسی کی سمت بن رہی ہے بلکہ بن چکی ہے کہ ہمارے جو قومی سلامتی کے مقاصد ہیں انکا تعلق اورمحور یہ خطہ ہے جہاں ہم موجود ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مجھے لگتاہے کہ پاکستان میں پانچ وزیر خارجہ ہیں ایک تو باضابطہ وزیر خارجہ وزیر اعظم محمد نواز شریف ہیں جبکہ دو غیر رسمی وزیر خارجہ ہیں جو وزیر خارجہ کا کردار ادا کرتے ہیں لیکن انکے پاس اسکا باضابطہ کوئی ٹائٹل نہیں جن میں مشیر خارجہ سرتاج عزیز جبکہ دوسر ے خصوصی معاون طارق فاطمی ہیں جبکہ دو حقیقی وزیر خارجہ بھی ہیں جن میں اسحاق ڈار ہیں جنہوں نے امریکہ میں سارے مذاکرات کئے جبکہ ایک وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف ہیں جنہوں نے بھارتی پنجاب میں دو ڈیکلریشن پر دستخط کئے ۔

انہوں نے ایک سوال کے جوا ب میں کہا کہ اب پاکستان کی فوج پاکستان کی خارجہ پالیسی نہیں بنا رہی البتہ انکا تعاون اور مشاورت ضرور ہے ،خارجہ پالیسی اب سویلین ہی بنا رہے ہیں۔ انہوں نے طالبان کے حوالے سے سوال کے جواب میں کہا کہ طالبان بھی پاکستان کا ہی حصہ ہیں ۔ 9 ستمبر کو آل پارٹیز کانفرنس ہوئی جس میں کہا گیا کہ حکومت مذاکرات کرے لیکن اسے سو دن ہو گئے ہیں لیکن حکومت نے ابھی تک مذاکرات کئے اور نہ ہی حکمت عملی سامنے آئی ہے اور نہ قومی سلامتی کی پالیسی بنائی گئی ہے ۔

حکومت انتخاب جیت کر آئی ،اے پی سی بلائی گئی جس میں اسے مینڈیٹ مل گیا اس میں امریکہ ،فوج اور نہ ہی کوئی سیاسی قیادت رکاوٹ ہے بلکہ حکومت خود تذبذب کا شکار ہے ۔ مذاکرات کے حوالے سے حکومت کی طرف سے کوئی واضح دلائل کے ساتھ موقف پیش نہیں کیا گیا کہ تاخیر کیوں ہو رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں یہ سمجھا جاتا ہے او ریہ صحیح بھی ہے کہ پیپلز پارٹی کے مقابلے میں نواز شریف آئیں تو معیشت کی بحالی کو تقویت ملے گی لیکن اس دفعہ ان سے شروع میں ہی ایک دو غلطیاں ہو گئیں ،جلد ی میں جو بجٹ دیا گیا وہ لگتا ہے کہ آئی ایم ایف کا بجٹ تھا ،یہ بجٹ آئی ایم ایف یا بیورو کریسی نے ترتیب دیا جس میں ملازمین کی تنخواہیں نہیں بڑھائی گئیں جسکی وجہ سے لوگ نارا ض ہوئے جبکہ کچھ بیانات سامنے آئے کہ موجودہ حکومت کے دور میں لوڈ شیڈنگ ختم نہیں ہو گی حالانکہ لوگوں کوکچھ امید تھی ۔

مشاہد حسین سید نے کہا کہ اس وقت حکومت کے سامنے کوئی اپوزیشن نہیں پالیسی میں کوئی مزاحمت نہیں ،پوری دنیا چاہتی ہے کہ پاکستان کامیا ب اور پوری دنیا افغانستان کی وجہ سے تعاون مانگ رہی ہے ۔ امریکہ ،آئی ایم ایف اورچین حکومت کو مدد دے رہا ہے اور ساری چوائسز ساری چوائسز حکومت کے پاس ہیں پھر معیشت کو پھلنا پھولنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ کا افغانستان سے نکلنے کا ارادہ تو ہے لیکن انکی یہ خواہش بھی ہے کہ انکے اڈے اور پندرہ ،بیس ہزار فوج بھی رہے ۔

امریکہ سے انخلاء پاکستان کے بغیر پورا نہیں ہو سکتا کیونکہ امریکہ کو وہاں سے 35ارب کا اسلحہ و سازوسامان لے کر نکلنا ہے اور اسکا پاکستان پر انحصار ہے لیکن ابھی تک کوئی ہوم ورک نہیں کیا گیا ،افغان طالبان سے مذاکرات نہیں کئے گئے ۔اپریل میں افغانستان میں صدارتی انتخاب ہونا ہے لیکن یہ پتہ نہیں کس نے آنا ہے جبکہ امریکہ کی کرزئی سے چپقلش بھی شروع ہو گئی ہے ۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کے دنیا سے تعلقات مثبت ہو رہے ہیں جی ایس پی پلس کا درجہ ملنا اسکا ثبوت ہے ۔ امریکہ میں جو بھی پاکستان ضرورت ہے ،سپریم کورٹ نے تو نظریہ ضرورت دفن کر دیا ہے لیکن سیاسی اور خارجہ پالیسی میں نظریہ ضرورت موجود ہے ۔ افغانستان سے شریفانہ انخلاء کیلئے پاکستان کی حکومت ،فوج اور آئی ایس آئی کی اشد ضرورت ہے ۔ انہوں نے کہا کہ نواز شریف ماضی کی غلطیاں نہ دہرائیں غلطیاں کرنی ہیں تو نئی غلطیاں کریں ۔

بڑے دل سے چلیں اور قوم سے خطاب کریں اورکہیں کہ پاکستان کے مسائل ایسے ہیں جو کوئی ایک شخص ایک سیاسی جماعت حکومت یا ایک ادارہ اکیلے حل نہیں کر سکتا ۔وہ قوم سے کہیں کہ سیاسی قوتیں چاہے بلکہ اس میں فوج اور عدلیہ بھی شامل ہو ہم ایجنڈا طے کریں اور انتہا پسندی و دہشتگردی ‘ معیشت ‘ توانائی اور تعلیم کے لئے سب کی مدد مانگیں جب وہ وسعت دل کے ساتھ چلیں گے تو مسائل بھی حل ہوں گے اور پاکستان کا مستقبل روشن ہوسکتا ہے۔

متعلقہ عنوان :