سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کو پارلیمنٹ کو جوابدہ بنانے کیلئے نظام وضع کیا جائے ،سینیٹر فرحت اللہ بابر ، حکومت سرحد پر دہشتگردی کا معاملہ بھی حل کرے، کالعدم تحریک طالبان نے مذاکرات کی پیشکش کا جواب خود کش دھماکوں کے ذریعے دیا،سیاسی جماعتوں نے حکومت کو مذاکرات کا اختیار دیا لیکن جنگجوؤں نے پیشکش مسترد کر دی،سینیٹ میں اظہار خیال

پیر 6 جنوری 2014 22:53

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔6 جنوری ۔2014ء) پاکستان پیپلز پارٹی کے سینیٹر فرحت اللہ بابر نے مطالبہ کیا ہے کہ سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کو پارلیمنٹ کو جوابدہ بنانے کیلئے نظام وضع کیا جائے ، حکومت سرحد پر دہشتگردی کا معاملہ بھی حل کرے، کالعدم تحریک طالبان نے مذاکرات کی پیشکش کا جواب خود کش دھماکوں کے ذریعے دیا،سیاسی جماعتوں نے حکومت کو مذاکرات کا اختیار دیا لیکن جنگجوؤں نے پیشکش مسترد کر دی ۔

پیر کو سینیٹ کے اجلاس میں بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ افغانستان سے نیٹو فورسز کے انخلا کے بعد ملک میں سکیورٹی کی صورتحال مزید خراب ہو جائے گی۔ پاکستان اور افغانستان دونوں اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ دونوں ممالک میں ان کے دشمنوں کے ٹھکانے موجود ہیں۔ تحریک طالبان پاکستان نے گزشتہ ماہ نیشنل سکیورٹی کی کابینہ کمیٹی کی طالبان کو بات چیت کی پیشکش کی جس کے فوراً بعد ہی یہ پیشکش طالبان نے نہ صرف ٹھکرا دی بلکہ شمالی وزیرستان اور گریسی لائن میں امام بارگاہ پر خود کش حملہ کرکے اپنی نیت واضح کر دی۔

(جاری ہے)

انہوں نے متنبہ کیا کہ ملک میں سکیورٹی کی صورتحال انتہائی پیچیدہ ہونے والی ہے۔ انہوں نے کہا کہ مولانا فضل اللہ کی تحریک طالبان پاکستان کے سربراہ کی حیثیت سے تقرری کے بعد پاکستان اور افغانستان دونوں نے پہلی مرتبہ یہ دعویٰ کیا کہ دونوں ممالک میں ایک دوسرے کے دشمنوں کے ٹھکانے موجود ہیں۔ وقت آگیا ہے کہ ہم سچ کو تسلیم کریں کہ عسکریت پسند پاک افغان سرحد پر بلا روک ٹوک آسانی سے آمدورفت جاری رکھے ہوئے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ضرورت اس بات کی ہے کہ سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ سرحد پر عسکریت پسندی کے حوالے سے نگرانی کا نظام قائم کرے۔ انہوں نے کہا کہ پہلا اقدام یہ ہونا چاہیے کہ سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کو پارلیمنٹ کے سامنے جوابدہ بنایا جائے اور اس کے لئے قانون سازی کی جائے اور اس کے ساتھ ہی سکیورٹی ایجنسیوں کو یہ اختیار دیا جائے کہ ریاست کے خلاف سرگرمیوں میں ملوث عسکریت پسندوں کو حراست میں لے سکیں۔

انہوں نے کہا کہ وقت آگیا ہے کہ گمشدہ افراد کے معاملے پر ایک قانون بنایا جائے جس کی سفارش زبردستی غائب کئے جانے والے افراد کے بارے کمیشن اور سینیٹ نے بھی کی ہے اور سپریم کورٹ نے گمشدہ افراد کے کیس کی سماعت کے دوران ایسے ہی ریمارکس دے چکی ہے۔ وزیرداخلہ نے 17جون کو سینیٹ میں سکیورٹی صورتحال پر بحث کے دوران اس بات کو تسلیم کیا تھا کہ سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ اور سویلین اداروں میں سنجیدہ اختلافات پائے جاتے ہیں جس سے نمٹنے کا انہوں نے وعدہ کیا تھا۔ جب تک ان اختلافات کو ختم کرنے کے لئے اقدامات نہیں کئے جاتے اور سیاسی اور پارلیمانی نگرانی نہیں کی جاتی اس وقت تک یہی صورتحال رہے گی بلکہ آنے والے وقت میں صورتحال مزید بگڑ جائے گی۔