سانحہ 12مئی، چیف جسٹس کے راستے میں رکاوٹیں ختم نہ کرنے سے متعلق توہین عدالت کی درخواست کی سماعت یکم جون تک ملتوی۔چیف سیکرٹری سندھ ، وفاقی و صوبائی سیکرٹری داخلہ ، آئی جی سندھ اور دیگر حکام کو آئندہ سماعت کے موقع پر حاصر ہونے کا حکم،جواب داخل کرنے کیلئے ایک ماہ مہلت دینے کا مطالبہ مسترد ، توہین عدالت پر تو ایک گھنٹہ نہیں لگایا جاتا اور جواب داخل کرتے ہوئے ایک ماہ کی مہلت مانگی جا رہی ہے ، فاضل عدالت کے ریمارکس

منگل 22 مئی 2007 15:44

کراچی (اردوپوائنٹ تازہ ترین اخبار22 مئی2007) سندھ ہائی کورٹ نے بارہ مئی کو چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی کراچی آمد کے موقع پر ایئر پورٹ سے ہائی کورٹ تک راستوں پر سے رکاوٹیں نہ ہٹانے اور عدالتی حکم عدولی پر چیف سیکرٹری سندھ ، وفاقی و صوبائی سیکرٹری داخلہ ، آئی جی سندھ اور دیگر حکام کے خلاف توہین عدالت کی درخواست کی سماعت یکم جون تک ملتوی کرتے ہوئے تمام فریقین کو آئندہ سماعت پر حاضر ہونے کا حکم دیا ہے۔

عدالت نے فریقین کے وکلاء کی جانب سے جواب داخل کرنے کیلئے مہلت دینے کے مطالبے کو مسترد کرتے ہوئے اپنے ریمارکس میں کہا کہ عدالتی حکم کی خلاف ورزی میں تو ایک گھنٹہ نہیں لگاتے اور جواب داخل کرنے کیلئے ایک ماہ کا مطالبہ کیاجا رہا ہے۔ منگل کے روز جسٹس انور ظہیرجمالی اور جسٹس اطہر سعید پر مشتمل دو رکنی بنچ نے درخواست کی سماعت کی ۔

(جاری ہے)

وفاقی سیکرٹری داخلہ کمال شاہ،چیف سیکرٹری سندھ شکیل درانی،صوبائی سیکرٹری داخلہ غلام محمد محترم،آئی جی سندھ نیاز احمد صدیقی،سی سی پی او کراچی اظہر فاروقی توہین عدالت کے نوٹس پر حاضر ہوئے۔

پٹیشنر کی جانب سے منیر الرحمن ایڈوکیٹ نے پیروی کی ،اس موقع پر وکلا ابرار حسن ،صلاح الدین گنڈا پور اور دیگر بھی موجود تھے۔عدالت نے فریقین کے وکلا کی جانب سے جواب داخل کر نے کے لئے وقت مانگنے پر ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ عدالتی حکم کی خلاف ورزی میں آپ کو ایک گھنٹہ نہیں لگتا اور اس کے لئے آپ ایک ماہ کا وقت مانگ رہے ہیں ۔ عدالت نے حکم دیا کہ آئندہ سماعت کے موقع پر بھی پانچوں فریقین عدالت میں حاضر ہوں ۔

پاکستان اور سندھ بار کونسل کے صلاح الدین گنڈاپور اور یاسین آزاد اور کراچی بار کے صدر افتخار جاوید قاضی کی طرف سے دائر کی گئی سندھ ہائیکورٹ میں دائر کی جانے والی توہین عدالت کی درخواست میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ پاکستان انٹرنیشنل ہیومن رائٹس آرگنائزیشن کی درخواست پر عدالت نے حکومت سندھ کو چیف جسٹس آف پاکستان کو سیکیورٹی فراہم کرنے اور ان کی مرضی کے روٹ پر لے جانے کا حکم دیا تھالیکن بارہ مئی کو چیف جسٹس کی آمد کے موقع پر وفاقی اور صوبائی سیکرٹری داخلہ، چیف سیکرٹری سندھ ،آئی جی سندھ اور پولیس چیف کراچی نے اس حکم کی تعمیل نہیں کی جو توہین عدالت کے زمرے میں آتا ہے۔سماعت کے اختتام پر وکلا نے افریقین کے خلاف احتجاج کیا اور نعرے بازی کی ۔