طالبان سے مذاکرات کیلئے سمیع الحق یا فضل الرحمن جسے بھی ذمہ داری سونپی جائے ہمیں کوئی اعتراض نہیں ‘ شاہ محمود قریشی

ہفتہ 11 جنوری 2014 16:36

طالبان سے مذاکرات کیلئے سمیع الحق یا فضل الرحمن جسے بھی ذمہ داری سونپی ..

لاہور( اُردو پوائنٹ تازہ ترین اخبار۔ 11جنوری 2014ء) پاکستان تحریک انصاف کے وائس چیئرمین شاہ محمودقریشی نے کہا ہے کہ طالبان سے مذاکرات کیلئے مولانا سمیع الحق یا مولانا فضل الرحمن جسے بھی ذمہ داری سونپی جائے ہمیں کوئی اعتراض نہیں ،اے پی سی میں تمام جماعتیں طالبان سے مذاکرات کا فیصلہ دے چکی ہیں حکومت کیوں سنجیدگی نہیں دکھا رہی ،سرکلر ڈیٹ دوبارہ 300ارب تک پہنچ چکا ہے اورآٹھ سے دس گھنٹے لوڈ شیڈنگ بھی شروع ہو چکی ہے ،حکومت بتائے یوتھ لون اسکیم کے لئے 100ارب روپے کاکہاں سے بندوبست کیا جائیگا ؟،خیبرپختواہ میں بجلی کا کنٹرول وفاق کے پاس ہے اورچوری کی روک تھام بھی اسکی ذمہ داری ہے ، پیداوار اور تقسیم کا مکمل نظام دیا جائے بجلی سستی کر کے اورچوری روک کربھی دکھائیں گے۔

ہفتہ کے روز لاہورمیں صحافیوں سے گفتگوکرتے ہوئے شاہ محمودقریشی نے کہا کہ عابد شیر علی کے الزامات کی بھرپورمذمت کرتے ہیں ۔

(جاری ہے)

عابد شیر علی بتائیں کیا بجلی کا محکمہ وفاق کے زیر انتظام نہیں اور بجلی چوری کی روک تھام کس کی ذمہ داری ہے ۔ خیبر پختوانخواہ اپنی ضرورت سے زیادہ بجلی پیدا کررہا ہے جو دوسرے صوبوں کو بھی تقسیم کی جاتی ہے ۔ وفاق بجلی کی پیداواراورتقسیم کا مکمل انتظام ہمارے سپرد کرے نہ صرف بجلی سستی کرکے دکھائیں گے بلکہ چوری کی روک تھام بھی کریں گے۔

انہوں نے کہاکہ حکومت نے 488ارب روپے کے نوٹ چھاپ کرسر کلرڈیٹ ختم کیا ۔ لیکن یہ دوبارہ300ارب تک پہنچ گیا ہے اور موسم سرما میں آٹھ سے دس گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ جاری ہے ۔ انہوں نے کہاکہ ہمیں یوتھ لون اسکیم پر نہیں بلکہ اسکے ڈیزائن پر اعتراض ہے ۔ حکومت یہ بھی بتائے کہ اسکے لئے سالانہ 100ارب روپے کہاں سے آئیں گے اورحکومت خاموش کیوں ہے ؟۔انہوں نے کہاکہ کالا باغ ڈیم کی تعمیر کے لئے قومی اتفاق رائے نا گزیر ہے ۔

مسلم لیگ (ن) کی وفاق میں حکومت ہے وہ اسکی طرف پیشرفت کرے اسے کس نے روکا ہے ۔ تحریک انصاف ایسے کسی منصوبے کی حمایت نہیں کریگی جس سے وفاق کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہو ۔ بھاشا ڈیم پر پر سب صوبوں کااتفاق رائے ہے اس پرکیا پیشرفت ہوئی ہے ۔انہوں نے کہا کہ پنجاب اور سندھ میں بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کے معاملے میں شعبدہ بازی سے کام لیا گیا اورناٹک رچایا گیا ۔

پنجاب میں30جنوری کو کسی صورت انتخابات ممکن نہیں اور اسی وجہ سے جماعتیں اور امیدوار تذبذب کاشکارہیں ۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے خیبر پختوانخواہ میں بلدیاتی انتخابات کرانے کی تاریخ نہیں دی کیونکہ ہم سنجیدگی سے اسکے انعقاد کیلئے کوشاں ہیں اور ہو سکتا ہے کہ ہم پنجا ب اور سندھ سے پہلے انتخابات کرا دیں ۔ انہوں نے کہا کہ حکومت بتائے کہ وہ طالبان سے مذاکرات میں سنجیدہ ہے یا نہیں ۔ اس پر مزید پیشرفت کیلئے ایک اور اجلاس بلایاجائے ۔