بھارت اور امریکہ نے مشرقی پاکستان میں کیا کھیل کھیلا ؟

ہفتہ 5 دسمبر 2015

Zabeeh Ullah Balghan

ذبیح اللہ بلگن

رواں برس جون میں بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے اپنے دورہ بنگلہ دیش کے دوران بیان دیا تھا کہ بھارت نے مشرقی پاکستان کے علیحدگی پسندوں کو مالی اور عسکری ا مدد فراہم کی تھی۔بھارتی وزیر اعظم کے اس بیان کے جواب میں پاکستانی دفتر خارجہ نے ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے عالمی برادری سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ بھارتی وزیرِ اعظم کی جانب سے سنہ 1971 میں اس وقت کے مشرقی پاکستان میں بھارتی مداخلت کے اعتراف کا نوٹس لے۔

بیان میں کہا گیا کہ نریندر مودی کے بیان سے بھارت کے اپنے خودمختار ہمسایہ ملک کے خلاف منفی کردار ادا کرنے کے پاکستانی موقف کی تصدیق ہوتی ہے۔اسی طرح جب گزشتہ دنوں بنگلہ دیش میں جماعت اسلامی اور نیشنل پارٹی کے رہنماؤں کو بلاجواز پھانسی دی گئی تو وزیر داخلہ چوہدری نثار نے بھی عالمی برادری کی توجہ اس مسئلے کی جانب مبذول کروائی ۔

(جاری ہے)

جبکہ حقیقت حال اس سے یکسر مختلف ہے ہم جس عالمی برادری کو بار بار مخاطب کر رہے ہیں درحقیقت اس ”عالمی برادری “نے ساٹھ اور ستر کی دہائی میں مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش بنانے میں اہم کردار ادا کیا ہے ۔

جب ہم عالمی برادری کو مخاطب کرتے ہیں تو ہمارا اشارہ امریکہ اور دیگر مقتدر قوتوں کی جانب ہوتا ہے ۔دفتر خارجہ اور وزارت داخلہ کی بیانات کے بعد میر تقی میر یاد آجاتے ہیں جنہوں نے اپنی سادگی کا اظہار کچھ ان الفاظ میں کیا تھا کہ
میر کیا سادہ ہیں بیمار ہوئے جس کے سبب
اسی عطار کے لونڈے سے دوا لیتے ہیں
یہ حقیقت کس سے مخفی نہیں ہے کہ مشرقی پاکستان کو بنگلا دیش بنانے کی مہم کا آغاز بھارت سے بھی پہلے امریکہ نے کیا تھا ۔

مشرقی پاکستان کو پاکستان سے الگ کرنے کیلئے جو سازشیں کی گئیں ان میں امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے مرکزی کردار کی حامل ہے ۔ ہمیں یاد رہنا چاہئے کہ عالمی برادری ساٹھ کی دہائی میں بخوبی آگاہ تھی کہ مشرقی پاکستان کو الگ کرنے کیلئے بنگال میں کیا کھیل کھیلا جا رہا ہے ۔ “عالمی برادری“کا زکر تو ایک طرف رکھئے خود پاکستانی سنجیدہ حلقے بھی وطن عزیزکی سلامتی کے خلاف کی جانے والی سازش سے بخوبی آگاہ تھے ۔

ان سنجیدہ لوگوں میں مولانا بھاشانی بھی شامل تھے جنہوں نے دسمبر 1971 کوڈھاکہ پریس کلب میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے بنگال میں ہونے والے فسادات کو غیر ملکی سازش قرار دیا تھا اور یہ انکشاف کیا تھا کہ سی آئی اے نے مشرقی پاکستان میں ہنگامہ و فساد کرانے کیلئے ایک خفیہ منصوبہ تیار کر رکھا ہے ۔ اسی طرح ایسٹرن ٹریبون کے سیاسی مبصر نے کہا تھا کہ سی آئی اے نے اس دستاویز کا مسودہ 1966`67ء میں تیار کیا تھا۔

اس شرمناک دستاویز میں وسیع پیمانے پر فرقہ ورانہ فسادات کے لئے ایک جامع منصوبہ تیار کیا گیا تھاجس کے ذریعے مشرقی پاکستان میں نظم وضبط کو مکمل طور پر تہ وبالا کرنا تھا۔دستاویز میں مشرقی پاکستان کی آزادی کے اعلان کے لئے یکم اگست 1969ء کی تاریخ مقرر کی گئی تھی اوراس کے لئے مشرقی پاکستان کے وقت کے مطابق رات کے ایک بجے اعلان کیا جانے والاتھا۔

دستاویزات کے مطابق”مشرقی پاکستان “کے اعلان کے فوراًبعدتین ہمسایہ ممالک او ر ایک بڑی طاقت اس نئی ریاست کو تسلیم کرنے کا اعلان کر دیں گی۔آزادی کے اعلان کے چند گھنٹے بعدایک دوست ملک کی چھا تہ بردار فوج مشرقی پاکستان میں اترے گی جو اس نئی ریاست کو بحری ا ور فضائی تحفظ دے گی۔ مزید یہ کہ نئی ریاست کے لیے بڑی طاقت کی بحر ی فوج بحیرہ عرب اور خلیج بنگال میں پہنچ چکی ہو گی ۔


اصل میں اس منصوبے کا مقصد مشرقی پاکستان میں ایک گر وہ کے ذریعے آزادی کے اعلان اورنظم ونسق کودرہم برہم کرکے ایوب حکومت کاخاتمہ کرنا تھا ۔ا س صورت حال کو یقینی بنانے کیلئے بھارت مغربی پاکستان کی سرحدوں پر چھو ٹے پیمانے پر جنگ شروع کردے گااورشمال مغربی سرحدی صوبے میں چند قبائل حکومت کے خلاف مسلح تحریک شروع کردیں گے۔ سی آئی اے کی یہ دستاویز اس سابقہ دستاویز کی طرح ہے جسے مغربی جرمنی کی ایک فیچرایجنسی نے تیارکرایاتھا۔

یہ ایجنسی بھی سی آئی اے کی مالی امداد سے چلتی ہے۔ اس سابقہ دستاویز کے مطابق سکم، بھوٹان، تری پور ،آسام،مشرقی پاکستان اورمغربی بنگال پر مشتمل ایک نئی ریاست کی تشکیل کرناتھا۔جنوب مشرقی ایشیا میں امریکہ کی جنگی پالیسی کے مطابق مشرقی پاکستان کا انتخاب کئی لحاظ سے اہم ہے ۔اول تویہ کہ اس طرح بحیرہ عرب،خلیج بنگال اورسب سے بڑھ کربحرہند پر قبضہ رکھنے میں آسانی ہو گی اوردوم یہ کہ چین کے گرد حصارقائم کیاجائے گا۔


غیر ملکی طاقتوں نے مختلف مواقع پریہ دلائل پیش کئے تھے کہ اس قسم کے منصوبے پر عمل درآمد ممکن ہے۔ وہ درحقیقت مشرقی پاکستان کو دوسراویت نام بناناچاہتی تھیں۔ان کاکہنا تھاکہ بھارت کو اشتراکیت سے بچانے کے لئے ان اقدام میں دلچسپی لینی شرو ع کی تھی تا کہ ”ہندوستان کے سیاسی مسائل کا کوئی”فیڈرل“حل نکل آئے گا“چنانچہ صدرروزویلٹ کی خواہش کے مطابق 1964ء میں امریکہ کے نامزد نائب صدر سینیٹرہمفرے نے یہ اعلان کیا تھاکہ
”امریکہ کو یہ محسوس کرنا چاہیے کہ آخر کار جنوب مشرقی ایشیاء میں کیمو نزم کے دفاع کی ایک ہی صورت ممکن ہے اوروہ یہ کہ ایشیائی طاقتوں کا متحدہ مخاذ قائم ہوجس میں بھارت کومرکزی قوت حاصل ہو“
اب جب کہ مغربی بنگال میں بائیں بازو کی طاقتیں جڑپکڑچکی تھیں اورمشرقی پاکستان میں بھی ترقی پسند قوتوں کو فروغ حاصل ہورہاتھا،مفاد پرست حلقے اس صورت حال سے سخت خوف زدہ تھے۔

وہ بھارت اور مشرقی پاکستان کوکیمو نزم کے خطرات سے بچانے کے لئے مشرقی پاکستان کے معاملے کو جلد از جلد نمٹاناچاہتے تھے۔ کھلنا کے اخبار ”دی ویو“کے انکشافات کے مطابق ایک امریکی خاتون مس جین ڈکسن نے یہ پیشین گوئی کی تھی کہ مشرقی پاکستان میں 1969ء کے نومبر دسمبر میں د س لاکھ افراد مارے جائیں گے۔اس امریکی خاتون نے اس قسم کی پیشین گوئی انڈونیشیا کے بارے میں بھی کی تھی جہاں یہ بات درست ثابت ہوئی۔

مس جین ڈکسن کے با رے میں یہ بات ساری دنیا میں مشہور ہے کہ وہ سی آئی اے کی ایک اہم رکن تھی اور سی آئی اے کے منصوبوں کو پشین گوئی کی صورت میں ظاہر کرتی تھی۔نومبر 1969میں جب ڈھاکہ میں فرقہ وارانہ فسادات ہوئے تو یکم نومبر کی صبح ایک امریکی صحافی کی ملاقات ایک مقامی پاکستانی صحافی سے ہوگئی۔ پاکستانی صحافی کو معلوم ہواکہ امریکی صحافی کو ڈھاکہ میں کسی بڑی خبر کا انتظارہے ۔

امریکی صحافی نے بتایا کہ وہ نائیجریا میں خانہ جنگی کی رپورٹنگ کرتارہا ہے۔ چند روز قبل اسے ہیڈ کواٹر سے ہدایت دی گئی ہے کہ وہ فوراً مشرقی پاکستان جائے جہاں ایک بڑا واقعہ رونماہونے والاہے یہ ایک عجیب اتفاق تھاکہ اسی دن ڈھاکہ میں فرقہ وارانہ فسادات کی آگ بھڑک اٹھی۔ اس فساد کے بعد ہی سی آئی اے کی اس دستاویز کے بارے میں مولانابھاشانی نے انکشاف کیاتھا۔


یکم نومبر 1969ء کا ذکر ہے۔ ڈھاکہ کی فضا جزوی ہڑتال کے باعث صبح ہی سے کسی قدر مکدر تھی۔لیکن ایسی کوئی علامت ظاہر نہ تھی جس سے آنے والے خونریز ہنگاموں کا سراغ ملتا۔اچانک گیارہ بجے کے قریب میرپور کے علاقے میں بنگالیوں اور مہاجرین کے درمیان فساد کی آگ بھڑک اٹھی۔ ٹھیک اسی وقت شاہجہان آباد میں بھی فسادات کا آغازاور عین گیارہ بجے ایسی دوسری بستیوں میں بھی فسادات برپاہوگئے جہاں بنگالیوں اور مہاجرین کی ملی جلی آبادی تھی۔

قرائن بتاتے ہیں کہ یہ فسادات ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تخت ایک مقررہ وقت پر شروع کئے گئے ۔شام تک لوٹ مار،خنجرزنی آتشزنی اورمسلحہ تصادم کی وارداتیں ہوتی رہیں لیکن کسی نہ کسی طرح اسی روزفسادات پر قابو پالیاگیا۔اس میں پولیس اور انتظامیہ کی کارکردگی سے زیادہ عوام کے سیاسی شعورکادخل تھا جو آپس کے اس خون خرابے کیخلاف تھے۔ اس طرح یہ خونی ہنگامے ڈھاکہ کی چند بستیوں تک محدود رہے اور مشرقی پاکستان کے دوسرے شہروں تک نہ پھیل سکے۔

نیشنل عوامی پارٹی کے سربراہ مولاناعبدالحمید بھاشانی اپنی دیہی قیام گاہ سنتوش سے فوراًڈھاکہ پہنچے ۔اس روز پریس کلب میں انہوں نے ایک پریس کانفرنس بلائی۔فسادات کی مذمت کی ۔بنگالیوں اور مہاجرین کو مل کررہنے اوراپنے مشترکہ مفادات کے لئے متحدہ جدوجہد کرنے کی تلقین کی ۔ انہوں نے فسادات کا پس منظر بتاتے ہوئے یہ انکشاف کیا کہ امریکہ کے رسوائے عالم محکمہ جاسوسی سی آئی اے نے مشرقی پاکستان میں اس قسم کے فسادات کرانے کے لئے ایک خفیہ منصوبہ تیار کیاہے۔


مولانا بھاشانی نے بعد میں یہ بھی انکشاف کیا کہ سی آئی اے کی یہ خفیہ دستاویز ان کے قبضے میں آگئی ہے اوراس کی نقلیں وہ صوبائی گورنر اورصدر مملکت کوضروری کارروائی کے لئے ارسال کرچکے ہیں۔ مولانابھاشانی نے وعدہ کیا تھاکہ وہ اس دستاویز کو سنتوٹ کانفرنس کے موقع پر عوام کے روبرو پیش کریں گے تاکہ وہ آنے والے خطرات سے نہ صرف باخبر ہوجائیں بلکہ ان کامقابلہ کرنے کیلئے خود کو تیار رکھیں ۔

مگر یہ خفیہ دستاویزعوام کے سامنے نہ آسکی ۔اس کوتاہی کا الزام مولانابھاشانی نے نیشنل عوامی پارٹی کے سابق جنرل سیکرٹری جناب محمد طہ پر عائد کیاکہ وہ وقت پر اس کی اشاعت کا بندوبست نہ کر سکے ۔سی آئی اے کے منصوبے کے مطابق مشرقی پاکستان کو ملک سے علیحدہ کرکے ایک آزار مملکت کے قیام کی سازش تیار کی گئی تھی ۔ یہ سازش کمال ہوشیاری اورمحتاط طریقے سے تیار کی گئی تھی تا کہ اصل دشمن کا سراغ بہت بعد میں ملتا اوراس وقت نجانے کتنی تبدیلیاں رونماہوچکی ہوتیں اور حالات کہاں سے کہاں پہنچ جاتے ۔

اس کا اندازہ سازش کے ٹائم ٹیبل سے ہوتا ہے جس کی تفصیلات سی آئی اے کے منصوبے میں پیش کی گئی تھیں ۔ سی آئی اے کے اس خطرناک منصوبے کے بارے میں جو اطلاعات فراہم ہو سکیں ،ان کے مطابق اس سازش پر ستمبر 1965ء کی جنگ کے کچھ ہی عرصہ بعد کام شروع کردیاگیاتھا۔1966ء کے وسط میں اس کی ترتیب ابتدائی مرحلے میں داخل ہوئی ۔سیاسی اور سماجی حالات کا تجزہ کیا گیا ۔

خفیہ ملاقاتوں کے ذریعے مختلف طبقوں کے نمائندوں سے تبادلہ خیال کیاگیا۔ان کا ردعمل معلوم کیاگیااور یہ سلسلہ کئی ماہ تک چلتا رہا۔اس طرح جب ضروری معلومات اکٹھی ہوگئیں تو سی آئی اے کے ماہرین نے ان کی روشنی میں منصوبے کا خاکہ تیار کیا۔اس کی تفصیلات مرتب کیں اوربالآخر اسے1967ء میں مکمل کرلیاگیا۔
اس منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے 9اگست 1969ء کی تاریخ مقرر کی گئی ۔

9اگست کی تاریخ غالباًاس لئے طے کی گئی تھی کہ پروگرام کے مطابق سازش چند روز میں مکمل ہوجائے گی اور پاکستان کے یوم استقلال یعنی 14اگست کو مشرقی بنگال کی خودمختار مملکت کا جشن منایاجائے تاکہ اس کا نفسیاتی اثر یہ ہو کہ عوام اس میں زیادہ جوش وخروش سے حصہ لے سکیں اور پاکستان کے قیام کی تاریخ کے ساتھ ان کی جذباتی وابستگی بھی برقرار رہے۔

1969ء کے انتخاب کا جواز بجز اس کے اور کچھ نہیں ہوسکتا کہ دو سال کا عرصہ سیاسی فضاتیار کرنے کے علاوہ ایجنٹوں کی ترتیب اور دوسرے اہم امور کی تکمیل کے لئے رکھاگیاتھا۔لیکن یہ سا زش مقررہ وقت پر نتائج حاصل نہ کر سکی ۔اس لئے کہ نومبر 1968ء میں ملک گیر عوامی تحریک ابھری اوراس نے سیاسی حالات یک لخت بدل دئیے۔ حالات کی تبدیلی کا یہ عمل اس قدر تیز رفتار اوراچانک ہواجس کیا اندازہ خود سی آئی اے کو بھی نہ تھا۔

مارچ 1969ء میں ایوب خان کی حکومت ختم ہوگئی ۔ملک میں مارشل لاء نافذ ہوگیااور سی آئی اے کا سارا منصوبہ منتشر ہوگیا۔ یہاں یہ بات یقین سے نہیں کہی جاسکتی کہ سی آئی اے نے اپنے پلان کو عملی جامہ پہنانے کی تاریخ آگے بڑھا دی یا فی الوقت اسے ملتوی کردیا تھا۔ایسی صورت میں لامحالہ یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ یکم نومبر1969ء کوبنگالیوں اور مہاجرین کے درمیان جو فسادات برپا کرانے کے لئے سی آئی اے نے اگست کا مہینہ منتخب کیاتھا،اس کا سیدھاسادا جواب یہ ہوسکتا ہے کہ اگر اس دور کے سیاسی حالات کا جائزہ لیاجائے تویہ بات کھل کر سامنے آجاتی ہے کہ ان دنوں مشرقی پاکستان کی مقامی اورمہاجرآبادی کے درمیان شدید کشیدگی پائی جاتی تھی اوریہ نفرت اورکشیدگی سی آئی اے نے اپنی سازش کو کامیاب بنانے کے لئے پیدا کی تھی ۔

جس کا اظہار اس کے منصوبے میں بار بار کیا گیاہے۔
سی آئی اے کے اس خفیہ منصوبے کودیکھ کر یہ اندازہ ہوتاہے کہ اس کا مقصد مشرقی پاکستان کومغربی پاکستان سے علیحدہ کرکے ایک ایسی خود مختارمملکت قائم کرنا تھا جو بھارت کے زیر اثر ہواور جس کی علیحدگی کے بعدمغربی پاکستان تنہا اورکمزور رہ جائے تاکہ اس پر ایک طرف افغانستان اوردوسر ی طرف سے بھارت حملہ آور ہو کر قابض ہوجائے اس طرح پاکستان کا وجود ختم ہوجائے گا ۔

وہ اکھنڈ بھارت کا ایک بار پھر اٹوٹ انگ بن جائے۔ یہیں سے اس بات کی بھی تائید ہوتی ہے کہ ستمبر 1965ء میں جب بھارت نے پاکستان پر حملہ کیا تھا تو ایک غیر ملکی خبر ایجنسی نے یہ انکشاف کیا تھا کہ یہ حملہ سی آئی اے کی تحریک پر بھارت نے کیا ہے اس جنگ میں بھارت کو منہ کی کھانی پڑی اورسی آئی اے کا منصوبہ خاک میں مل گیا۔ ایک حصے میں اس وقت کے پاکستان کی سیاسی اوراقتصادی صورتحال پر بحث کرتے ہوئے مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا یوں جواز پیش کیاگیا۔


”مشرقی بنگال کی آزاد ی کے بارے میں آج بازاروں میں ،گلی کوچوں میں‘شاندار بنگلوں والے علاقوں میں اورعالی شان ہوٹلوں میں موضوع گفتگو ہے کہ ہم علیحدگی کیوں چاہتے ہیں؟علیحدگی سے کس کوفائدہ پہنچے گا؟اس تحریک کے خلاف کون ہے اوراس کے حق میں کون ہے؟ اور یہ کہ علیحدگی کس طرح حاصل کی جائے ؟وغیرہ وغیرہ ۔موجودہ حالات میں مشرقی بنگال کو مغربی پاکستان کی نو آباد ی کہا جا سکتا ہے۔

اس لئے کہ ہر شعبہ میں عدم مساوات ہے اور ہر میدان میں بے انصافی پائی جاتی ہے۔ شہری اورفوجی ملازمتوں میں بنگالیوں کے لئے مساوی موقع کا کوئی وجود نہیں ۔ اقتصادی آزاد ی سے قطع نظر نہ اظہار خیال کی آزادی ہے ‘نہ آزاد ی فکر ہے‘نہ آزادی تحریروتقریر ہے۔ مشرفی بنگال کی دولت کو چرالیا گیا ۔عوام کی کمر توڑدی گئی ہے اور سرمائے کی منتقلی (مغربی پاکستان کو)بے حساب ہے ۔

عوام اپنی شخصیت اوروجود کو بھولتے جارہے ہیں۔ ان میں خود اعتماد ی ختم ہوچکی ہے ۔قوت اظہار جواب دے چکی ہے ۔اہلیان بنگال کو غیر بنگالیوں کے قدموں میں ڈال دیا گیاہے ۔ان حالات میں صرف کمیونسٹ ہی قدم جماسکتے ہیں۔ ان کے ہر آن بڑھتے ہوئے اثر کو اس وقت تک ختم نہیں کیاجاسکتا ۔جب تک بنگال کے موجودہ مسائل جلد ازجلد حل نہ ہو جائیں ۔“
70ء کاالیکشن مشرقی پاکستان نے دوتہائی اکثریت سے جیتاتو اقتدارکی منتقلی میں لیت ولعل سے کام لیاگیا۔

نتیجتاًجوکچھ ہواوہ ایک افسوسناک باب ہے جوکہ ہرسچے مسلمان اوروطن سے محبت کرنے والے کو خون کے آنسورلادینے والاہے۔درحقیقت یہ ایک بہت بڑاسانحہ والمیہ اورزخم تھا‘اس زخم کی شدت کوپوری اسلامی دنیانے محسوس کیا‘اس لئے کہ اسلام کے نام پرقائم ہونے والاملک صرف پاکستانیوں کاہی نہیں بلکہ پوری دنیامیں اسلام کاقلعہ تھا۔برصغیرکے لوگوں کے دل صرف اسلام کے ساتھ دھڑکتے تھے۔

لیکن غیرمسلموں کی سازشوں کی وجہ سے پاکستان جواسلامی دنیاکے اتحادمیں بنیادی کردارادا کرسکتاتھاوہ دولخت ہوگیا۔سقوط ڈھاکہ کااصل مجرم امریکہ کے ساتھ ساتھ ہندوستان کو بھی قرار دیا جاسکتا ہے۔ہندوستان نے کبھی پاکستان کوتسلیم نہیں کیابلکہ اس کی ہمیشہ یہ کوشش رہی ہے کہ پاکستان کودنیامیں بے توقیرکیاجائے اوراسے آزادوخودمختارملک کی حیثیت سے دنیاکے نقشے پرقائم نہ رہنے دیاجائے۔

اس مقصدکے لئے ہندوستان نے اپنے تمام ذرائع استعمال کئے اور ہرموقعہ سے فائدہ اٹھایا۔کشمیر میں جب گوریلا کاروائیاں شروع ہوئیں توہندوستان نے کھلے عام پاکستان پرحملہ کردیا‘یوںآ پریشن جبرالڑ…65ء کی جنگ کاسبب بن گیا۔65ء کے معرکے نے ہندوستان کویہ حقیقت تسلیم کرنے پرمجبورکردیاکہ جنگ کے ذریعے پاکستان کو شکست دیناممکن نہیں۔ہندوستان کوادراک ہواکہ پاکستان اندرونی طورپرمستحکم‘مورال ہائی اورافواج مضبوط ہیں۔

ان چیزوں نے ہندوستان کواپناپورامنصوبہ تبدیل کرنے پرمجبورکردیا کہ پاکستان کومیدان میں دوبارہ لانے سے قبل اندرسے غیرمستحکم کردیاجائے اس کے اندرایجنٹ خریدے جائیں‘ تحریکیں اٹھائی جائیں‘جمہوری پچ تیارکی جائے‘اس کے ساتھ لسانی اورقومی عصبیتوں کے بت کھڑے کئے جائیں۔یہی وجہ ہے کہ پاکستان کی وحدت کوتوڑنے کے لئے اس کے بعد سندھودیش‘آزادگریٹربلوچستان اورپختونستان جیسی آوازیں اٹھنے لگیں۔

65ء کی جنگ میں جب ہم مضبوط اورطاقتورقوم تھے…توہم لڑے اوراپنے سے کئی گنابڑے دشمن کوناکوں چنے چبوائے دانت کھٹے کئے۔لیکن صرف پانچ سال کے بعدیعنی 1971ء میں سانحہ مشرقی پاکستان کی صورت میں جوکچھ ہمارے ساتھ ہواوہ ساری دنیانے دیکھا۔سقوط ڈھاکہ کاتجزیہ کرتے وقت اس کاوبال صرف چندجرنیلوں پرڈال دیناحقائق کے منافی ہے۔بلکہ سقوط ڈھاکہ کاتجزیہ کرتے وقت ان تمام اندرونی اوربین الاقوامی اسباب کوپش نظر رکھناچاہئے۔

مشرقی پاکستان کا سانحہ اچانک رونمانہیں ہوابلکہ ہندوستان نے ہمارے خلاف بھرپور تیاری کی ۔مشرقی پاکستان میں عصبیت اور مغربی بازوکے اندر قومیت کے بیج بوئے۔اس مقصد کے لئے کراچی اور اسلام آباد میں امریکہ اور برطانیہ کے قونصل خانے استعمال ہوئے‘تجوریوں کے منہ کھولے گئے اور ابن الوقت سیاستدانوں کو خریداگیا۔ اس کے بعد اچانک ہی خودروجنگلی جھاڑیوں کی طرح‘سیاسی جماعیتں اور سیاستدان اگنے لگے ۔


دوسری طرف ہندوستان کی سازشوں کا ایک محور یہ بھی تھاکہ بنگالیوں کو باہم لڑایا جائے‘پڑوس کی پور ی پٹی پر ٹریننگ کیمپ قائم کرنا اور انہیں ایسی تربیت دینا کہ وہ افواج پاکستان کے مقابل کھڑے ہوجائیں ‘یہ سارے کام اور جرائم ہندوستان کے ہیں جو پوری دنیا کے سامنے ہیں۔ اس معاملے کا المناک پہلو یہ ہے کہ ہماری ایجنسیاں صورتحال کا ادراک کرنے میں بالکل ناکام رہیں اور کسی ایجنسی نے بھی اس کا نوٹس نہ لیا۔

یہ تمام حا لات ایک دم خراب نہیں ہوگئے تھے‘راج شاہی ِ‘کھلنااور مشرقی پاکستان کے دیگر شہروں میں پاکستان کے ترانے کے بجائے رابندرناتھ ٹیگور کی نظمیں گائی جاتی تھیں۔ 65ء اور70 ء کے درمیان ہندوستان نے ایسے حالات پیدا کئے۔امریکہ اور روس نے ہندوستان کی مدد کی اور مکتی باہنی کی صورت میں پاکستانی افواج کے متوازی ایک فورس بنائی۔اب اگر پاکستان مطالبہ کرتا ہے کہ عالمی دنیابنگلہ دیش میں ہونے والے عدالتی قتل اور مظالم کا نوٹس لے تو اسے دفتر خارجہ کی معصومیت ہی قرار دیا جاسکتا ہے ۔عالمی برادری ہم سے زیادہ سانحہ مشرقی پاکستان کے اسباب اوربھارتی و امریکی مداخلت سے واقف ہے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :