پاکستان کی معاشی نمو 3.6 فیصد رہی، افراط زر گھٹ کر سنگل ہندسے پرآگئی ہے۔ اسٹیٹ بینک کی سالانہ رپورٹ

بدھ 15 جنوری 2014 16:21

پاکستان کی معاشی نمو 3.6 فیصد رہی، افراط زر گھٹ کر سنگل ہندسے پرآگئی ..

کراچی(اُردو پوائنٹ تازہ ترین اخبار۔ 15جنوری 2014ء) مالی سال 2012-13کے دوران پاکستان کی معیشت نے 3.6 فیصد کی شرح سے نمو پائی اور افراط زرکی شرح گھٹ کر سنگل ہندسے پرآگئی ہے۔ یہ بات اسٹیٹ بینک کی سالانہ رپورٹ ”معیشت کی کیفیت“ برائے سال 2012-13ء میں کہی گئی ہے۔ رپورٹ کے مطابق اجناس کی عالمی قیمتوں میں نرمی اور توانائی کے نرخوں میں کمی اور قدرے مستحکم شرح مبادلہ کی وجہ سے گرانی کی اوسط شرح میں گزشتہ مالی سال کے دوران گھٹ کر 7.4 فیصد ہوگئی ہے، جومقررکردہ ہدفسے2.1فیصد کم ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ تعمیراتی سرگرمیوں میں بھرپور نمو اور چند ذیلی شعبوں کی استعداد میں اضافے سے صنعتی شعبے کو فائدہ ہوا۔ عالمی نرخوں سے پاکستان کا درآمدی بل قابو میں رکھنے میں مدد ملی اور برآمدات میں کسی قدر بہتری آئی۔

(جاری ہے)

مزید یہ کہ توقع سے بڑھ کر اتحادی سپورٹ فنڈ کی رقوم اور کارکنوں کی ترسیلات زر کی معتدل نمو سے جاری حسابات کا خسارہ گھٹ کر م س 13ء میں جی ڈی پی کے 1.0 فیصد کے مساوی رہ گیا۔

ان سازگار حالات سے قطع نظر، سلامتی کے بڑھتے ہوئے مسائل اور مسلسل ساختی کمزوریاں معاشی نمو کے راستے میں رکاوٹ بنی ہوئی ہیں۔اسٹیٹ بینک کی رپورٹ کے مطابق سرکاری شعبے کے کاروباری اداروں کے انتظام کی مشکلات، ٹیکس نیٹ کو بڑھانے، غیرہدفی زراعانت کو قابو میں رکھنے، شعبہ توانائی میں چوری اور رساؤ سے نمٹنے، نجی شعبے کی بحالی اور دستاویزیت بڑھانے کے معاملات م س 13ء کے دوران زیادہ تر جوں کے توں رہے۔

رپورٹ کے مطابق گذشتہ سال کی طرح بجٹ خسارہ م س 13ء کے ہدف سے بڑے فرق کے ساتھ تجاوز کرگیا کیونکہ حقیقی خسارہ جی ڈی پی کے 8 فیصد کے برابر تھا جبکہ ہدف 4.7 فیصد رکھا گیا تھا۔ چنانچہ مالکاری کے حصول کا دباؤ سال بھر پالیسی سازی پر حاوی رہا۔ گردشی قرضہ ادا کر کے شعبہ توانائی کو مسلسل تیسرے سال سہولت دی گئی جس سے مالیاتی خسارے ان برسوں کے اہداف سے کہیں زیادہ بڑھ گئے۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ بیرونی رقوم کی آمد کم ہونے کی وجہ سے مالیاتی خسارے کی مالکاری کا بوجھ تمامتر ملکی وسائل خصوصاً بینکاری نظام پر پڑگیا۔ دوران سال حکومت نے کمرشل بینکوں سے 939.6 ارب روپے اور اسٹیٹ بینک سے اضافی 506.9 ارب روپے قرض لیے۔ اس طرح پاکستان کا ملکی قرضہ 19 کھرب روپے بڑھ گیا جو م س 12ء کے آخر سے 24.6 فیصد زیادہ ہے۔رپورٹ کے مطابق بیرونی رقوم کے فقدان کے باعث قدرے مختصر جاری کھاتے کے خسارے کو پورا کرنے میں بھی مشکلات پیش آئیں۔

مالی کھاتے میں دوران سال صرف 0.3 ارب ڈالر کی خالص رقم آئی جبکہ پچھلے سال 1.3 ارب ڈالر اور م س 10ء میں 5.1 ارب ڈالر آئے تھے۔ اس کے ساتھ آئی ایم ایف کو قسطوں کی ادائیگی کے نتیجے میں اسٹیٹ بینک کے سیال زر مبادلہ ذخائر آخر جون 2013ء تک 6 ارب ڈالر رہ گئے جو 55 ماہ کی نچلی سطح ہے۔رپورٹ میں کہا گیا کہ اسٹیٹ بینک کی پیش گوئی کے مطابق جی ڈی پی کی نمو م س 14ء میں 3.0 سے 4.0 فیصد کی حدود میں ہوگی جو آئی ایم ایف کی نمو کی پیش گوئی 2.5 تا 3 فیصد سے زیادہ ہے۔

اگرچہ قبل ازیں رپورٹ ہونے والا اکتوبر 2013ء کے ڈیٹا پر مبنی گرانی کا منظرنامہ، 10.5 سے 11.5 فیصد کے درمیان تھا، تاہم تازہ ترین ڈیٹا کی بنیاد پر زیادہ حقیقت پسندانہ نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ مالی سال2013-14 میں اوسط گرانی 10 سے 11 فیصد کے درمیان رہے گی۔رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ آئی ایم ایف سے تین سالہ توسیعی فنڈ سہولت (6.64 ارب ڈالر) کی منظوری اور دیگر بین الاقوامی مالی اداروں سے متوقع رقوم کی آمد سے رواں مالی سال کے دوران ملکی بازار مبادلہ میں استحکام آنا چاہیے۔

متعلقہ عنوان :