سپریم کورٹ نے توہین عدالت قانون کالعدم قرار دے دیا، قانون آئین سے متصادم ، بدنیتی پر مبنی اور عدالت کے اختیارات کم کرنے کی کوشش ہے،کسی عہدیدار کو استثنیٰ نہیں دیا جاسکتا ،سپریم کورٹ کے پاس سزا دینے کا اختیار ہے،مقدمہ ایک جج سے دوسرے جج کو منتقل کرنے کا اختیار عدالت کے پاس ہے ،توہین عدالت کا2003 ء کاقانون نافذالعمل ہے ،21صفحات پرمشتمل مختصرفیصلے کامتن

جمعہ 3 اگست 2012 17:08

سپریم کورٹ نے توہین عدالت ایکٹ مجریہ 2012 کو کالعدم قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ قانون آئین سے متصادم ، بدنیتی پر مبنی اور عدالت کے اختیارات کم کرنے کی کوشش ہے،کسی بھی عہدیدار کو استثنیٰ نہیں دیا جاسکتا ،سپریم کورٹ کے پاس سزا دینے کا اختیار ہے،مقدمہ ایک جج سے دوسرے جج کو منتقل کرنے کا اختیار عدالت کے پاس ہے ، توہین عدالت کا2003 ء کاقانون نافذالعمل ہے ،عدالت نے توہین عدالت قانون کے خلاف دائر تمام درخواستیں قابل سماعت قرار دے دیں ۔

جمعہ کو چیف جسٹس افتخارمحمدچوہدری کی سربراہی میں عدالت عظمیٰ کے پانچ رکنی لارجر بنچ نے توہین عدالت کے نئے قانون کیخلاف درخواستوں کی سماعت کی۔ا س موقع پر دلائل دیتے ہوئے اٹارنی جنرل عرفان قادر نے کہا کہ صدر اور گورنر کے علاوہ کسی کو ذاتی حیثیت میں استثنیٰ حاصل نہیں،نئے قانون کے ذریعے توہین عدالت کی تعریف کے دائر کار کو وسعت دی گئی ہے،اس قانون میں آئین کی کسی دفعہ کو تبدیل نہیں کیا گیا ہے جس پر جسٹس شاکر اللہ جان نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ آر ٹیکل204میں توہین عدالت کے کئی حصے قانون سے نکال دیئے گئے ہیں۔

(جاری ہے)

دوران سماعت ایک موقع پر جسٹس خلجی عارف حسین نے کہا کہ آئین کے بہت سے الفاط توہین عدالت کے نئے قانون میں شامل نہیں۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ اکڈیمک بحث میں نہیں پڑنا