وقت آ گیا ہے کہ بھارت اور پاکستان تعاون اور امن پر مبنی ہمسائیگی کے تعلقات کا نیا باب کھولیں‘ ڈاکٹر طاہر القادری ، دونوں ممالک اگلی نسلوں کے خوشحال مستقبل کیلئے با اعتماد ہمسائے بن جائیں تو سارک ممالک کا ویثرن اُبھر کر دنیا کے سامنے آ جائیگا ،مہاتماگاندھی نے کہا تھا ” میرا یقین ہے کہ اسلام تلوار سے ہر گز نہیں بلکہ محمد ﷺ کے کردار کے زور سے پھیلا“،عوامی تحریک کے قائد کا منہاج یونیورسٹی میں سیمینار بعنوان ”سارک ممالک کے تعلقات اور جنوبی ایشیاء کا مستقبل “سے خطاب

بدھ 15 جنوری 2014 20:49

لاہور (اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔15 جنوری ۔2014ء) پاکستان عوامی تحریک کے قائد ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے کہا کہ وقت آ گیا ہے کہ بھارت اور پاکستان تعاون اور امن پر مبنی ہمسائیگی کے تعلقات کا نیا باب کھولیں ،فوجی تناؤ اور جنگیں، تنازعات اور مسائل کا حل نہیں ڈائیلاگ کے ذریعے آگے بڑھنا ہو گا ،بھارت اور پاکستان ہر گز ایک دوسر ے کے دشمن نہیں ان کے مشترکہ دشمن غربت،جہالت،کرپشن اور بے روزگاری جیسے مسائل ہیں ،معصوم سویلین کا قتل انڈیا میں ہو یا پاکستان میں انسانیت کے خلاف بڑا جرم ہے، ترقی کی راہیں محبت اور امن کے جذبے سے نکالنا ہوں گی ، مہاتما گاندھی اور قائد اعظم  نے عدم تشدد اور امن و محبت کافلسفہ قرآن کے عظیم پیغام سے اخذ کیا تھا، پاکستان اور بھارت محمد علی جناح  اور گاندھی کی تعلیمات سے رہنمائی لے کر امن اور ترقی کے سفر کا آغاز کریں ، دونوں ممالک اگلی نسلوں کے خوشحال مستقبل کیلئے با اعتماد ہمسائے بن جائیں تو سارک ممالک کا ویثرن اُبھر کر دنیا کے سامنے آ جائے گا ۔

(جاری ہے)

ان خیالات کا اظہار انہوں نے منہاج یونیورسٹی میں ”پاکستان انڈیا اور سارک ممالک کے تعلقات اور جنوبی ایشیاء کا مستقبل“ کے عنوان سے ہونے والے سیمینار سے کینیڈا سے ویڈیو لنک کے ذریعے خطاب کرتے ہوئے کیا ۔ ڈاکٹر طاہر القادری نے کہا کہ انڈیا اورپاکستان خصوصاً اور سارک کے دیگر ممالک ایسے دور میں داخل ہورہے ہیں جہاں ان کے آپس کے تعلقات اعتدال پر آجانے چاہئیں اور ان تعلقات کی بنیاد،اعتماد اور باہمی تعاون پر ہونی چاہیے۔

پاکستان اور انڈیا کی اقوام کا اس بات پر پختہ یقین ہونا چاہیے کہ دونوں ملک ایک دوسرے کے دشمن نہیں بلکہ ان کے مشترکہ دشمن غربت،جہالت،بیروزگاری،کرپشن،انڈر ڈویلپمنٹ اور لاء اینڈ آرڈر کی بد تر صورتحال ہے ۔پاکستان اور بھارت کو غربت کے خاتمے اور تعلیم کے فروغ کیلئے کام کرنا ہو گا اور مشکلات کے مارے عوام کا سوچنا ہو گا ۔دونوں اقوام نفرت اور مخالفانہ طرز عمل ختم کر کے آگے بڑھیں اور دھائیوں سے موجود خلیج کو معتدل رویوں سے دور کرنے کا عزم کریں ۔

دو طرفہ اعتماد کی کمی نے دونوں ممالک کے تعلقات کو متاثر کر کے بہت بڑا نقصان پہنچایا ہے۔ وقت آ گیا ہے کہ انڈیا اور پاکستان تعاون اور امن پر مبنی ہمسائیگی کے تعلقات کا نیا باب کھولیں۔فوجی تناؤ کو ختم کر کے جنگوں کی بجائے تنازعات اور مسائل کا حل باہمی اعتماد کی فضا پیدا کر کے ڈائیلاگ کے ذریعے کیا جائے ۔پاکستان اور بھارت اگلی نسلوں کو خوشحال مستقبل دینے کیلئے اچھے بااعتماد ہمسائے بن جائیں تو اسکے نہایت ہی مثبت اثرات جنوبی ایشیاء کے دیگر ممالک پر ہوں گے اور سارک ویثرن ابھر کر دنیا کے سامنے آ ئے گا۔

انہوں نے کہاکہ مذہب،سیاست،ذات،رنگ اورنسل کی بنیادپر تشدد،بد امنی، قتل و غارت گری کا سلسلہ بند ہونا چاہیے۔معصوم سویلین کا قتل انڈیا میں ہو یا پاکستان میں،یہ اللہ ،مذاہب،انسانیت،تہذیبوں اور انسانی اقدار کے خلاف بہت بڑا جرم ہے ۔ نظام الدین اولیاء، قطب الدین بختیا رکاکی،خواجہ معین الدین چشتی اجمیری،حضرت بابا فرید الدین اور داتا علی ہجویری سمیت دیگر روحانی صوفیا نے امن ،محبت ،برداشت اور اقوام کو ایک دوسرے کے قریب لانے میں بہت بڑا کردار ادا کیا۔

ان کے علاوہ ہندو،بدھ مت،کرسچن،یہودی ، سکھ اورپارسی مذاہب کے رہنماؤں نے بھی محبت اور امن کا درس دیا ہے۔ڈاکٹر طاہر القادری نے کہا کہ 1924میں مہاتما گاندھی نے ینگ انڈیا رسالے میں لکھا کہ” اسلام کی تعلیمات سادگی،اخلاص،ایفائے عہد،انسانیت کے ساتھ وفاداری،نفع بخشی،رحمت،مہربانی ،اللہ پر کامل یقین و توکل اور نفسانیت اور خود غرضی کی نفی پر قائم ہیں۔

بانی اسلام حضرت محمد ﷺ جھگڑوں سے آزاد ہو کر لاکھوں دلوں اور انسانیت کو محبت کی لڑی میں جوڑنے والے تھے اور میرا یقین ہے کہ اسلام تلوار سے ہر گز نہیں بلکہ محمد ﷺ کے کردار کے زور سے پھیلا“۔قرآن مجید کے حوالے سے مہاتما گاندھی نے 13جولائی 1940میں کہا تھا کہ ”میں نے متعدد مرتبہ قرآن پاک کا مطالعہ کیا اور اس نتیجے پر پہنچا کہ قرآن کی تعلیمات امن و محبت اور عدم تشدد پر قائم ہیں ۔

قرآن کے مطابق تشدد ،ظلم اور قتل نہ کرنا ہر مسلمان اور انسان کا فرض ہے “۔ڈاکٹر طاہر القادری نے کہا کہ انڈیا میں بسنے والے تمام ہندوؤں کو میرا پیغام ہے کہ وہ اس تصور امن کی طرف بڑھیں جو گاندھی نے قرآن اور اسلام کے حوالے سے دیا تھا۔انڈیا کے مسلمان بھی قرآنی تعلیمات کی روشنی میں خطے کی ترقی میں مثبت رول ادا کریں۔ڈاکٹر طاہر القادری نے کہا کہ محمد علی جناح  کی فکر کا خمیر قرآن مجید سے اٹھا ہے اور انکی تعلیمات امن و اعتدال اور محبت کے فروغ پر قائم ہیں۔

لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے 14اگست 1947کو حلف لینے سے قبل انہیں تجویز دی تھی کہ مغل شہنشاہ اکبر نے ہندؤں کے ساتھ جس وسعت ظرفی کا ثبوت دیا آپ بھی اس عمل کو اپنائیں تو جناح کا جواب تھا کہ مغل شہنشاہ اکبر کے کردار سے کہیں زیادہ محمد ﷺ کا کردار قابل تقلید ہے۔قائد اعظم  نے خطبہ حجتہ الوداع کا حوالہ دے کر کہا کہ 1300سال قبل ہمارے پیغمبر نے یہودیوں ،عیسائیوں اور دیگر مذاہب کے پیروکاروں کے احترام کا درس دیا اور انہیں مسلم سٹیٹ کے اندر برابر کے حقوق دئیے۔اسلام میں اہمیت انسانیت کے کردار کی ہے نہ کہ رنگ اور نسل کی ۔ڈاکٹر طاہر القادری نے کہا کہ انڈیا اور پاکستان کے مابین اچھے ہمسایوں کے تعلقات ہی خطے کو ترقی کی راہ پر گامزن کر سکتے ہیں ۔