ضربِ عضب سے آگے

منگل 22 جولائی 2014

Atif Hussain

عاطف حسین

آئی ایس پی آر کے الفاظ میں ٍ 'دہشتگردوں کے بلا تخصیص خاتمے کیلئے 'کیئے جانے والا آپریشن ضربِ عضب کو شمالی وزیرستان میں شروع ہوئے ایک ماہ سے زیادہ ہو چکا ہے۔ بظاہر فوج کا یہ دعویٰ کہ 'باقی ریاستی اداروں کے تعاون سے دہشتگردوں کو ملک کے کسی کونے میں چھپنے کا موقع نہیں دیا جائیگا' بھی محض ایک بڑ نہیں تھی کیونکہ اسلام آباد اور گرد و نواح میں پولیس اور رینجرز نے شدت پسندوں کے مامن ختم کرنے کیلئے ٹارگٹڈ آپریشن بھی شروع کر دیا ہے ۔

کسی ہنگامی حالت سے نمٹنے کیلئے انہیں فوج کا تعاون بھی حاصل رہے گا۔
پاکستان نے دہشتگری کی برائی کو آغاز ہی میں ختم نہ کرنے کی بڑی بھاری قیمت چکائی ہے ۔پاکستان نے یہ قیمت جان و مال کے شدید نقصان، معاشی ترقی میں رکاوٹ،مکالمے کیلئے کم ہوتی گنجائش،بڑھتے ہوئے انتہا پسندانہ رجحانات، اپنے عالمی امیج کی بربادی، ریاست کی کمزوری اور معاشرے میں ایک مسلسل خوف کی کیفیت کے ظہور کی صورت میں چکائی ہے۔

(جاری ہے)


اگر ریاست شروع میں سستی کا مظاہرہ نہ کرتی تو آج اتنے بڑے آپریشن کی ضرورت ہی نہ پڑتی۔ چلیں دیر آید درست آید۔ مگر یہ آپریشن بھی کوئی اکسیر نہیں۔ اسکی کامیابی صرف ریاست کو فوری خطرے سے بچا کر ایک موقع فراہم کرے گی کہ وہ ایک طویل مدتی پائیدار حل کی بنیاد رکھ سکے۔ یہ حل ایسا ہوناچاہیے جو دہشتگردی کی تمام وجوہات کا تدارک کر سکے۔ ان وجوہات میں مذہب کی تنگ نظرتشریح سر فہرست ہے۔

اب وقت آ گیا ہے کہ ریاست مذہبی تعلیم اور مذہبی اداروں نگرانی کہ ذمہ داری سے نظریں چرانے کی روش ترک کر دے۔ مذہبی تعلیم کی ذمہ داری ریاست نے ہمیشہ مذہبی لوگوں کے حوالے کیے رکھی ہے۔ نتیجتاً ملک کے طول و عرض میں مذہبی تعلیم کے مدرسے نمودار ہو گئے ہیں جن میں سے اکثر کا انتظام و انصرام فرقہ وارانہ رجحانات کے حامل افراد اور تنظیموں کے ہاتھ میں ہے جو اپنے طلبہ کے ذہنوں کو روزِاول سے ہی فرقہ پرستانہ و خود ستایانہ افکار سے آلودہ کرنا شروع کر دیتے ہیں۔

ان مدرسوں سے فارغ ہونے کے بعد چونکہ ان طلباء کے پاس انہیں باقی معاشرے کی سطح پر لے جا کر کسی تعمیری مکالمے کے قابل بنانے والی عام تعلیم تو ہوتی نہیں ہے اس لیئے وہ ان افکار پر نہ صرف قائم رہتے ہیں بلکہ مساجد کے پیش اماموں کی حیثیت میں وہ انہی نظریات کا مزید پرچار بھی کرنا شروع کر دیتے ہیں۔
مدرسہ و مسجد دونوں ہی ایسی جگہیں ہیں جہاں یسے خیالات پروان چڑھتے ہیں اور یہیں سے انکا پرچار بھی ہوتا ہے۔

بد قسمتی سے ہمارے ہاں یہ دونوں ہی ادارے کسی ضابطے کے پابند نہیں۔ اس صورتِ حال کو بدلنا بہت ضروری ہے۔ مدرسے کا ادارہ کلیتاً ختم کر دینا چاہیے۔ اس کے بجائے ضروری مذہبی تعلیم کا اہتمام باقاعد ہ تعلیمی نصاب میں ہی کرنا چاہیے۔ کم ازکم 12 سال کی عمومی تعلیم کے بغیر مذہب کی اختصاصی تعلیم پر پابندی ہونی چاہیے۔ اور ایسی اختصاصی تعلیم کے حصول کی بھی اصل جگہہ باقاعدہ یونیورسٹیاں ہیں نہ کہ کسی نیم خواندہ شخص کے زیرِ انتظام چلنے والا کوئی مدرسہ۔


اسی طرح مسجد کے ادارے کو بھی ضابطے کا پابند بنانا ضروری ہے۔ کسی بھی مسجد کی تعمیر سے قبل حکومتی اداروں سے اس کی باقاعدہ اجازت کا حصول لازمی قرار دیا جائے اور تما م مساجد کے پیش آئمہ کا تقرر بھی اسی مقصد کیلئے تشکیل دیا جانے والاایک حکومتی ادارہ پوری جانچ پڑتال کے بعد کرے۔ اور یہی ادارہ ان آئمہ کے افعال و اقوال کی نگرانی کا ذمہ دار بھی ہونا چاہیے۔


یہ سب کچھ کہنے میں بہت آسان ہے مگر ایسا کرنے پر حکومت کو بہت مزاحمت کا سامنا کرنے پڑیگا۔تاہم حکومت اگر مذہب کی بنیاد پر دہشت گردی کا دروازہ بند کرنے میں سنجیدہ ہے تو اسے ثابت قدمی اختیار کرنی ہو گی۔ پھر یہ کہ یہ سب کچھ شاید ایسے لبرل لوگوں کو بھی پسند نہ آئے جو حکومت کی مذہبی معاملات میں مداخلت کے خلاف ہیں۔ لیکن سب کو یہ سمجھنا چاہیے کہ اس کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے کیونکہ تجربے سے ثابت ہو چکا کہ نتائج کے اعتبار سے موجودہ صورتِ حالات مجوزہ نظام سے کہیں زیادہ خطرناک ہے ۔


یہ تو درست ہے کہ ہمارے ہاں موجودہ دہشت گردی کی سب سے بڑی وجہ ضابطوں سے آزاد مذہبی دنیا ہی ہے تاہم یہ اکلوتی وجہ نہیں ہے۔ اسکی سیاسی، سماجی اور معاشی وجوہات بھی ہیں۔ لہٰذا ایک جامع حل میں ان تمام پہلوٴں کا خیال رکھا جانا ہوگا۔
سماجی سطح پر ریاست کو عوام کا وہ اعتماد دوبارہ حاصل کرنے کی ضرورت ہے جو اس نے کبھی بھی عوام کی حالتِ زار میں بہتری کی کوئی سنجیدہ کوشش نہ کرنے کے باعث کھو دیا ہے۔

عوام کے شدت پسندوں کی جانب مائل ہونے ایک وجہ انکی جانب سے دکھائے جانے والے ایک خیالی جنت کے خواب بھی ہیں جہاں سب کو فوری انصاف میسر ہوگا کیونکہ اس وقت پاکستان میں عوام کیلئے انصاف کا حصول قریب قریب نا ممکن ہے۔ اس سلسلے میں جن دو اداروں کی تشکیلِ نو کی ضرورت ہے وہ پولیس اور ذیلی عدالتیں ہیں۔ یہ دونوں ادارے ناقص تقرریوں، وسائل کی کمی اور سیاسی مداخلت کے باعث بالعموم اپنی نااہلی اور رشوت ستانی کیلئے مشہور ہیں۔

ان اداروں کو خود مختار بنا کر اور وسائل مہیا کر کے ان میں بہت بہتری لائی جا سکتی ہے۔
سیاسی طور پر اختیارات کی نچلی سطح پر منتقلی وقت کی ضرورت ہے۔ اس سے بہت سارے علاقوں میں پائے جانے والے احساسِ محرومی کو کم کرنے میں مدد ملے گی جو لوگوں کو بغاوت پر مائل کرتا ہے۔ اسی طرح معاشی محاذ پر دیہاتوں کی سطح پر معاشی سرگرمیوں کو فروغ دینے کی ضرورت ہے۔

بہت عرصے سے ہماری حکومتوں نے بڑی صنعتوں کے ذریعے ترقی کے حصول کی کوششیں کی ہیں تاہم اب توجہ زیادہ عوام دوست اور مساویانہ اصولوں پر استوار پالیسیوں پر مرکوز کر نے کی ضرورت ہے۔
بجا کہ یہ سب کرنا آسان نہیں ہے کیونکہ اس کیلئے غیر معمولی سیاسی بلوغت اور عزم کی ضرورت ہے جو کہ پاکستان میں عموماً دیکھنے میں نہیں آتا۔ لیکں ہماری قیادت کو خود کو اس چیلنج سے نمٹنے کا اہل بنانا پڑیگا ورنہ بہت جلد ہم لسانی اور علاقائی بنیادوں پر ہونے والی دہشت گردی کے سامنے بھی بے بسی کی تصویر بنے کھڑے ہوں گے۔ اسکا آغاز تو ہو ہی چکا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :