سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے نیشنل ہیلتھ سروسز کااجلاس،1200افراد کو جعلی ڈاکٹر بنانے کاانکشاف، نیشنل کونسل برائے ہومیو پیتھک نے1200افراد کو جعلی ڈاکٹر بنا دیاجو معصوم لوگوں کی زندگیوں سے کھیل رہے ہیں، ادارے کے امتحانات کا سسٹم انتہائی خراب ہے،امتحانات میں نقل عام کی جاتی ہے، ملی بھگت کر کے پیپرز میں اضافی نمبر لگوائے جاتے ہیں،کمیٹی کو بریفنگ

بدھ 8 جنوری 2014 22:05

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔8 جنوری ۔2014ء) سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے نیشنل ہیلتھ سروسز میں انکشاف کیا گیا کہ نیشنل کونسل برائے ہومیو پیتھک نے1200 افراد کو جعلی ڈاکٹر بنا دیاجو معصوم لوگوں کی زندگیوں سے کھیل رہے ہیں، ادارے کے امتحانات کا سسٹم انتہائی خراب ہے،امتحانات میں نقل عام کی جاتی ہے اور ملی بھگت کر کے پیپرز میں اضافی نمبر لگوائے جاتے ہیں۔

سابقہ وفاقی وزیر برائے قومی صحت فردوعاشق اعوان کے دور میں بوگس بھرتیاں کر کے قومی خزانے کو لاکھوں روپے کا نقصان پہنچایا جا رہا ہے۔تفصیلات کے مطابق سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے نیشنل ہیلتھ سروسز کا اجلاس چیئرمین کمیٹی سینیٹر سید ظفر علی شاہ کی زیر صدارت پارلیمنٹ ہاؤس میں منعقد ہوا ۔ اجلاس میں سینیٹر ز ڈاکٹر کریم احمد خواجہ ، ثریا امیرالدین ، کلثوم پروین اور ہیمن داس کے علاوہ وفاقی وزیر صحت سائرہ افضل تارڑ ، سیکرٹری صحت امتیاز عنایت الہی ، نیشنل کونسل برائے ہومیو پیتھک، کالج آف فزیشن اینڈ سرجن آف پاکستان اور پی ایم ڈی سی کے اعلی احکام نے شرکت کی ۔

(جاری ہے)

قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں نیشنل کونسل برائے ہومیو پیتھک کے امتحانات کے چیئرمین نے کمیٹی کوبتایا کہ اس ادارے کی کونسل نے لوگوں سے ملی بھگت کر کے ادارے کی کارکردگی اور معیار کو انتہائی خراب کر دیا ہے۔1200افراد کو جعلی ڈاکٹر کی ڈگری بیچی گئی جو معصوم لوگوں کی زندگیوں سے کھیل رہے ہیں اور اس ادارے کے امتحانات میں نقل عام کی جاتی ہے ۔ اور رہی سہی کسر پیپر کے نمبروں میں پیسے دے کر اضافہ کروا لیا جاتا ہے ۔

اسی طرح سابقہ وفاقی وزیر برائے صحت فردوس عاشق اعوان کے دور میں 16 فرضی بھرتی کر کے قومی خزانے کو لاکھوں روپے کا نقصان پہنچایا جا رہا ہے ۔ رائل کالج بہاولپور ہومیوپیتھک کے حکام نے بھی الزام لگایا کہ کونسل کے صدر سیاسی اثر و رسوخ کی وجہ سے مختلف کالجوں کی رجسٹریشن نہیں کر رہے جس سے بہت سے اداروں کے طلباء متاثر ہو رہے ہیں۔ جس پر قائمہ کمیٹی نے سیکرٹری صحت سے سفارش کی کہ معاملے کی انکوائری کر کے معاملات کو حل کریں۔

قائمہ کمیٹی کو کالج آف فزیشن اینڈ سرجن کی کارکردگی پر بریفنگ دیتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ یہ ادارہ کارکردگی کے لحاظ سے دنیا کے ۶۲ ممالک میں پہلے نمبر پر ہے ۔ اور بین الاقوامی سطح پر پاکستان کا نام روشن کر رہا ہے ۔ سی پی ایس پی 1969 میں قائم ہوا تھا ۔ کالج کی ایک کونسل ہے جو پورے ملک میں ریجنل آفسز اور انتظامیہ کو کنٹرول کرتی ہے یہ کونسل کارکردگی اور بجٹ پر ایک سالانہ رپورٹ مرتب کرتی ہے ۔

یہ کونسل20 افراد پرمشتمل ہو تی ہے ۔ اس ادارے نے 26 ہزار افراد کو ڈاکٹر کی ڈگریاں جاری کی ہیں ۔17 ہزار سے زائدلوگوں کو اعلی تعلیم کے لیے وظائف بھی دیے ہیں ۔ اس ادارے کا بجٹ556 ملین روپے جبکہ اخراجات562 ملین روپے ہے۔ رکن کمیٹی ڈاکٹر کریم احمد خواجہ نے ادارے پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا یہ ادارہ اچھا کام کر رہا ہے مگر اس فیلڈ سے متعلق دوسرے اداروں کو اس سے مسائل درپیش ہیں ۔

گنگ ایڈورڈ کالج لاہور بھی اس ادارے سے متاثر ہوا ہے انہوں نے تجویز دی کہ پی ایم ڈی سی ، سی پی ایس پی اور ایم ڈیز، ایم ایس کے اداروں کے درمیان باہمی تعاون کو فروغ دینے کیلئے ایک ذیلی کمیٹی تشکیل دی جائے جو ان اداروں کے مابین باہمی فروغ کیلئے اقدامات کرے جس پر قائمہ کمیٹی نے ڈاکٹر کریم احمد خواجہ کی زیر صدارت ایک ذیلی کمیٹی تشکیل دی جو وفاقی وزیر کے ساتھ مل کر ان اداروں کے مابین باہمی تعاون کو فروغ دینے کیلئے ایک ماہ کے اندر ایک روپورٹ قائمہ کمیٹی کو پیش کرے گی ۔

قائمہ کمیٹی کو پی ایم ڈی سی کے حکام نے آگاہ کیا اس ادارے کے انتخابات ہو چکے ہیں مگر وزار ت صحت کی طرف سے تمام نوٹیفکیشن جاری نہیں کیے گئے کل۷۲ نوٹیفکیشن محکمہ صحت نے جاری کرنے تھے جن میں سے16 باقی ہیں ۔5 پر عدالت میں کیس کیے ہوئے ہیں محکمہ صحت باقیوں کے نوٹیفکیشن جاری کر دے تو اس ادارے کی کارکردگی متاثر ہونے سے بچ جائے گی ۔ جس پر قائمہ کمیٹی سیکرٹری صحت کو سفارش کی کہ وہ پی ایم ڈی سی کو نوٹیفکیشن جاری کرے سوائے ان کے جن پر عدالت میں کیسز چل رہے ہیں تاکہ ادارہ اپنا کارکردگی اور فنگشنز کو موثر بنا سکے ۔

متعلقہ عنوان :