ذاتی اناء کی جنگ مگر قومی مفاد میں!

ہفتہ 20 ستمبر 2014

Hafiz Muhammad Faisal Khalid

حافظ محمد فیصل خالد

پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک کی جانب سے ایک ماہ قبل شروع کیا جانے والا احتجاج تا حال جاری ہے۔پاکستان تحریک انصاف کے چےئرمین عمران خان نے ۳۱۰۲میں ہونے والے عام انتخابات کو غیر منصفانہ قرار دیکر حکومت مخالف مظاہروں کا آغاز کیا جبکہ پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ طاھر القادری نے لاہور میں اپنی جماعت کے قتل ہونے والے کارکنان کے قتل پر کاروائی عمل میں نہ لائی جانے پر حکومت مخالف مظاہروں کا اعلان کیاجو کہ تا حال جاری ہے۔

پاکستان تحریک انصاف اور عوامی تحریک کے ان دھرنوں میں پاکستان مسلم لیگ(ق)، عوامی مسلم لیگ اور چند دیگر جماعتوں نے ساتھ دینے کا اعلان کیا جبکہ دوسری جانب حالات کے پیشِ نظر پارلیمنٹ میں موجود تمام جماعتوں نے حکومت کا ساتھ دینے کا اعلان کیا جس کے بعد کشیدگی میں مزید اضافہ ہو تاگیا۔

(جاری ہے)


اس کشمکش میں حالات میں حالات دن بدن مزید تنزلی کی طرف گامزن ہیں ۔

مظاہرین اپنے عقابرین کی پر جوش تقاریرسے مستفیز ہونے کے بعد کبھی تو حکومتی اداروں پر حملہ آور ہوتے ہیں تو کبھی ارکانِ پارلیمنٹ پر ، کبھی پارلیمنٹ کی عمارت ان مظاہرین کا نشا نہ بنتی ہے تو کبھی پی ٹی وی سنٹر، کبھی فرائض سر انجام دینے والے ایس پی کا سر پھاڑ دیا جاتا ہے تو کبھی میڈیا کے نمائندگان کی ڈنڈوں کے ساتھ بہترین انداز میں مہمان نوازی کی جاتی ہے۔

کبھی پاکستان کی عدالتِ عظمی کے ججز کی گاڑی پر حملہ کیا جاتا ہے تو کبھی پولیس پر دھاوا بول کر زیرِ حراست کارکنان کو زبردستی بازیاب کر وایا جاتا ہے۔علاوہ ازیں اس قسم کے کئی معاملات دیکھنے کو ملتے ہیں جنہوں نے نہ صرف اندرونی سطح پر بلکہ بیرونی سطح پر بھی وطنِ عزیز کے استحقاق کو اس انداز میں داغدار کیا کہ شاید ہی تاریخ میں ایسی کوئی مثال ملتی ہو۔

ریاستی داروں کے سربراہان کو جس انداز میں تضحیک کا نشانہ بنایا گیا وہ اپنی مثال آپ ہیں۔
مگراس سارے عمل میں افسوسناک امر یہ ہے کہ اس کھلم کھلی دہشتگردی کے بعد بھی یہ لوگ پر امن ہونے کا دعوے کئے جارہے ہیں جبکہ دوسری جانب حکومت ان تمام غیر قانونی کاروائیوں پر مکمل طور پربے بس نظر آرہی ہے۔اتنا کچھ ہو جانے کے بعد بھی حکومت ایسے پھونک پھونک کر قدم رکھ رہی ہے کہ جیسے اقتدار ملکی سلامتی اور سے بھی زیادہ اہم ہو۔

عالمی برادری میں پاکستان کے چہرے کو اس طرح مسخ کیا گیا کہ ہر سطح پر رسوائی ہوئی۔مگر حکومت اس ساری صورتِ حال کو قابو کرنے میں مکمل طور پر ناکام رہی۔نہ ریاستی اداروں کے تقدس کا احترام کیا گیا تو نہ ہی قومی تشخص اور قومی و قارکی کسی خاطر میں لایا گیا۔دوسری جانب ذاتی اناء کی اس جنگ میں آڈی پیز اور سیلاب زدگان کو اس طرح نظر انداز کیا گیا کہ بے حسی کی انتہاء کر دی۔


ایک طراف عمران خان صاحب ہیں جنہوں نے وزیرِاعظم کے استعفے کو اپنی اناء کا مسلہ بنا رکھا ہے اور خان صاحب کی اسی اناء موجہ سے عوامی مسائل میں دن بدن اضافہ ہوتا جا رہا ہے مگر خان صاحب کو عوامی مسائل سے نہیں بلکہ انکی انااء سے غرض ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے خان صاحب کی ذاتی اناء عوامی مسائل سے زیادہ اہم ہے اورشاید یہی وجہ ہے کہ خان صاحب ابھی تک پاکستان کے استحقاق اورعوامی مسائل پرذاتی اناء کو ترجیح دےئے ہوئے ہیں۔

جبکہ دوسری جانب قادری صاحب اینڈ کمپنی اپنے بیرونی ایجنڈے پر عمل پیرا ہوتے ہوئے پاکستان کی بنیادیں کھوکھلی کرنے میں مصروف ہیں۔تیسری جانب حکومت اور اسکی اتحادی جماعتیں ہر حال میں حکومت کا ساتھ دینے کیلئے پرعزم دکھائی دے رہی ہیں۔ الغرض پاکستان میں موجود تمام سیاسی جماعتیں مختلف گروہوں میں بٹ گئیں۔تحریک انصاف ہویا پاکستان عوامی تحریک سب کا مقصدعوام کو استعمال کرتے ہوئے اپنے پنے مفادا دکی جنگ لڑ نا ہے۔


آئی ڈی پیز ہوں یا سیلاب زدگانان متاثرہ افراد کے بارے میں سوچنا اس مفاد پرست ٹولے کی ترجیحات میں کبھی نہیں رہا۔ان متاثرین کے ساتھ کیا بیت رہی ہے اس کا اندازہ نہ خان صاحب کو ہے اور نہ ہی کینیڈین غلاموں کوکیونکہ کم از کم ان لوگوں اپنا وقار بحال ہے۔ ہاں اگر مر رہا ہے تو غریب کا بچہ ،اگر اٹ رہا ہے توغریب کا گھر مگرمجال ہے کہ ان مخلص سیاست دانوں نے اس کے بارے میں بھی کچھ عملی اقدامات کئے ہوں، انہیں اگر ہمدردی ہے تو اپنے ذاتی مفاداد سے،ا نہیں اگر کوئی ہمدردی ہے تو وزیر اعظم سے ستعفی لینے سے ہے۔

بے ضمیریت کی انتہاء ہے کہ ایک طرف تو ریاست کو کھلم کھلا چیلنج کیا جا رہا ہے جبکہ دوسری جانب محب وطن ہونے کے دعوے بھی کئے جا رہے ہیں ۔ایسا معلوم ہوتا ہے کہ شاید یہ لوگ عوام کو بیوقوف سمجھتے ہیں یا پھر انکا اپنا ذہنی توازن خراب ہو چکا ہے۔یہ لوگ ذہنی طور پر اس حد تک مفلوج ہو چکے ہیں کہ جب ان کے کارکنان کسی گیر قانونی فعل کے مرتکب ہوتے ہیں تو اسکی مزمت کی بجائے انکا قانونی جواز بنا کر اسکی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے اور جب کسی غیر قانونی حرکت پر قانون حرکت میں ٓاتا ہے تو اسکو غیر قانونی اور غیر آئینی فعل سے تعبیر کر مظلومیت کا رونا رویا جاتا ہے۔


نہ جانے یہ کیسی حب الوطنی ہے جس میں ذاتی اناء کو ملک و ملت اور عوامی مسائل پر ترجیح دی جا رہی ہے۔یہ کیسا نیا پاکستان ہے جسمیں ااخلاقی اقدار نامی کوئی چیز ہی نہیں۔یہ کونسی جمہوریت ہے جسمیں تمام آئینی اداروں کو کھلے الفا ظ میں ڈکٹیشن دی جاتی ہیں ؟۔یہ کہاں کا جمہوری نظام ہے کہ جس میں فردِ واحد کی رائے کو حتمی فیصلہ تصور کیا جاتا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :