اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے سال2014 کی پہلی مانیٹری پالیسی کا اعلان کر دیا، بنیادی شرح سود میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی،گزشتہ کچھ سالوں سے اقتصادی سرگرمیاں سست روی کا شکاررہی ہیں ،آئی ایم ایف کو کی جانی والی ادائیگیوں کی وجہ سے بھی زرمبادلہ کے ذخائر پر بوجھ پڑاہے،یاسین انور ، بجلی اور تیل کے نرخوں میں اضافے سے گزشتہ سال مہنگائی کی شرح میں اضافہ ہوا ،مالی سال کے آغاز سے ہی اجناس کی عالمی قیمتوں میں کمی کا رجحان ہے،ستمبر،نومبر میں ڈسکاؤنٹ ریٹ میں اضافے سے کرنٹ اکاؤنٹ میں اضافہ ہوا،گورنر اسٹیٹ بینک

جمعہ 17 جنوری 2014 20:33

اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے سال2014 کی پہلی مانیٹری پالیسی کا اعلان کر دیا، ..

کراچی(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔17 جنوری ۔2014ء) اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے سال2014 کی پہلی مانیٹری پالیسی کا اعلان کر دیا ہے۔ بنیادی شرح سود میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی۔یہ اعلان جمعہ گورنراسٹیٹ آف پاکستان نے جمعہ کو اسٹیٹ بینک ہیڈآفس میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔گورنر اسٹیٹ بنک یاسین انور نے زری پالیسی جاری کرتے ہوئے کہا کہ گزشتہ کچھ سالوں سے اقتصادی سرگرمیاں سست روی کا شکاررہی ہیں جبکہ آئی ایم ایف کو کی جانی والی ادائیگیوں کی وجہ سے بھی زرمبادلہ کے ذخائر پر بوجھ پڑاہے۔

بجلی اور تیل کے نرخوں میں اضافے سے گزشتہ سال مہنگائی کی شرح میں بھی اضافہ ہوا ہے۔انہوں نے کہاکہ مالی سال کے آغاز سے ہی اجناس کی عالمی قیمتوں میں کمی کا رجحان ہے۔ گورنر اسٹیٹ بنک نے کہاکہ ستمبراور نومبر میں ڈسکاؤنٹ ریٹ میں اضافہ کیا گیا، جس سے کرنٹ اکاؤنٹ میں بھی اضافہ ہوا۔

(جاری ہے)

اس وجہ سے شرح سود کو اگلے دو ماہ کے لئے دس فیصد پر برقرار رکھنے کا فیصلہ کیاگیا۔

انہوں نے کہاکہ زری پالیسی بیان کے مطابق اسٹیٹ بینک نے بچت امانتوں میں رکھے گئے اوسط بیلنس پر کم از کم شرح منافع کو شرح سود کوریڈور کے فلور سے منسلک کر دیا تھا۔ اس پالیسی اقدام سے یہ امر یقینی ہوگیا کہ امانتوں کی شرحیں پالیسی ریٹ میں تبدیلیوں پر زیادہ ردِعمل ظاہر کریں۔ گورنراسٹیٹ نے کہاکہ مالی سال2013-14کی پہلی ششماہی کی دونوں سہ ماہیوں کے دوران اسٹیٹ بینک سے مالیاتی قرض گیری کا سہ ماہی بہاؤ مثبت رہا ہے۔

یہ زری پالیسی کی اثر انگیزی کے لیے اچھا شگون نہیں ہے۔ اسٹیٹ بینک کو توقع ہے کہ مالی سال2013-14 کی دوسری ششماہی میں نئے آئی ایم ایف پروگرام کی شرائط کے مطابق حکومت یہ قرض لینا کم کرے گی اور واجب الادا اسٹاک بتدریج گھٹائے گی۔انہوں نے کہاکہ مالیاتی کیفیت کو خطرہ ٹیکس محاصل میں ممکنہ کمی، شعبہ توانائی کے گردشی قرضوں کے پھر سر ابھارنے اور مقررہ بیرونی رقوم کی آمد میں تاخیر سے ہے۔

اس قسم کے انحرافات بینکاری نظام سے قرض کو بڑھانے، ملکی قرضے میں مزید اضافے اور بلند تر مہنگائی کی طرف لے جاسکتے ہیں۔اگرچہ متوقع بیرونی رقوم کی آمد سے متعلق غیریقینی کیفیت کے باعث توازن ادائیگی کی صورتِ حال کو بعض خطرات لاحق ہیں تاہم گرانی میں متوقع اضافہ اس سطح سے کسی قدر زیادہ ہے جتنا قبل ازیں توقع کی گئی تھی۔ چنانچہ مذکورہ بالا امور کی روشنی میں اسٹیٹ بینک کے بورڈ آف ڈائریکٹرز نے پالیسی ریٹ کو تبدیل نہ کرنے اور 10 فیصد پر رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔