مودی کی “اچانک “پاکستان آمد

اتوار 27 دسمبر 2015

Zabeeh Ullah Balghan

ذبیح اللہ بلگن

جمعہ کے روز بھارتی وزیر اعظم نرنیندر مودی نے اپنے آفیشل ٹویٹر اکاؤنٹ سے پاکستان اترنے کا اعلان کیا تو ذرائع ابلاغ سمیت سب ہی اس خبر پر حیرانگی کا شکار تھے۔بین الاقوامی ذرائع ابلاغ کا خیال ہے کہ پاک بھارت وزرائے اعظم کے مابین یہ ”اچانک“ملاقاتیں دراصل بیک ڈور سفارت کاری کا نتیجہ ہیں۔بھارتی وزیر اعظم روس اور افغانستان کے دورے پر تھے ۔

واپسی پر انہیں کابل سے دہلی جانا تھا جبکہ انہوں نے جمعہ کی دوپہر اپنے ٹویٹر اکاؤنٹ سے ٹویٹ کیا کہ وہ کابل سے واپسی پر لاہور میں میاں نواز شریف کو سالگرہ کی مبارک دینے کیلئے کچھ دیر قیام کریں گے ۔ یہاں قابل ذکر امر یہ ہے کہ بھارتی وزیر اعظم نے پاکستان کے حوالے سے ماسکو اور کابل میں جو رویہ اختیار کیا وہ میاں نواز شریف کے ساتھ ملاقات سے یکسر مختلف تھا ۔

(جاری ہے)

بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے اپنے دو روزہ دور ہ روس کے دوران بھارت اور روس کے مابین ہونے والے 16 اہم معاہدوں پر دستخط کئے ۔ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے ماسکو میں جاری ہونے والے مشترکہ بیان میں کہا کہ بھارت میں روسی ساخت کا امووف 226 ہیلی اپٹر بنانے پر ہونے والا سمجھوتہ، میک ان انڈیا کے تحت پہلا بڑا دفاعی منصوبہ ہے۔مودی نے کہا کہ جوہری توانائی کے حوالے سے ہمارے درمیان تعاون بڑھ رہا ہے۔

بھارت میں دو مقامات پر 12 روسی ایٹمی ری ایکٹر بنانے کے معاملے میں ہم آگے بڑھ رہے ہیں۔ مشترکہ بیان میں روسی صدر ولاد میر پوتن نے کہا کہ روس اگلے دو عشروں میں بھارت میں دو جگہوں پر چھ ایٹمی ری ایکٹر بنائے گا۔ ہمیں یاد رہنا چاہئے کہ رواں برس جب روس نے پاکستان کو حملہ کرنے کی صلاحیت رکھنے والے ہیلی کاپٹر فروخت کرنے کا فیصلہ کیا تو بھارت نے اس پر ناراضی کا اظہار کیا تھا۔

مودی کے دورہ روس کے دوران دونوں ممالک میں اتفاق کیا گیا کہ دونوں ممالک کے شہریوں اور سفارتی پاسپورٹ رکھنے والوں کی آمد و رفت کے لیے بعض قوانین اور ضوابط کو آسان بنایا جائے گا،ہیلی کاپٹر انجینیئرنگ کے شعبے میں تعاون بڑھے گا، کسٹم سے متعلق کئی امور پر تعاون کی منصوبہ بندی ہوگی۔ اس کے علاوہ روس کے جوہری ری ایکٹرز بھارت میں بنائے جانے پر اتفاق کیا گیا۔

بھارت میں شمسی توانائی کے پلانٹ لگانے اور نشریات کے شعبے میں تعاون پر سمجھوتے اور روس میں تیل کی کان کنی جیسے معاہدوں پر بھی دستخط کیے گئے ہیں۔بھارتی وزیر اعظم مودی نے کہا کہ اگلے برس ہونے والی برکس کانفرنس اور دونوں ممالک کے سالانہ اجلاس کے دوران صدر پوتن بھارت آئیں گے۔
ماسکو سے واپسی پر بھارتی وزیر اعظم ایک روزہ دورہ پر افغانستان کے دارالحکومت کابل گئے جہاں انہوں نے افغانستان کی پارلیمان کی نئی عمارت کا افتتاح کیا۔

یہ عمارت بھارت کی طرف سے افغانستان کے عوام کے لیے ایک تحفہ ہے جو کئی سو ملین ڈالر کی مالی معاونت سے بھارت کے انجینئروں نے بنائی ہے۔پارلیمان کی عمارت کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے نریندر مودی کا کہنا تھا کہ بعض قوتیں افغانستان اور بھارت تعلقات پر نالاں ہیں اور نہیں چاہتیں کہ بھارت افغانستان میں سرمایہ کاری اور تعمیر و ترقی میں حصہ لے ۔

دراصل بھارتی وزیر اعظم کا واضح اشارہ پاکستان کی جانب تھا ۔ اس کے علاوہ بھارتی وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ کچھ ممالک دہشت گردی ایکسپورٹ کر رہے ہیں اور انہیں اس عمل سے باز رہنا چاہئے ۔ ماہرین کے نزدیک بھارتی وزیر اعظم نے دہشت گردی ایکسپورٹ کرنے کے حوالے سے بھی پاکستان کو ہی مخاطب کیا ہے ۔ اس پس منظر کے بعد اب آپ بھارتی وزیر اعظم کی پاکستان آمد کو دیکھئے ۔

بھارتی وزیر اعظم کابل سے دہلی جانے کی بجائے لاہور اترتے ہیں اور پاکستانی وزیر اعظم میاں نواز شریف کی زاتی رہائش گاہ جاتی عمرہ میں دو گھنٹے قیام کرتے ہوئے دہلی روانہ ہو جاتے ہیں۔
ساجن جندل کون ہے؟
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ بھارتی وزیر اعظم کے پاکستان آنے کے اعلان کے ایک گھنٹہ بعد ہی بھارتی بزنس مین ساجن جندل نے اعلان کیا کہ وہ میاں نواز شریف کی سالگرہ میں شریک ہیں ۔

اس اعلان کے ساتھ انہوں نے اپنی اہلیہ کے ساتھ ایک تصویر بھی ٹویٹر پر شیئر کی جس میں دونوں میاں بیوی جاتی عمرہ کے ایک کوریڈور میں مسکرا تے ہوئے سیلفی لے رہے ہیں ۔واضح رہے کہ ساجن جندل بھارت میں سٹیل کے بڑے سرمایہ کار ہیں اورجندل خاندان کے جے ایس ڈبلیو گروپ کے چیئر مین اور مینیجنگ ڈائریکٹر ہیں۔یاد رہے کہ بھارتی صحافی برکھا دت نے حال ہی میں شائع ہونے والی اپنی کتاب میں اس خاندان کے پاکستان بھارت تعلقات میں کردار کا ذکر کیا ہے۔

ان کے بقول مودی کی حلف برداری کی تقریب میں نواز شریف کے دورہ بھارت کے دوران نوین جندل نے نواز شریف کے صاحبزادے کی دعوت بھی کی تھی۔ جندل کی ٹویٹ سے قبل ہی بھارتی صحافی برکھا دت نے ٹویٹ کیا کہ اندازہ لگائیں نریندر مودی کے علاوہ لاہور میں اور کون ہے ؟۔جندل کا نام لینے کے بعد بھارتی صحافی نے کہا میں نے کہا تھا ناکہ سارک کانفرنس کے دوران بھارتی اور پاکستانی وزرائے اعظم کے مابین ایک گھنٹہ طویل خفیہ ملاقات جندل نے ہی کروائی تھی ۔

اسی طرح بھارتی صحافی کے بقول جندل فیملی کے پاکستانی وزیر اعظم میاں نواز شریف اور بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے ساتھی قریبی تعلقات ہیں اور یہی فیملی دونوں ممالک کے وزرائے اعظم کے مابین ”اچانک“ملاقاتوں کا بندوبست کرتی ہے۔
نواز مودی ملاقاتوں کا مرحلہ وار جائزہ
2013 کے عام انتخابات میں کامیابی کے بعدوزیراعظم نواز شریف نے ملک کی معاشی حالت کو بہتر بنانے کے لیے بھارت سے تعلقات کو بہتر کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔

بلکہ میاں نواز شریف نے اپنی پہلی تقریر میں یہاں تک کہا کہ پاکستان کے عوام نے انہیں بھارت سے دوستی کا مینڈیٹ دیا ہے ۔ جبکہ بھارت میں 2014 کے انتخابات میں کامیابی کے بعد نریندر مودی نے اقتدار سنبھالا تو انہوں نے اپنی حلف برداری کی تقریب میں پاکستانی وزیر اعظم میاں نواز شریف کو مدعو کیا ۔طویل مشاور ت کے بعد میاں نواز شریف نے نریندر مودی کی حلف برداری کی تقریب میں شریک ہونے کا فیصلہ کیااور یوں دونوں رہنماؤں کے درمیان 27 مئی کو ملاقات ہوئی جس میں مودی نے دہشت گردی پر تشویش کا اظہار کیا تو نواز شریف نے محاذ آرائی چھوڑنے پر اصرار کیا تھا۔

اس ملاقات میں دونوں رہنماؤں نے سیکریٹری خارجہ سطح پر رابطے قائم رکھنے پر اتفاق کیا اور اس کے علاوہ بات آگے نہیں بڑھ سکی بلکہ دو ماہ بعد ہی اس سے بھی پیچھے چلی گئی جب 12 اگست کو وزیراعظم نریندر مودی نے کشمیر کے دورے کے دوران پاکستان پر در پردہ جنگ کا الزام اس وقت عائد کیا جب دونوں رہنماؤں کے درمیان خطوط اور تحائف کے تبادلوں کے برعکس لائن آف کنٹرول اور ورکنگ بانڈری پر دونوں ممالک کی سکیورٹی فورسز کے درمیان جھڑپوں کا سلسلہ ایک وقفے کے بعد دوبارہ شروع ہو چکا تھا۔

اس کے بعد 18 اگست کو بھارت میں پاکستان کے ہائی کمشنر عبدالباسط نے بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے علیحدگی پسند رہنماؤں سے ملاقات کی تو اس کے ردعمل میں بھارت نے 25 اگست سے سیکریٹری سطح کے مجوزہ مذاکرات کو منسوخ کرنے کا اعلان کر دیا۔ البتہ پاکستان کے صوبہ پنجاب میں شدید بارشوں اور سیلاب سے ہونے والے نقصانات پر وزیراعظم مودی نے اپنے پاکستانی ہم منصب کو خط ضرور لکھا اور مدد کی پیشکش بھی کی۔

اسی ماہ 27 ستمبر کو ملک میں سیاسی عدم استحکام سے دوچار وزیراعظم نواز شریف اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب میں کشمیر کے تنازعے پر کھل کے بات کی اور بھارت کی امن کی کوشش میں سنجیدہ نہ ہونے پر تنقید کی جبکہ بھارتی وزیراعظم مودی نے کہا کہ پاکستان سے بات چیت کے لیے تیار ہیں تاہم پاکستان کو اس کے لیے تشدد سے پاک ماحول مہیا کرنا ہو گا۔

دونوں رہنماؤں کے درمیان نیویارک میں اس موقعے پر ملاقات نہیں ہو سکی۔
اس کے بعد دونوں رہنماؤں کے درمیان باضابط ملاقات کا موقع نومبر نیپال کے دارالحکومت کٹھمنڈو میں سارک کانفرنس کے دوران آیا لیکن اس اجلاس سے پہلے پاکستان کشمیر کے مسئلے پر اپنے موقف میں سختی لایا اور دونوں رہنماؤں کے درمیان نتیجہ خیز بات چیت نہ ہو سکی ۔ ماہ دسمبر میں پاکستان کے شہر پشاور میں فوجی سکول پر طالبان کے حملے میں بچوں سمیت 140 سے زائد افراد شہید ہو گئے اور اس کے بعد ملک کی صورت حال یکسر تبدیل ہو گئی۔

اس واقعے کی بھارتی وزیراعظم مودی نے مذمت کی اور فروری میں انھوں نے وزیراعظم نواز شریف سے ٹیلی فون پر بات بھی کی اور اسی کے نتیجے میں ایک پیش رفت اس وقت ہوئی جب مارچ کے پہلے ہفتے میں بھارتی سیکریٹری خارجہ ایس جے شنکر نے اسلام آباد کا دو روزہ دورہ کیا اور کہا کہ سرحدوں پر امن قائم رکھنا انتہائی ضروری ہے۔چینی صدر کی آمد اور اقتصادی راہداری کے منصوبے کے بعد پاک بھارت تعلقات میں زیادہ تلخی آئی۔

اس دورے کو پیش رفت کہا گیا لیکن دیکھتے ہی دیکھتے دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کشیدہ سے کشیدہ ہوتے چلے گئے جس میں اپریل میں پاکستان نے پہلے ممبئی حملہ کیس میں گرفتار ذکی الرحمان لکھوی کو رہا کر دیا اور اس پر بھارت نے احتجاج کیا اور معاملے کو سکیورٹی کونسل میں اٹھانے کا اعلان کر دیا جبکہ پاکستان نے مئی میں سفارتی سطح پر بھارتی انٹیلی جنس ایجنسی را پر الزام عائد کیا کہ یہ پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث ہے۔

دونوں ملکوں کے درمیان سیکریٹری خارجہ سطح پر مذاکرات کے بعد الزام تراشیوں کا سلسلہ اس وقت شروع ہوا جب 20 اپریل کو پاکستان اور چین کے درمیان اقتصادی راہداری سے متعلق معاہدے طے پائے اور کراچی میں بلوچستان میں جاری شورش سے متعلق کراچی میں ایک سیمینار کے بعد سماجی کارکن سبین محمود کا قتل ہوا۔پانچ مئی کو بری فوج کے کور کمانڈروں کے اجلاس میں پہلی بار فوج کی جانب سے کھلے عام بھارتی خفیہ ایجنسی را کی ملکی معاملات میں مداخلت کا تشویش کا اظہار کیا گیا اور اس کے بعد پاکستان کے دفتر خارجہ نے بھی ملک میں دہشت گردی کے واقعات میں را کے ملوث ہونے کا الزام عائد کیا۔

ان الزامات کے بعد دونوں ممالک کے درمیان مذاکرات دوبارہ شروع ہونے کی امیدیں دم توڑ گئیں اور اگلے ماہ جون میں بنگلہ دیش کے دورے پر گئے ہوئے بھارتی وزیرِ اعظم نریندر مودی کے اس بیان نے، کہ بنگلہ دیش کا قیام ہر بھارتی کی خواہش تھی، پاکستان میں ایک طوفان برپا ہو گیا اور مودی کے خلاف قومی اسمبلی میں قراداد منظور کی گئی اور بھارتی وزیراعظم کے بنگلہ دیش سے متعلق بیان کو اقوام متحدہ میں اٹھانے کا اعلان بھی کیا گیا۔

بری فوج کے کور کمانڈرز نے بھارتی خفیہ ایجنسی را کی پاکستان میں دہشت گردی کی سرگرمیوں میں ملوث ہونے پر تشویش کا اظہار کیا گیا
اس سے پہلے بھارتی وزیراعظم چین کے دورے پر گئے تھے اور انھوں نے پاک چین اقتصادی راہداری پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا جبکہ وزیراعظم نواز شریف کے مطابق چین نے بھارتی تحفظات کو مسترد کر دیا تھا۔ابھی یہ معاملہ ٹھنڈا ہوا ہی نہیں تھا کہ بھارتی وزیرِ مملکت برائے اطلاعات و نشریات راجیہ وردھن سنگھ راٹھور نے برمی سرحد کے اندر بھارتی فوج کی کارروائی کو پاکستان سمیت ان دوسرے ممالک کے لیے ایک پیغام قرار دیا جہاں بھارت مخالف شدت پسند نظریات والے لوگ بستے ہیں۔

بھارتی وزیرِ مملکت کے بیان کے بعد دونوں ممالک کے تعلقات انتہائی کشیدہ ہو گئے اور اس کسی بھی ممکنہ جارحیت کی صورت میں جوہری ہتھیار استعمال کرنے کی باتیں بھی کی گئیں۔ جون میں ہی امریکہ نے پاکستان اور بھارت کے درمیان حالیہ کشیدگی کم کرنے کے لیے اعلی سطح پر کوششیں شروع کیں اور امریکی وزیر خارجہ نے صورت حال پر وزیراعظم نواز شریف سے ٹیلی فون پر بات کی اور اس کے بعد وزیراعظم مودی نے اپنے پاکستانی ہم منصب سے ٹیلی فون پر بات کی اور ماہِ رمضان کے آغاز کی مبارکباد دی اور اس سے برف تھوڑی پگھلی۔

اسی دوران پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی کی سب سے بڑی جماعت متحدہ قومی موومنٹ کی بھارت سے مالی و عسکری تعلقات کے خبریں نمایاں رہیں اور اس کے ساتھ پاکستان کی افغانستان میں قیامِ امن کے لیے افغان طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے کی خبروں کا تذکرہ رہا۔اس کے بعد جولائی میں بھارتی وزیراعظم اور وزیراعطم نواز شریف کی روسی شہر اوفا میں ملاقات ہوئی ہے۔

یہ ملاقات شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس کے موقعے پر ہوئی۔ اس تنظیم کے دو اہم رکن ممالک چین اور روس دونوں خطے میں امن چاہتے ہیں جبکہ پاکستان اور بھارت دونوں اس تنظیم کے مستقل رکن بننے کی خواہش رکھتے ہیں۔افغانستان اور پاکستان کے تعلقات میں بہتری آئی اور افغان طالبان کے وفود نے افغان حکومت سے مری میں بات چیت کی اس ملاقات کو عالمی دباؤ کا نتیجہ بھی کہا جا سکتا ہے اسی طرح گزشتہ ماہ نومبر میں فرانس کے دارالحکومت پیرس میں عالمی ماحولیاتی تبدیلیوں پر عالمی کانفرنس کے موقع پر وزیراعظم نواز شریف کی اپنے بھارتی ہم منصب نریندر مودی سے غیر رسمی ملاقات ہوئی ۔

پیرس کانفرنس میں دونوں رہنماؤں کے درمیان رسمی ملاقات طے نہیں تھی تاہم اس مختصر ملاقات کو دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کے حوالے سے مثبت قرار دیا گیا کیونکہ اس سے پہلے دونوں رہنماؤں نے اقوام متحدہ کے اجلاس کے موقع پر ایک دوسرے سے ہاتھ ملانے سے بھی گریز کیا تھا۔ پیرس میں وزیراعظم نواز شریف اور وزیراعظم مودی نے نہ صرف مسکراتے ہوئے ہاتھ ملائے بلکہ جاری کی گئی ویڈیو میں دونوں رہنما ہال میں موجود صوفوں پر ایک دوسرے سے بات کر رہے تھے ۔

اب بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی لاہور آمد اور دونوں رہنماؤں کی ملاقات کے بعد تعلقات میں بہتری کی باتیں ایک بار پھر کی جارہی ہیں تاہم ہمیں یاد رہنا چاہئے کہ ماضی میں ایسے کئی مواقع آئے جب دونوں ہمسایوں نے اپنے رشتوں کو مضبوط کرنے کے عہد کیے لیکن یہ کبھی وفا نہیں ہو سکے۔
واجپائی فارمولاکیا ہے؟
پاک بھارت وزرائے اعظم ملاقات کے اختتام پر بعض اخباری رپورٹرز نے رپورٹ کیا کہ مودی نواز ملاقات میں واجپائی فارمولہ پر اتفاق کیا گیا ہے ۔

قارئین کو یاد ہونا چاہئے کہ 1999ء میں اٹل بہاری واجپائی بھارت کے وزیر اعظم تھے اور وہ اس وقت کے پاکستانی وزیر اعظم میاں نواز شریف کی دعوت پر واہگہ کے راستے لاہور آئے تھے ۔یہاں یہ بات بھی قابل زکر ہے کہ 1999ء میں بھی بھارت میں بے جے پی کی حکومت تھی اور آج بھی بے جے پی ہی کی حکومت ہے اسی طرح تب بھی پاکستان میں میاں نواز شریف وزیر اعظم اور میاں شہباز شریف وزیر اعلیٰ پنجاب تھے جبکہ آج بھی یہ دونوں بھائی انہی مناصب پر فائز ہیں ۔

اٹل بہاری واجپائی نے 1940 کی قرارداد پاکستان کی یاد میں بنائے جانے والے مینار پاکستان کے تلے کھڑے ہو کر پاکستان کو ایک حقیقت تسلیم کرنے کی بات کی تھی۔اس موقعے پر 21 فروری کو دونوں ملکوں کے وزیر اعظموں نے لاہور ڈیکلریشن پر دستخط کیے تھے۔16 نکات پر مشتمل یہ ڈیکلریشن دونوں ملکوں کے خوشحال مستقبل، خطے میں امن اور استحکام، دونوں ملکوں کے عوام میں دوستانہ اور برادرانہ تعلقات اور تعاون کے عزم کے اظہار سے شروع ہوا تھا۔

جوہری ہتھیاروں کے بارے میں کہاگیا تھا کہ جوہری صلاحیت دونوں ملکوں پر یہ اہم ذمہ داری عائد کرتی ہے کہ دونوں ملک مسلح تصادم سے بچیں۔اس معاہدے میں شملہ معاہدے پر مکمل طور پر عملدرآمد کرنے کا اعادہ بھی کیا گیا تھا۔لاہور ڈیکلریشن میں 28 ستمبر سنہ 1998 کے معاہدے کا ذکر کرتے ہوئے کہاگیا تھا کہ امن اور استحکام دونوں ملکوں کے عظیم ترین ملکی مفاد میں ہے اور جموں اور کشمیر سمیت تمام مسائل کو حل کرنا اس مقصد کے لیے انتہائی ضروری ہے۔

اس ڈیکلریشن میں یہ بھی کہاگیا تھا کہ دونوں ملک جموں و کشمیر کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے کوششیں تیز کر دیں گے۔اس میں یہ بات بھی کی گئی تھی کہ دونوں ملک ایک دوسرے کے اندرونی معاملات میں مداخلت سے گریز کریں گے۔
مودی کی آمد پر پاکستانی دفتر خارجہ کا موقف
سرکاری ٹی وی نے پاکستانی وزارت خارجہ کے حوالے سے خبر نشر کی کہ پاکستان اور بھارت کے وزرائے اعظم نے لاہور میں ہونے والی ملاقات میں دو طرفہ روابط بڑھانے، تعلقات کی بہتری اور امن کے عمل کو آگے بڑھانے پر اتفاق کیا ہے۔

خبر کے مطابق وزیراعظم نواز شریف اور بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے کہا کہ امن کا مقصد پاک بھارت عوام کی خوشحالی ہے۔ دونوں رہنماؤں نے تعلقات کی بہتری کے لیے باہمی کام کرنے پر بھی اتفاق کیا ہے۔پاکستان نے کہا ہے کہ پاک بھارت وزرائے اعظم کی ملاقات خوشگوار ماحول میں ہوئی اور اس کے دوران امن کے قیام اور تعلقات کی بہتری کے لیے اتفاقِ رائے کیا گیا۔

اس کے علاوہ یہ اعلان کیا گیا ہے کہ دونوں ممالک کے سیکریٹری خارجہ کے درمیان جنوری کے وسط میں ملاقات ہو گی۔پاکستان کے سیکریٹری خارجہ اعزاز چوہدری نے بھارتی وزیراعظم کی دہلی روانگی کے بعد ایئر پورٹ پر میڈیا کے نمائندوں کو بتایا کہ وزیراعظم نریندر مودی کا یہ دورہ خیرسگالی کادورہ تھا۔اعزاز چوہدری کا کہنا تھا کہ بھارتی وزیراعظم کے ساتھ ان کے سلامتی کے مشیر بھی موجود تھے جس میں پاکستان کی جانب سے وزیراعلی پنجاب شہباز شریف اور وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار اور وہ خود بھی موجود تھے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ ملاقات بڑے خوشگوار ماحول میں ہوئی۔ دونوں وزرائے اعظم نے خیرسگالی کے ماحول میں ملاقات کی۔انھوں نے کہا کہ بھارتی وزیراعظم نے کہا تھا کہ وہ کابل سے واپسی پر پاکستان آنا چاہتے ہیں اور وزیراعظم نے اسے خوش آئند قرار دیا۔ایئرپورٹ پر صحافیوں سے گفتگو میں پاکستان کے سیکریٹری خارجہ اعزاز چوہدری نے سوالات کے جواب میں کہا کہ پاکستان کی سول اور عسکری قیادت متحد ہے تاہم ان کے مطابق یہ دورہ نہایت مختصر نوٹس پر ہوا جس کے باعث اہم حکومتی شخصیات وزرائے اعظم کی ملاقات میں شریک نہیں ہو سکے۔

انھوں نے بتایا کہ وہ چونکہ لاہور میں موجود تھے اس لیے اس ملاقات میں شریک ہو سکے۔ اگر تھوڑا زیادہ نوٹس ہوتا تو ہمارے مشیرِ خارجہ سرتاج عزیز صاحب، نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر ناصر جنجوعہ صاحب اور دیگر جن کی ضرورت ہوتی وہ موجود ہوتے۔
“اچانک “ملاقاتیں ہی کیوں؟
یہاں سوال اپنی جگہ اہمیت کا حامل ہے کہ پاک بھارت وزرائے اعظم کے مابین ہونے والی یہ ملاقاتیں طے شدہ ہیں یا ”اچانک“ہیں؟۔

اگرچہ دونوں ممالک کے وزرائے اعظم ان ملاقاتوں کو اچانک قرار دیتے ہیں تاہم واقفان حال کا کہنا ہے کہ دونوں رہنماؤں کے درمیان ہونے والی ملاقاتیں اتنی بھی”اچانک“نہیں جس قدر انہیں اچانک بیان کیا جاتا ہے ۔ کہا جا رہا ہے کہ دونوں ممالک کے وزرائے اعظم بیک ڈور چینل سفارت کاری کے فارمولے پر عمل پیرا ہیں اور نہیں چاہتے کہ ملاقاتوں میں ہونے والی گفتگو کے حوالے سے میڈیا کو قیاس آرائیوں یا تجزیوں کا موقع ملے ۔

دراصل دونوں ممالک میں بعض ایسے عناصر موجود ہیں جو نہیں چاہتے کہ پاک بھارت تعلقات معمول کے مطابق استوار ہوں شائدیہی وجہ ہے کہ دونوں ممالک کے وزرائے اعظم نے بیک ڈور چینل سفارت کاری کا راستہ اختیار کیا ہے ۔یہاں یہ بات بھی قابل زکر ہے کہ بھارتی وزیر اعظم کی لاہور آمد کے خلاف اسی روز جماعت اسلامی کی جانب سے مظاہرہ کیا گیا ۔مظاہرین سے خطاب کرتے ہوئے جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق کا کہنا تھا کہ نریندر مودی کشمیریوں کا قاتل ہے جبکہ اسے پاکستان میں عزت اور تعظیم سے نوازا جا رہا ہے ۔

جماعت اسلامی کے امیر کی طرح پاکستان میں ایک طبقہ ایسا موجود ہے جو بھارت کے ساتھ تعلقات تو قائم کرنا چاہتا ہے تاہم اس سے قبل متنازعہ ایشو ز کو حل کرنے کرنے کا مطالبہ کرتا ہے ۔ اس طبقے کا خیال ہے کہ بھارت کے ساتھ پہلے کشمیر کے ایشو پر بات ہونی چاہئے اور کشمیر یوں کو اقوام متحدہ کی قرار داد کے مطابق استصواب رائے کا حق ملنا چاہئے ۔ دوسری جانب بھارت کا خیال ہے کہ کشمیر سمیت دیگر متنازعہ ایشو ز کو بعد میں موضوع گفتگو بنایا جائے پہلے تجارت پر بات کی جائے۔

بھارت کی شدید خواہش ہے کہ افغانستان سے آنے والے ٹرکوں کو واہگہ کی بجائے اٹاری تک اجازت دی جائے ۔بھارتی اور افغان حکام پاکستان سے محفوظ راہداری کا مطالبہ توکرتے ہیں تاہم پاکستان اور بھارت کے درمیان دیگر مسائل پر ٹال مٹول سے کام لیتے ہیں ۔بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی لاہور آمد کو اگرچہ اچانک قرار دیا جا رہا ہے تاہم حقیقت یہ ہے کہ مودی کی لاہور آمدپاکستانی وزیر اعظم یا پاکستان کیلئے تو کسی نفع کا باعث نہیں بن سکتی البتہ بھارتی وزیر اعظم جن پر بہار کے انتخابات میں شکست کے بعد شدید دباؤ تھا ، کے گراف کو بہتر کرنے میں ممد و معاون ثابت ہوگی ۔

ہمیں یاد رہنا چاہئے کہ بین الاقوامی سطح پر نریندر مودی کا انتہائی منفی روپ سامنے آرہا تھا ،کہ مودی ایک ایسا وزیر اعظم ہے جس کے دور اقتدار میں بھارت میں انتہا پسندی کو فروغ ملاہے اور اقلیتیں غیر محفوظ ہو گئی ہیں ۔یہ وہی بھارتی وزیر اعظم ہیں جن کے خلاف بھارتی شعرا اور ادیب قومی اعزازات واپس کر رہے ہیں جبکہ معروف اداکار بھارت میں غیر محفوظ ہونے کا عندیہ دے رہے ہیں ۔ ان حالات میں اس طرح کی ”اچانک“ملاقاتیں نریندر مودی کے عالمی امیج کوبہتر بناسکتی ہیں اور شائد یہی وجہ ہوکہ نیپال کی طرح ایک بار پھر بھارتی سرمایہ کار ساجن جندل نے اس ”اچانک“ملاقات کا بندو بست کر دیا ہو۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :