ذرا ہم انسان بھی

ہفتہ 25 اکتوبر 2014

Shabbir Rakhshani

شبیر رخشانی

ہوٹل میں لوگوں کا بڑا رش کش تھا۔ اور ہر کوئی اپنے دھن میں مگن تھے اور گروپس کی شکل میں ہر گروپ اپنے اپنے قصے اور کہانیاں بیان کر رہے تھے اور ان تمام کی ایک ساتھ گفتگو نے ہوٹل کو گیرج کا مقام بخشا تھا۔ غرض ہر کوئی گھر کے ماحول سے بیزار ہو کر اپنے گروپس کے ہمراہ اسی ہوٹل کا رخ کر چکا تھا۔ جہاں ہر کیٹگری کے لوگ موجود تھے یعنی کنڈیکٹر، دکاندار وغیرہ وغیرہ عام و خاص کی یہاں موجودگی اور ہر کوئی اپنے کاروبار کے داستان بھی اپنے گروپس کو سنا رہا تھا۔

تو ان تمام انسانوں کی موجودگی میں اچانک ایک چوہا نمودار ہو چکا تھا جو ادھر ادھر چل کر اپنی خوراک کی تلاش میں گھوم رہا تھا۔ جبکہ ہوٹل میں بیٹھے انسان اس بات سے بے نیاز تھے کہ ان انسانوں نے درمیان ایک بے زبان حیوان بھی موجود اپنے خوراک کی تلاش میں نکل چکا ہے۔

(جاری ہے)

چوہے کو اچانک خوراک مل گیا جسے ہوٹل سے باہر لے جا کر کھانے میں مصروف ہو گیا ان تمام انسانوں سے بے نیاز ہو کر چوہے پر ہی میری نظریں مرکوز تھیں۔

تو اسی اثناء مجھے ایک بلی بھی اسی جانب نمودار ہوتا ہوا دکھائی دیا تو مجھے پریشانی لاحق ہوگئی کہ کہیں بلی چوہے کو نقصان نہ پہنچائے کیونکہ بچپن سے سنتے چلے آ رہے ہیں کہ چوہے اور بلی کی دشمنی بہت پرانی ہے اگر بلی کی نظر کسی چوہے پر پر جائے تو کیا مجال کہ چوہا زندہ بچ جائے اگر ایسا ہوا تو یقینا یہاں ہوٹل میں موجود دو جانوروں کی لڑائی کو اپنے گفتگو میں شامل نہ کرے ۔

جوں جوں بلی قریب آتا گیا میرے تجسس میں اضافہ ہوا ایک مرتبہ خیال آیا کہ کیسے چوہے کو بچانے کا کردار ادا کروں جو فلموں میں اکثر ہیرو مصیبت میں پھنسے انسان کو بچانے میں اپنا کردار ادا کرتا ہے میں اسی زہنی کشمکش میں مبتلا تھا کہ بلی چوہے کے قریب پہنچ چکی تھی۔ مجھے حیوانوں کے درمیان بڑا تصادم ہوتا نظر آرہا تھا تو ایک ہی لمحے میں میرے زہن کے تمام خیالات یکدم بدل سے گئے کیونکہ بلی اور چوہے گل مل گئے تھے جسطرح ایک دوست دوسرے دوست کی آمد پر اسے خوش آمدید کہتا ہے اور دونوں ہی اسی خوراک کوایک ہی دسترخوان سمجھ کر مزے لے رہے تھے تو مجھے بلی اور چوہے کی دشمنی کو دوستی میں تبدیل ہو تا دیکھ کر دلی تسلی ملی کہ دو ازلی دشمن اپنی دشمنیوں کو دوستی کے خوبصورت رشتے میں بدل چکے تھے۔

نہ جانے دوستی کا یہ معاہدہ کب اور کیسے انجام پایا تھا یہ ہم انسانوں کی وہم و گمان میں بھی نہیں ہوگا۔پھر اچانک مجھے دور سے کتے کی بھونکنے کی آوازیں سنائی دیں تو اب لگا کہ دونوں کی خیر نہیں اگر کتے نے بلی اور چوہے کی دوستی دیکھی تو یقینا اسکی دشمنی جو کئی پشتوں سے بلی کے ساتھ چلی آرہی ہے وہ چوہے کو بھی اپنی دشمنی میں شامل نہ کر لے۔ یک نہ شد دو شد ایک فارسی قول مجھے یاد آیا۔

لیکن کتے کو بلی اور چوہے نے خیر مقد کہتے ہوئے میرے تمام خدشات کی نفی کر دی تو میں بھی عجیب کشمکش میں مبتلا ہو گیا کہ نہ جانے یہ جانور کئی صدیوں سے جانی دشمن اچانک دوستی کا فضاء قائم کرنے میں کامیاب ہو گئے تھے کیونکہ میں اکثر اپنے بزرگوں سے سنا کرتا تھا کہ بلی اور کتے یا چوہے اور بلی کی دشمنی ٹھیک نہیں یعنی وہ اپنی مثالوں میں بھی اس دشمنی کو یاد کیا کرتے تھے۔

تو آج انکی دوستی ماحول مجھے حیرت میں ڈالنے کا باعث بن چکا تھا۔ اور یہ فلسفہ میری سمجھ سے بالاتر تھا۔ تو اچانک مجھے کہیں سے دھماکے کی آواز سنائی دیا۔ پورے ہوٹل میں سناٹا چھا گیا۔ ہوٹل میں موجود انسانوں کے ساتھ باہر کھڑے بلی، کتا اور چوہا بھی پریشانی کے عالم میں سہم سے گئے تھے۔ تھوڑی دیر بعد ایمبولنسوں کی آوازیں سنائی دیں دس کے قریب ایمبولینس مریضوں اور جان بحق افراد کو لیکر ہسپتالوں کا رخ کر رہے تھے ایمبولینسوں کے سائرن سے پورا شہر سو گوار ہو گیا تھا اور لوگوں کی آہ و بکا سے فضا گونج اٹھا تھا۔

باہر کھڑے جانور ایک دوسرے سے سرگوشیوں میں مصروف عمل تھے۔ اور انکے چہرے سے پریشانی کے آثار نظر آر ہے تھے اور جیسے وہ انسانوں سے کہہ رہے ہوں کہ ہم نے تو دشمنیاں چھوڑ دیں اور تمہیں تو اللہ تعالیٰ نے اشرف المخلوقات بنایا ہے تمہیں عقل دی ہے۔ لیکن عقل ہوتے ہوئے بھی ان دشمنیوں کا کیا فائدہ۔ جن سے نہ جانے کتنے لوگوں کی خوشیاں چھن جاتی ہیں نہ جانے کتنے مائیں اپنی اولاد سے محروم رہ جاتے ہیں نہ جانے کتنی بیویاں بیوہ ہو جاتی ہیں۔ تم بھی چھین سے رہو۔ اور ہمارے فلسفے کو اپنی زندگی کا حصہ بناوٴ۔ تب مجھے ان جانوروں کی دوستی سمجھ میں آئی کہ جب سے دشمنی کا ٹھیکہ انسان نے اٹھایا ہے حیوانوں نے دوستی کا معاہدہ کر ہی لیا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :