یادیں

ہفتہ 25 اپریل 2015

Khalid Irshad Soofi

خالد ارشاد صوفی

جناب یاسر پیر زادہ کے کالم کی اشاعت سے اگلے روزبرادرم گل نوخیر اختر کا کالم بھی ماضی قریب کے احوال پر مبنی تھا ان دونوں کالموں کو پڑھ کر پہلا خیال یہ آیا کہ دونوں کالم کمبائن (Combine)سٹڈی کا رزلٹ ہیں۔ دوسرا خیال ان کالموں کے ”یکے از مطبوعات“ ہونے کا آنا چاہیے تھا لیکن ایسا نہیں ہوا۔ کیونکہ خیالات آزاد واقع ہوئے ہیں۔ لہٰذاوہ کسی قاعدے،قانون او ر ضابطے کے کنٹرول میں نہیں ہوئے البتہ ا دوسرا خیال اپنے ماضی قریب کے ان سنہری دنوں کا آیا جب آتش جوان تھا۔

اور زندہ دلان شہر لاہور کی قدیم ،علمی و ادبی اور ثقافتی روایات کے عکس اور اثرات تابندہ تھے۔ حرکت کم اور برکت زیادہ تھی۔ زندگی میں ایک ٹھہراؤ تھا۔ جاننے کی بجائے سیکھنے اور سمجھنے کا رواج تھا۔

(جاری ہے)

آلائشں اور آرائشیں کم تھیں مگررعنائیاں اور رنگینیاں زیادہ تھیں۔ نفسا نفسی نہیں تھی ایثار، بھائی چارہ اور قناعت تھی۔ دوستی اور محبت کا پیکر جمال حوس اور حرس سے محفوظ تھا۔


ہمارے پرائمری سکول کے باہر ایک شخص اپنی سائیکل پر کالا چورن بیچنے آتاتھا یہ چورن غالباً تیزاب میں گندھا ہوتا تھا وہ شخص چورن کو ایک مخصوص تبلی کے سرے پر چڑھا دیتاتھااور پھر جلتی ہوئی دیا سلائی اس کے قریب لے کر جاتا تو چورن سے ایک شعلہ نکلتا تھا جو ہمارے کم سن ذہنوں کو حیرتوں کے سمندر میں ڈبو دیتاتھا۔
اسی کی دہائی کا میڈیا دادا جی کے ریڈیو،چچا کی ٹیپ اور بلیک اینڈ وائٹ ٹی وی پر مشتمل ہوتا تھا ٹی وی ڈرامہ وارث اور اندھیرا اجالا جب چلتے تھے۔

تو شہر میں سناٹا چھا جاتا تھا۔نوبجے کے خبر نامے میں اظہر لودھی کا انداز بیان آج بھی نہیں بھولتا،میٹرک کے دنوں میں تو والدین نے انگریزی سیکھنے کے لیے پی ٹی وی کے انگریزی خبر نامے کی نیوز کاسٹر شائستہ زاہدکوتوجہ سے سننے کی تلقین کر رکھی تھی۔جو دوست غور سے انگریزی خبر نامہ سنتے رہتے انہیں انگریزی “آگئی “لیکن ہم بغیر انگریزی کے کالج پہنچ گئے۔

وہاں بھی انگریزی کے نہ” آنے “کا مسئلہ درپیش ہوا تو کسی ”سیانے“ نے سینما میں انگریزی فلم دیکھنے کا مشورہ دیا لہٰذا جس جس کو انگریزی نہیں آتی تھی وہ مہینے میں ایک دو بار الفلاح پلازہ اور ریگل سنیما میں لیکچر سننے پہنچ جاتاتھا جو انگریزی کے علاہ انگریزوں کے بھی خواہاں ہوتے وہ ٹریننگ لینے مون لائٹ چلے جاتے۔
کراچی اور اسلام آباد کی خبر نہیں البتہ لاہور میں رنگین ٹی وی اور وی سی آر متعارف کروانے کا سہرا گلف کے صحرا میں رزق تلاش کرنے جانے والے” مجاہدین“ کے سر بندھتاہے۔

یہ جب ایئرپورٹ سے باہر نکلتے تو انہوں نے بوسکی کی شلوار قمیص پہن رکھی ہوتی تھی اور ہاتھوں میں راڈو گھڑی اور سامان کی ٹرالی پر جاپانی رنگین ٹی وی اور وی سی آر رکھا ہوتا جس کی وہ کسٹم کے”فرض شناس“اہلکاروں کو معقول”ڈیوٹی“ ائیرپورٹ لاؤنج میں جمع کروانا نہ بھولتے تھے۔آہستہ آہستہ محلوں میں و ی سی آر کی دکانیں کھل گئیں ۔دکاندار وی سی آر اور فلمیں نیک نام گھرانوں کے لڑکوں کو معاشرتی دباؤ کے تحت نہیں دیتے تھے۔

اگر نیک نام گھرانے کے لڑکے نے فلمیں دیکھنی ہوتی تو وہ کسی مزید ”نیک نام“ گھرانے کے لڑکے کو ساتھ لے جاتا اورمن کی مراد پالیتا۔آج جن دوستوں سے واٹس اپ (Whatsapp)پر آیا ویڈیو میسج بیگم سے چھپایا نہیں جاتا وہ اس دور میں پورے اہل خانہ سے ٹیبلٹ سائز کی فلم قمص کے اندر چھپا کر بیٹھک میں لے جاتے تھے۔
ان دنوں پاک ٹی ہاؤس خالص ادبی و علمی جگہ تھی جہاں دائیں اور بائیں بازوکے ”علمبردار” ادیب و شاعر اپنی اپنی مخصوص نشت سنبھالے ہوئے تھے ان دنوں اقسام کے علاوہ ادیبوں کی ایک تیسری قسم بھی لاہور کے ادبی حلقوں میں کبھی کبھارنظر آجاتا کرتی تھی وہ کمرشل(ڈائجسٹ) فنکشن رائٹرز تھے جن کا اوریجنل ادب کے تخلیق کاروں کے سامنے وہی مقام جو آج نور جہاں کے مقابلے میں نصیبو لال کا ہے۔

پاکستان میں فارما انڈسٹری نے قدم جمائے تو میڈیکل ریبپس کی ہفتہ وار میٹینگ بھی پاک ٹی ہاؤس میں منعقد ہونے لگی یوں جہاں انسان کی بات ہوتی تھی وہاں حصول سرمایہ کی ترکیبیں بھی تشکیل دی جانے لگی۔
آج کی طرح بیس سال پہلے بھی معروف ادیبوں کی کتب شائع کرنے کے حقوق بھی اسی کتب خانے کے پاس تھے جس کا مالک کتاب کی قیمت عام آدمی کی قوت خرید کے مطابق رکھنے کے معاملے میں خاصا”بے نیاز“ واقع ہوا تھا اس نے بڑے بڑے جفادری ادیبوں کو اپنا”نیاز مند“ بنا رکھا تھا او راسی نیاز مندی کے نتیجے میں اس کے ادارے کو ”سنگ میل“ کی حیثیت حاصل تھی۔


طلبہ کو تو اس ادارے سے کتاب خریدنے پر کوئی رعایت نہیں ملتی تھی البتہ اردو بازار کے مشتاق بک ڈپو کے مالک مشتاق بھائی بڑے علم دوست تھے وہ ہمیں نہ صرف کتب رعایتی قیمت پر دے دیتے تھے بلکہ ادھار بھی کرلیا کرتے تھے اسی دور میں لاہومال روڈ پر برانڈز اور گاڑیوں کا اتنا رش نہیں ہوتا تھا ہم اکثر رات کو قدرت اللہ کمپنی کے دفتر کے تھڑے پر بیٹھ کر پٹھان چوکیدار سے چائے پیتے اور ادبی گفتگو کے علاوہ روشن مستقبل کے خواب بننے رہتے تھے۔


شاید ہماری آخری نسل ہے جس نے دوستی اور محبت کی اعلیٰ روایات کو اصل روپ میں دیکھا ہے دوستی بے لوث تھی اور محبت غیر مشروط۔ یہ بھی سچ ہے کہ دوستی اور محبت میں کوئی دغا نہیں دیتا تھا۔محبت کی معراج شادی تھی اور شادی کا انجام ڈھیروں بچے ۔لیکن اس کے باوجودمیاں بیوں کے تعلقات مثالی رہتے تھے۔اس دور میں شوہروں کے ہاتھوں میں سمارٹ فون نہیں آئے تھے لہٰذا وہ شام کو گھر پر کرش کینڈی کھیلنے اور فیس بک ”فرینڈز“ کی پوسٹوں کو بغیر دیکھے لائیک کرنے کی بجائے بیوی اور بچوں کو وقت دیتے تھے۔

فیروزن فوڈز اور برانڈڈ ریسٹورنٹ نہیں تھے کم آمدنی میں بھی اچھا گزارہ ہوجاتاتھا۔ سرکاری سکولوں کے اساتذہ بھی ابھی دیہاڑی دار نہیں بنے تھے ٹیوشن پڑھانے والے استاد کو اچھا نہیں سمجھا جاتا تھااورسرکاری اسکولوں کے ٹوٹے بنچوں پر پڑھ کر لوگ اپنی منزل کو پالیا کرتے تھے۔جی ہاں صرف پندرہ سے بیس سال پہلے کی زندگی میں تناؤ،ڈپریشن،حرس ، ہوس اور بے یقینی نہیں تھی۔بے فکری،اطمینان اور اعتماد بھرے وہ دن گزر گئے ہیں اور اب تو صرف چھوٹی چھوٹی یادیں ہیں اور چھوٹی چھوٹی باتیں ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :