میں اور میرا بکرا

جمعرات 24 ستمبر 2015

Zabeeh Ullah Balghan

ذبیح اللہ بلگن

میں نے طے کر لیا ہے اس بار عید پر قربانی نہیں کرنی ۔ بہت جانور قربان کر چکے اور بہت خون بہا لیا اب یہ کھیل ختم ہونا چاہئے ۔میں نے اپنے دادا اور والد کو ہر سال بڑی عید پر جانور قربان کرتے دیکھا ۔وہ جب اس دنیا میں نہ رہے اور اختیار میرے پاس آیا تو میں اس روائت کا امین بن گیا اور ہر سال کبھی بیل اور کبھی بکرے ذبح کرنے لگا ۔ افسوس کے ساتھ لکھ رہا ہوں کہ مجھے اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوا ۔

میرے بچوں نے تازہ گوشت کا بار بی کیو ضرور کھایا ،میرے دوستوں نے میرے گھر آ کر سٹیم روسٹ کے مزے بھی اڑائے اور سب سے بڑھ کر زوجہ محترمہ کی سہیلیوں نے بریانی میں گول بوٹی کا لطف بھی لیا مگر میری زات اس قربانی کا کوئی نفع حاصل نہ کر سکی ؟۔ زیرو بٹا زیرو ، یقین جانئے میں نے بکرے اور گائے کے ذبح کرنے والی سنت سے کچھ سبق اخذ کیا اور نہ اس نیکی کی روح تک رسائی حاصل کر سکا ۔

(جاری ہے)

چند ہزار روپے کے عوض خریدے گئے بکرے کی اطاعت اور فرمانبرداری دیکھ کر مجھے سخت ہزیمت سے دوچار ہونا پڑا ہے ۔ مجھے لگتا ہے جیسے ٹب میں پڑی بکرے کی بوٹیاں مجھ سے مخاطب ہیں اور کہہ رہی ہیں ”ذبیح اللہ !تم مجھے چند ہزار روپے میں خرید کر میرے مالک قرار پائے تھے اور مجھے دیکھومیں نے تمہارے سامنے سر تسلیم خم کر دیا ۔ تم نے مجھے جہاں باندھا اور جس بچے کے ہاتھ میں میری رسی تھمائی میں نے تمہاری حکم عدولی نہیں کی ۔

تم نے جو کھلایا جیسا کھلایا میں نے اس پر شکر ادا کیا اور کبھی تمہارا گلہ نہیں کیا ۔حد تو یہ تھی کہ تم نے میرے گلے پر چھری چلانا چاہی تو میں نے اس پر بھی گردن جھکا دی کیونکہ تم میرے مالک تھے ۔ مگر کیا تمہارا بھی کوئی مالک ہے ؟۔ تم پر بھی کسی کا حکم چلتا ہے یانہیں ؟۔ تم نے مجھے پیسوں سے خریدا تھا جبکہ تمہارے مالک نے تو تمہیں پیدا کیا ہے اور ہاتھوں کی حرکت ، کانوں کی سماعت ، آنکھوں کی بصارت اور زبان کی گویائی سے سرفراز کیا ہے کیا تم بھی میری طرح اپنے مالک کے ہر حکم کے سامنے سر تسلیم خم کرتے ہو؟۔

تم مجھے جو کھلاتے تھے میں کھا لیتا تھا کیا تمہارا کھانا پینا بھی اپنے مالک کی مرضی کے مطابق ہے ؟۔ جب تمہارا مالک کہتا ہے کہ شراب نوش نہیں کرنی ، سود نہیں کھانا اور حرام سے اجتناب کرنا ہے تو کیا تم میری ہی طرح اطاعت کا رویہ اختیار کرتے ہو؟۔ میں نے تو تمہاری اطاعت میں جان قربان کر دی کیا تم اپنے مالک کی اطاعت میں زندگی بسر کرتے ہو؟اور جب جان دینے کی بارے آئے گی تو کیاجان دے دو گے ؟۔

نہیں! تم کبھی ایسا نہیں کرو گے ۔کیونکہ تم اپنے اللہ کو مالک ضرور قرار دیتے ہو مگر اس کا حکم نہیں مانتے ۔تم نے اپنے مالک کیلئے مرنا کیا ہے تم تو اس کی خواہش کے مطابق جی بھی نہیں سکتے ۔تم اطاعت کی عملی تصویر کیا بنتے تم تو اپنے بچوں کی معمولی خواہشات کی تکمیل کیلئے حرام مال لینے سے بھی احتراز نہیں کرتے ۔ سود اور رشوت لیتے اور کھاتے ہوئے تمہیں ایک لمحے کیلئے بھی یہ احساس نہیں ہوتا کہ تمہارا کوئی مالک بھی ہے اور تم کسی کے بندے بھی ہو۔


سچی بات تو یہ ہے کہ قربانی کے حقیقی فلسفے سے عدم آگاہی کے سبب میں قربانی کے عمل سے ہی اجتناب کرنا چاہتا ہوں اور سوچ رہا ہوں کہ اس بار جانور کی بجائے اپنی خواہشات کی قربانی کروں ۔ اب کی بار بکرے نہیں ابلیسی خواہشات کے گلے پر چھری پھیر دوں ۔ میں نے عز م صمیم باندھ لیا ہے کہ اس عید پر اپنی جھوٹی انا کی قربانی دوں گا اور اپنے تمام ناراض رشتہ داروں کے گھر جا کر ان سے معافی طلب کروں گا ۔

میں اپنی انا کے جھوٹے گنبد کو ریزہ ریزہ کرتے ہوئے اپنے پڑوسی کا خیال رکھا کروں گا اور کبھی بھی اس سے معمولی معمولی باتوں پر نہیں الجھا کروں گا ۔ میں اپنے گھر کے سامنے والے شاہ صاحب سے اپنے گھر کے گیٹ کے سامنے گاڑی کھڑی کرنے بھی کبھی معترض نہیں ہوں گا بلکہ ان سے پیار اور محبت کا رویہ روا رکھوں گا ۔اور ہاں اس بار میں گائے یا بکرا نہیں قربان کروں گا بلکہ رزق حرام کمانے کی قبیح عادت کو قربان کر دوں گا ۔

دفتر کی کرسی پر بیٹھ کر جب میرے سامنے رشوت کے پیسے آئیں گے تو مجھے پیسوں سے زیادہ اپنی رشوت کی عادت کی لاش دکھائی دے گی ۔ جب بچوں کی فیسوں کا وقت آئے گا تو میں کسی کی نہیں اپنی جیب کی طرف دیکھوں گا۔جب میری گھر والی اپنی ضروریات کے حوالے سے مجھ سے مطالبہ کرے گی تو میں اسے صاف صاف کہہ دوں گا کہ کرماں والیے اپنے زائد اخراجات محدود کر لو کیونکہ میری تنخواہ غیر ضروری اخراجات کی متحمل نہیں ہو سکتی ۔

آپ ٹھیک سمجھے ہیں کہ اس بار بکرے کی بجائے جھوٹ اور منافقت کی عادت کو قربان کروں گا کیونکہ پیغمبر اسلام ﷺکا فرمان ہے کہ مومن کچھ بھی ہو سکتا ہے مگر جھوٹا نہیں ہوسکتا ۔ اب میں دفتر ، محلے، گھر اور حلقہ یاراں میں سچ اور راستی کو اختیار کروں گا ۔ بہت ہو چکا جھوٹ کا کاروبار اور مکاری کے حربے ۔اب بس سچی زندگی ہوگی ۔میں جانتا ہوں کہ میری سچائی مجھے دنیاوی نفع سے محروم کر دے گی تاہم میں اس پر بھی جی لوں گا اور قبر و حشر کی ندامت سے محفوظ رہنے کی سعی کروں گا ۔

اب میں کوشش کروں گا کہ میرا تعارف ایک جھوٹے شخص کا نہ ہو بلکہ احباب مجھے ایک سچا انسان سمجھیں ۔ اسی طرح اب کی بار میں نے سود خوری کی عادت بھی قربان کرد ینی ہے ۔ کیونکہ رسول اللہ ﷺ فرمایا ہے کہ سود خور کبھی جنت میں داخل نہیں ہوگا اور میں نے یہ بھی سنا ہے کہ سود کا جو سب سے کم عذاب ہے وہ یہ ہے کہ انسان اپنی ماں سے زنا کرے ۔ لہذا اب میں خوف زدہ ہوگیا ہوں اور آتش جہنم کی تپش محسوس کرنے لگا ہوں ۔

اب سوداور حرام خوری نہیں ہوگی ۔مجھے بکرے کے طرز عمل نے یہ باور کروا دیا ہے کہ تمام بنی نوع انسان ایک مالک رکھتے ہیں اور وہ مالک اللہ ہے لہذا یہ کس قدر شرم کی بات ہے کہ ایک بکرا تو اپنے مالک کے حکم پر جان تک قربان کر دے اور آدم کا بیٹا یعنی انسان اپنے مالک کے حکم پر زندگی بھی نہ گزارے ۔ بکرے کے عمل سے میں نے سیکھ لیا ہے کہ اب میں بھی وہی کھا ؤں گا جو میرا مالک مجھے کھلاے گا اور میں بھی وہی پیوں گا جس کی اجازت میرا مالک مجھے دے گا اور جب میرا مالک مجھ سے میری جان طلب کرے گا تو میں وہ بھی قربان کرنے سے احتراز نہیں کروں گا ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :