الطاف حسین نے ملک کے آئینی وقانونی ماہرین اورسیاسی ودفاعی تجزیہ نگاروں کی خدمت میں سات نکات پیش کردیئے ،جنرل پرویزمشرف پر آرٹیکل 6کے تحت مقدمہ چلاکر پھانسی یاسخت سے سخت سزا دینے کامطالبہ کرنیوالے میرے بیان کردہ دلائل کے جواب میں ٹھوس دلائل پیش کریں یاپھراپنے مطالبات سے دستبردارہوجائیں،قائد ایم کیوایم ۔ اپ ڈیٹ

بدھ 8 جنوری 2014 21:38

لندن (اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔8 جنوری ۔2014ء) متحدہ قومی موومنٹ کے قائد الطاف حسین نے پاکستان کے باشعورعوام ، آئین اورقانون کے طالبعلموں اورخصوصاًملک کے چوٹی کے آئینی وقانونی ماہرین اورسیاسی ودفاعی تجزیہ نگاروں کومخاطب کرتے ہوئے کہاہے کہ وہ لوگ جو جنرل پرویزمشرف کو ملک میں ایمرجنسی کے نفاذ کا واحدذمہ دارقراردے کران پر آئین کے آرٹیکل 6کے تحت مقدمہ چلاکرانہیں پھانسی کی سزایاسخت سے سخت سزا دینے کامطالبہ کررہے ہیں میں تاریخ کی روشنی میں چندحقائق ایسے مطالبات کرنے والوں کے علم میں لاناضروری سمجھتاہوں تاکہ وہ یا تو میرے بیان کردہ ٹھوس دلائل کے جواب میں ٹھوس دلائل پیش کریں یاپھراپنے مطالبات سے دستبردارہوجائیں۔

میں نکتہ بہ نکتہ اپنے دلائل بیان کروں گا۔

(جاری ہے)

الطاف حسین نے کہاکہ 12اکتوبر1999ء کوایک جمہوری حکومت کوبرطرف کرکے مارشل لاء طرز کااقدام فوج کی جانب سے کیاجاتاہے جس لمحے پاک فوج کے جرنیلوں اورافسران نے جمہوری حکومت کی برطرفی کاآغاز کیااس وقت موجودہ ریٹائرڈچیف آف آرمی اسٹاف جنرل پرویز مشرف ایک غیرملکی دورے سے وطن واپس آرہے تھے اور جب فوج کے جرنیل اورافسران زمین پر حکومت کی برطرفی کے تمام تر اقدامات کررہے تھے اس وقت جنرل ریٹائرڈ پرویزمشرف ہوائی جہاز میں سوارتھے اور فضاوٴں میں سفرکررہے تھے۔

انہوں نے کہاکہ جنرل پرویزمشرف کی زمین پرآمدکے بعد فوج کے جرنیلوں کااجلاس ہواجس میں آئین کو abeyance میں ڈالنے (آئین کی عارضی معطلی) کا فیصلہ اوراعلان ہوا اورایک عبوری آئین جاری کیاگیااور سپریم کورٹ کے ججزسے اس پی سی او کے تحت حلف لینے کوکہاگیا لیکن اس وقت کے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس سعیدالزماں صدیقی ، جسٹس مامون قاضی، جسٹس ناصر اسلم زاہد، جسٹس خلیل الرحمن، جسٹس وجیہہ الدین احمد اورجسٹس کمال منصور عالم نے پی سی او کے تحت حلف لینے سے انکارکردیا۔

انہوں نے کہاکہ اس وقت سپریم کورٹ وہائیکورٹ کے جن ججز نے پی سی اوکے تحت حلف لیا ان میں جسٹس ارشادحسن خان، جسٹس افتخارمحمدچوہدری، جسٹس بشیر جہانگیری، جسٹس شیخ ریاض احمد، جسٹس عبدالرحمان اورجسٹس چوہدری محمدعارف شامل تھے ۔الطاف حسین نے کہاکہ12اکتوبر1999ء کوجب اس وقت کے وزیراعظم میاں نوازشریف نے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل پرویزمشرف کو ان کے عہدے سے برطرف کیا اورآئین کے تحت حاصل اپنے صوابدیدی اختیارات استعمال کرتے ہوئے اس وقت کے آئی ایس آئی کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل ضیاء الدین بٹ کوترقی دیتے ہوئے چیف آف آرمی سٹاف کے عہدے پر فائزکرنے کاتحریری حکم جاری کیا اور انہیں چیف آف آرمی اسٹاف کی وردی اوربیجز لگائے لیکن جی ایچ کیوکے جرنیلوں اورکورکمانڈرز نے وزیراعظم کے ان احکامات کو ماننے سے صاف انکارکردیا۔

جب 12اکتوبر99ء کوجنرل پرویزمشرف اوردیگرجرنیلوں نے آئین کی صریحاً خلاف ورذی کرتے ہوئے حکومت کاتختہ الٹا،آئین پاکستان کومعطل کیااوروزیراعظم کوحراست میں لیا تو لیفٹنٹ جنرل ضیاء الدین بٹ کوبھی گرفتار کرلیا گیا ۔انہوں نے کہاکہ آئینی وقانونی ماہرین اورسیاسی ودفاعی تجزیہ نگاراس بات کاکیاجواب دینا پسند کریں گے کہ وہ سپریم کورٹ کے جن جج صاحبان نے جنرل پرویزمشرف کے پی سی او کے تحت حلف اٹھایاانہوں نے آئین کی کس شق کے تحت 12 اکتوبر1999ء کے اقدام کودرست اورجائزقراردیا؟کس آئین کے تحت جنرل پرویزمشرف کی فوجی حکومت کو تین سال تک کام کرنے کی اجازت دی؟ اور کس آئین وقانون کے تحت فوجی حکومت کوآئین میں ترامیم کااختیاردیا؟۔

آج بعض سیاستداں،قانون داں اورآئینی ماہرین 12 اکتوبر1999ء کومنتخب حکومت کاتختہ الٹنے اور آئین کومعطل کرنے کے اقدام کو غیرآئینی قراردینے کے بجائے صرف 3نومبر2007ء کے ایمرجنسی کے نفاذکوآئین کی خلاف ورذی کیوں قراردے رہے ہیں؟ اوروہ 12 اکتوبر99ء کے فوجی اقدام کوقابل معافی یاجائز کس طرح قراردے رہے ہیں؟۔الطاف حسین نے کہاکہ ملک میں جنرل ایوب خان، جنرل یحیٰ خان اورجنرل ضیاء الحق نے مارشل لاء نافذکرکے آئین کی صریحاً خلاف ورذی کی لیکن ان میں سے کسی ایک جنرل کوبھی ایک گھنٹہ تو کجا ایک سکینڈ کیلئے بھی کسی جیل میں قید نہیں رکھاگیا۔

یہاں یہ وضاحت کرناضروری ہے کہ جنرل ضیاء الحق کے مارشل لاء دورحکومت میں نہ صرف اس وقت کی منتخب حکومت اوراسمبلیوں کوبرطرف کیاگیااورمنتخب وزیراعظم کو گرفتار کیا گیابلکہ منتخب وزیراعظم کوپھانسی پر لٹکابھی دیاگیا جبکہ دوسری طرف جنرل پرویزمشرف نے اس وقت کے وزیراعظم میاں نوازشریف کو عدالت سے سزاہونے کے باوجود نہ صرف معاف کیا بلکہ میاں نوازشریف کوانکے پورے خاندان ،نوکروں، خانساماوٴں اوردرجنوں صندوقوں سمیت سعودی عرب جانے کی اجازت دیدی۔

الطا ف حسین نے کہاکہ میراتمام آئینی و قانونی ماہرین اورسیاسی ودفاعی تجزیہ نگاروں سے سوال ہے کہ وہ میرے ایک ایک نکتہ کاوضاحت اوردلائل کے ساتھ جواب دیدیں کہ کس آئین اورقانون کے تحت صرف اورصرف جنرل پرویزمشرف کوایمرجنسی کے نفاذ کا تنہا ذمہ دارٹھہراکرانہیں جیل میں قیدکیاگیاہے؟ …اوراس اقدام میں انکے باقی شریک کارجرنیلوں اوران کے اقدامات کوجائز قرار دینے والوں کوآئین کی کس شق کے مطابق قیدوبند کی صعوبتوں اور عدالتوں میں کیسز بھگتنے سے آزاد قراردیاگیا ہے؟ الطاف حسین نے کہاکہ میںآ خرمیں آئین وقانون کے تمام ماہرین سے سوال کرتاہوں کہ وہ میرے بیان کردہ ان نکات کاآئین ، قانون اورلاجک کی روشنی میں جواب دیں تومیں ان کا مشکور ہوں گا ۔