پاکستان کا جغرافیائی محل وقوع اور موجودہ جغرافیائی اور دفاعی ماحول ایک مضبوط اور متوازن بحری قوت کا متقاضی ہے ، اپنی دفاعی ضروریات کو صرف بیرونی ممالک سے دفاعی سازو سامان کے حصول کے ذریعے پورا کرنا مشکل تر ہوتا جارہا ہے، تبدیل ہوتے ہوئے جغرافیائی اور سیاسی حالات اس بات کا اشارہ کررہے ہیں کہ غیر ملکی دفاعی ٹیکنالوجی بالخصوص اعلی درجے کی ٹیکنالوجی تک رسائی آنے والے دنوں میں ناممکن ہوجائے گی ، خود انحصاری ہماری اولین ترجیح رہی ہے ، پاک بحریہ مقامی دفاعی صنعت بالخصوص کراچی شپ یارڈ سے بھر پور تعاون کررہی ہے تاکہ خو د انحصاری کی منزل جلد حاصل کی جاسکے،وائس چیف آف نیول اسٹا ف وائس ایڈمرل محمد شفیق کا کراچی شپ یارڈ اینڈ انجینئرنگ ورکس میں تیار کی جانے والی دو ٹگز کو پاک بحریہ کے حوالے کرنے کی تقریب سے خطاب

منگل 19 مارچ 2013 20:45

کراچی (اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔آئی این پی۔19مارچ۔2013ء) وائس چیف آف نیول اسٹا ف وائس ایڈمرل محمد شفیق نے کہا ہے کہ پاکستان کا جغرافیائی محل وقوع اور موجودہ جغرافیائی اور دفاعی ماحول ایک مضبوط اور متوازن بحری قوت کا متقاضی ہے تاکہ ملک کے بحری مفادات کا موثر انداز میں دفاع کیا جاسکے ۔ تاہم اپنی دفاعی ضروریات کو صرف بیرونی ممالک سے دفاعی سازو سامان کے حصول کے ذریعے پورا کرنا مشکل تر ہوتا جارہا ہے۔

مزید برآں تبدیل ہوتے ہوئے جغرافیائی اور سیاسی حالات اس بات کا اشارہ کررہے ہیں کہ غیر ملکی دفاعی ٹیکنالوجی بالخصوص اعلی درجے کی ٹیکنالوجی تک رسائی آنے والے دنوں میں یا تو ناممکن ہوجائے گی یااس کا حصول مشکل ہوجائے گا۔ لہذا خود انحصاری ہماری اولین ترجیح رہی ہے اور اسی کو مد نظر رکھتے ہوئے پاک بحریہ مقامی دفاعی صنعت بالخصوص کراچی شپ یارڈ سے بھر پور تعاون کررہی ہے تاکہ خو د انحصاری کی منزل جلد حاصل کی جاسکے۔

(جاری ہے)

وہ منگل کو کراچی شپ یارڈ اینڈ انجینئرنگ ورکس میں تیار کی جانے والی دو ٹگز باقاعدہ طور پر پاک بحریہ کے حوالے کرنے کی تقریب سے خطاب کررہے تھے ۔ انہوں نے کہاکہ پاکستان نیوی فلیٹ میں ان ٹگز کا اضافہ خود انحصار ی کی جانب اہم سنگ میل ہے۔ پاک بحریہ نے کراچی شپ یارڈ اینڈ انجینئر نگ ورکس کے ساتھ 15000ٹن گنجائش کا ایک فلیٹ ٹینکر کی تیاری کے معاہدے پر بھی دستخط کئے ہیں۔

تقریب سے خطاب کرتے ہوئے مہمان خصوصی نے کہا کہ پاکستان کا جغرافیائی محل وقوع اور موجودہ جغرافیائی اور دفاعی ماحول ایک مضبوط اور متوازن بحری قوت کا متقاضی ہے تاکہ ملک کے بحری مفادات کا موثر انداز میں دفاع کیا جاسکے ۔ تاہم اپنی دفاعی ضروریات کو صرف بیرونی ممالک سے دفاعی سازو سامان کے حصول کے ذریعے پورا کرنا مشکل تر ہوتا جارہا ہے۔

مزید برآں تبدیل ہوتے ہوئے جغرافیائی اور سیاسی حالات اس بات کا اشارہ کررہے ہیں کہ غیر ملکی دفاعی ٹیکنالوجی بالخصوص اعلی درجے کی ٹیکنالوجی تک رسائی آنے والے دنوں میں یا تو ناممکن ہوجائے گی یااس کا حصول مشکل ہوجائے گا۔ لہذا خود انحصاری ہماری اولین ترجیح رہی ہے اور اسی کو مد نظر رکھتے ہوئے پاک بحریہ مقامی دفاعی صنعت بالخصوص کراچی شپ یارڈ سے بھر پور تعاون کررہی ہے تاکہ خو د انحصاری کی منزل جلد حاصل کی جاسکے ۔

کراچی شپ یارڈ کی کاوشوں کو سراہتے ہوئے مہمان خصوصی نے کہا کہ کراچی شپ یارڈنے ہماری توقعات کے مطابق کام کیا ہے اور پاک بحریہ کے لئے نئے جہازوں کی تیاری اورمرمت کے حوالے سے بہت مثبت کردار ادا کیا ہے۔کراچی شپ یارڈ نے مشکل حالات میں جبکہ ساری دنیا میں جہاز سازی کی صنعت مجموعی طور پر تنزلی کا شکار ہے، اپنے آپ کو نہ صرف نئی زندگی بخشی ہے بلکہ غیر مثالی ترقی بھی کی ہے جس کے لئے وہ تعریف کا مستحق ہے۔

یہ کراچی شپ یارڈ کی ملک اور بیرونی ممالک کے لئے جہاز سازی اور انجینئرنگ کے بڑے منصوبوں کو پورا کرنے کی صلاحیت کا مظہر ہے جس سے کثیر زر مبادلہ کمایا اور بچایا جاسکتا ہے۔ پاک بحریہ اور کراچی شپ یارڈ کے درمیان 15000 ٹن گنجائش کے فلیٹ ٹینکر کی تیاری کا حالیہ سمجھوتہ اسی بات کی علامت ہے ۔ انہوں نے کراچی شپ یارڈ کو دوبارہ فعال بنانے میں پاک بحریہ کی جانب سے ہر ممکن تعاون کا یقین دلایا تاکہ مستقبل کے تمام منصوبوں کو بروقت مکمل کیا جاسکے۔

قبل ازیں اپنے خطبہ استقبالیہ میں کراچی شپ یارڈ کے مینیجنگ ڈائریکٹر رئیر ایڈمرل سید حسن ناصر شاہ نے کراچی شپ یارڈ کی کارکردگی کا مختصر جائزہ پیش کیا اور پاکستان نیوی کے لئے زیرتکمیل منصوبوں پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے بتایا کہ کراچی شپ یارڈ میں پاکستان نیوی کے 5پلیٹ فارمز زیرتعمیر ہیں۔ چوتھے F-22Pجہاز پی این ایس اسلط نے کامیابی سے ہاربر اور سی ٹرائلز مکمل کر لئے ہیں اور رواں سال اپریل میں اسے پاک بحریہ کے سپرد کر دیا جائے گا۔ علاوہ ازیں ایک فاسٹ اٹیک میزائل کرافٹ اور 32ٹن وزنی ایک ٹگ بھی زیر تعمیر ہیں جوطے شدہ وقت کے مطابق پاک بحریہ کے حوالے کر دی جائیں گی ۔ تقریب میں پاک بحریہ کے افسران اور کراچی شپ یارڈ کے انجینئرز اور ٹیکنیشنز کی ایک بڑی تعداد نے شرکت کی۔