یحییٰ خان ثانی !

منگل 30 ستمبر 2014

Muhammad Irfan Nadeem

محمد عرفان ندیم

ڈاکٹر صاحب کی محفل ختم ہو چکی تھی اور لوگ واپس جا رہے تھے ۔میں لیٹ پہنچا تھا، میں نے ڈاکٹر صاحب سے ملنے کی خواہش کی تو وہ مجھے اپنے ساتھ اپنے اسٹڈی روم میں لے گئے ۔ڈاکٹر صاحب اصولی سیاستدان تھے ،بھٹو کے قریبی دستوں میں سے تھے ،کسی بات پر اختلاف ہوا تو کابینہ سے الگ ہو گئے ،لاہور کے ایک نامور کالج میں پروفیسر ہو ئے اور ساری عمر پروفیسری کر تے ہوئے گزار دی ۔

کچھ عرصہ پہلے ریٹائرڈ ہوئے اور گھر میں قید ہو کر رہ گئے ،اب گھر میں ڈاکٹر صاحب تھے اور تنہائی ،تنہا ئی کی فطرت میں اداسی اور مایوسی ہے اور یہ پتھر دل افراد کو بھی بے بس کر دیتی ہے ،اکثر شاعر لوگ تنہائی پسند ہوتے ہیں اور شاید یہی ویہ ہے کہ شاعری میں بے بسی ،اداسی اور مایوسی کا عنصر غالب ہو تا ہے ۔

(جاری ہے)

ہٹلر جیسے مضبوط اعصاب کا مالک بھی تنہائی کے ہاتھوں بے بس ہو گیا تھا اور اس نے خود کشی کر لی تھی ،اکثر پڑھنے لکھنے والے لوگ تنہائی پسند ہو تے ہیں لیکن ایک حد سے ذیادہ تنہائی پسندی انسانی فطرت کے لئے خطرناک ہے ،اگر آپ حد سے ذیادہ تنہائی پسند ہیں تو آپ کی شخصیت کی متوازن نشوونما نہیں ہو پاتی اور کہیں نہ کہیں آپ کی شخصیت میں نقص رہ جاتا ہے ۔

اپنے کام کے ساتھ انسان کو تھوڑا سوشل بھی ہو نا چاہئے اور آج کے دور میں آپ سوشل ہو ئے بغیر بھرپور زندگی نہیں گزار سکتے ۔ڈاکٹر صاحب نے اپنی تنہائی کو کاٹنے کا ایک خوبصورت حل نکالا ،انہوں نے نئی جنریشن کو سیاست اور معیشت سکھا نے کے لیئے ہفتہ وار مجلس کا انعقادشروع کر دیا،یہ ہر ہفتے باقاعدہ مجلس سجاتے ہیں جس میں مختلف اداروں اور یونیورسٹیوں کے اسٹوڈنٹس شریک ہوتے ہیں ،ڈاکٹر صاحب بھٹو دور کی سیاست کا تذکرہ کر تے ہیں ،بھٹو کے واقعات سناتے ہیں ،تاریخی حقائق سے پردہ اٹھاتے ہیں ،موجودہ سیاست کا تجزیہ کر تے ہیں اور آخر میں سوالات کی نشست ہو تی ہے ۔

ڈاکٹر صاحب کو اس مجلس سے دو فائدے ہوئے ایک ،انہوں نے تنہائی سے جان چھڑا لی دو ،ڈاکٹر صاحب کو اپنا علم اور اپنی زندگی کے تجربات آگے منتقل کر نے کا موقعہ مل گیا ۔میں محفل میں دیر سے پہنچا تھا اور تب تک ڈاکٹر صاحب جا چکے تھے ،میری درخوست پر ڈاکٹر صاحب باہر تشریف لائے اور مجھے اپنے ساتھ اپنے اسٹڈی رو م میں لے گئے ،گفتگو شروع ہوئے تو میں نے گفتگو کا رخ دھرنوں کی طرف موڑ دیا ۔

ڈاکٹر صاحب ایک عرصے سے عمران خان کے فین تھے لیکن خان صاحب کی موجودہ سیاست نے ہزاروں لاکھوں ورکرز کی طرح ڈاکٹر صاحب کو بھی مایوس کیا تھا ،ڈاکٹر صاحب نے عمران خان کی سیاسی ناپختگی اور قادری صاحب کے انقلاب کا آپریشن شروع کر دیا ،میں نے موقع غنیمت جانا اور سوال کر ڈالا ”ڈاکٹر صاحب ان دھرنوں کا اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا اور اس اونٹ کے کھڑے رہنے یا بیٹھنے سے ملک پر کیا اثرات مرتب ہوں گے “ڈاکٹر صاحب نے اپنے دائیں ہاتھ کو ٹھوڑی کے نیچے رکھا ،ٹیک لگائی اور میری طرف متوجہ ہو کر بولے ”دھرنوں کا اونٹ کھڑا رہے یا بیٹھ جائے ،انقلاب اور آذادی مارچ کامیاب ہوں یا ناکام نقصان دونوں صورتوں میں ملک کا ہو گا “میں نے تفصیل طلب نظروں سے ڈاکٹر صاحب کو گھورنا شروع کر دیا ،وہ بولے ”اگر عمران خان کا دھرنا کامیاب ہو جا تا ہے یا سپریم کورٹ نواز شریف کونااہل قرارادے دیتی ہے تو مڈٹرم الیکشن ناگزیر ہوں گے اور شاید اس مڈٹرم الیکشن میں عوام پی پی اور ن لیگ کو دوبارہ چانس نہ دیں ،عوام جانتے ہیں کہ عمران کے پاس کچھ نہیں لیڈر شپ ،مینجمنٹ ،سوچ ،وژن ،ٹیم ورک اور سیاسی سوجھ بوجھ عمران سب میں زیرو ہیں لیکن پھر بھی عوام مڈ ٹرم الیکشن میں عمران کو ایک بار ضرور آزمانا چاہتے ہیں ،اسٹبلشمنٹ کے کچھ لوگ اور کچھ خفیہ ہاتھ بھی عمران کو سپورٹ کر رہے ہیں ،اب اگر مڈٹرم الیکشن ہوتے ہیں اور عمران مرکز میں حکومت بنانے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو جانتے ہو کیا ہو گا ؟عمران نیا پاکستان بنانے کے لیئے میدان میں نکل آئے گا ،خفیہ ہاتھ بھی متحرک ہو جائے گا اور پھر اسی طرح کا ایک نیا پاکستان بنے گا جس طرح گزشتہ پچاس دنوں سے ہر رات اسلام آباد میں بنتا ہے ۔

تحریک انصاف اور عمران خان کی تعریف سے بھرپور نغمے ہر سیاسی میٹنگ اور سیاسی اجتماعات کا حصہ بن جائیں گے ،اسلام آباد ڈانس کرنے والوں کے قبضے میں ہو گا ،عمران خان صاحب جہاں جائیں گے نوجوان لڑکے اور لڑکیاں رقص و سرود کے ساتھ ان کا استقبال کریں گے اور یہ رقص وسرودان کی سیاست کا لازمی حصہ بن جائے گا“۔ڈاکٹر صاحب رکے ،پہلو بدلااور دوبارہ گویا ہوئے ۔

”یہ صورتحال ملک کی مذہبی سیاسی جماعتوں کے لیئے ناقابل قبول ہوگی ،پاکستان اگرچہ ایڈوانس ہو چکا ہے لیکن عوام مذہب کے بارے میں کمپرو مائز کرنے کے لیئے تیار نہیں ،آج بھی پاکستان کا اسی فیصد طبقہ عمران کی رقص و سرود والی سیاست سے نالاں ہے ،پاکستانی عوام مذہب کے بارے میں سست ضرور ہیں لیکن ان کے اندر ایمان کی چنگاری بدستور جل رہی ہے اور اس کی سینکڑو ں مثالیں بکھری پڑی ہیں ۔

عمران کی تبدیلی کے نتیجے میں ملک کی مذہبی سیاسی جماعتیں میدان میں آئیں گی اور انہیں عوام کی بھرپور حمایت بھی حاصل ہو گی ،ملک مذہب پسند اور سیکولر دو واضح دھڑوں میں تقسیم ہو جا ئے گا اور خاکم بدہن یہ ملک میں خانہ جنگی اور انارکی کی شروعات ہوں گی ۔ یہ وہ کھیل ہے جو اس سے پہلے مصر اور شام میں کامیابی سے کھیلا گیا اور اب وہاں عالمی طاقتیں اپنی مرضی سے حکومتیں کر رہی ہیں “میں نے عرض کیا ”ڈاکٹر صاحب اگر دھرنے ناکام ہو جاتے ہیں تو اس کے اثرات کیا ہوں گے “ڈاکٹر صاحب نے سرد آہ بھری اور درد بھرے لہجے میں بولے ”دونوں صورتوں میں نقصان ملک کا ہو گا،اگر دھرنے ناکام ہو تے ہیں تو عمران آرام سے نہیں بیٹھے گا یہ اسلام آباد سے نکل کر پورے ملک میں دھرنے دے گا اور یوں ملک کی اقتصادی موت واقع ہو جائے گی ۔

غیر ملکی سربراہان پاکستان آنے سے معذرت کر لیں گے ،ایکسپورٹ امپورٹ کا کاروبار تباہ ہو جائے گا ،غیر ملکی کمپنیاں آرڈر کینسل کر دیں گی ،معاشی سرگرمیاں محدود ہو جائیں گی ،تاجر برادری ہڑتال کر دے گی اور پورا ملک مفلوج ہو کر رہ جائے گا ۔ساری ذمہ داری فوج اور عدلیہ کے کندھوں پر آ پڑے گی اور خدانخوستہ فوج اگر میدان میں آتی ہے تو ہم پھر دس سال پیچھے چلے جائیں گے “ڈاکٹر صاحب کے چہرے پر غم اور پریشانی کے آثار نمایاں تھے ،میں نے عرض کیا ”ڈاکٹر صاحب اس بحران سے نکلنے کا طریقہ کیا ہے “ڈاکٹر صاحب نے چشمہ اتار کر میز پر رکھا ،دونوں ہاتھوں سے آنکھوں کو مسلا اور گہری سانس لے کر بولے ”ملک کی تمام سیاسی پارٹیاں بحران کی دائیں جانب کھڑی ہیں اور عمران اکیلا بائیں جانب کھڑا ہے ،اب عمران کو یہ حقیقت تسلیم کر لینی چاہئے کہ زبان خلق نقارہء خدا ہوا کرتی ہے ،اسے چاہئے کہ وہ وقتی طور پر اپنے استعفے کے مطالبے سے دستبردار ہو جائے اور خیبر پختونخواہ پر توجہ دے ،اگر عمران نے تین چار سالوں میں خیبر پختونخواہ کے نظام کو درست کر دیا تو اگلی باری یقینا اس کی ہوگی لیکن اگر عمران اپنی ضد پر اڑا رہا اور اس کی یہ ضد فوج کو بیرکوں سے اٹھا کر ایوان اقتدار میں لے آئی تو آج سے ہزار سال بعد بھی عمران اپنی ذات سے یہ دھبہ نہیں دھو سکے گا اور مستقبل کی تاریخ میں عمران خان کو یحییٰ خان ثانی کے نام سے لکھا اور پکارا جائے گا ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :