اُمت کا نوحہ

جمعرات 2 اپریل 2015

Khalid Irshad Soofi

خالد ارشاد صوفی

علاقائی،قبائلی،لسانی اور نسلی تفرقات میں تقسیم عرب دنیا میں اب فرقہ واریت کی آگ جلا دی گئی ہے جس کے شعلے ناتوواں وجود اُمہ کو خاکستر بنارہے ہیں اب کے بارے کسی لارنس آف عریبیہ کی ضرورت بھی نہیں پڑی کہ عرب دنیاکے کونے کونے میں”لارنس آف عریبیہ “اپنے اپنے مزموم عزائم لیے بیٹھے ہیں جولارنس آف عریبیہ کی طرح جھوٹے مسلمان نہیں ہیں۔

بلکہ ”نسلی و اصلی“ مسلمان ہیں اور اپنے ہاتھوں سے اپنے وجود کو جلا رہے ہیں۔
عرب دنیا میں ان دنوں خونِ مسلم کے ایندھن سے بڑھتی اور بھڑکتی ہوئی آگ کی تپش عالم اسلام تک پہنچ رہی ہے۔میرے ملک میں بھی اپنے اپنے مفادات میں رنگی آوازیں اُٹھ رہی ہیں اس تپش اور حبس کی فضاء میں مسلم تاریخ کاایک المیہ باب میرے سامنے ہے جسے نقل کررہاہوں تو یہ المیہ مسلم اُمہ کا نوحہ بن کر قرطاس پر اتر رہاہے۔

(جاری ہے)


یہ پہلی جنگ عظیم کا زمانہ ہے۔ایک طرف جرمنی اور آسٹریا ہیں تودوسری طرف روس، فرانس اور برطانیہ ۔ مسلمانوں کی سلطنت عثمانیہ جس کا دارالخلافہ قسطنطنیہ (ترکی) ہے، جرمنی کا حامی اور اتحادی ہے۔ ترکی کی سلطنت عثمانیہ اگرچہ بہت کمزور ہو چکی ہے، مگر اس کی سرحدیں بہت دور دور تک پھیلی ہوئی ہیں۔ شام، فلسطین، اردن، عراق، حجاز اسی سلطنت کے مختلف حصے ہیں۔

زیادہ عرصہ نہیں گزرا کہ یہ سلطنت دنیا میں سپر پاور کی حیثیت رکھتی تھی، مگر اب روبہ زوال ہے۔ برطانیہ اور فرانس کی سربراہی میں یورپی اقوام مسلمانوں کی اس رہی سہی قوت کو بھی ریزہ ریزہ کرنا چاہتی ہیں۔ اس مقصد کے لیے ان کا فارمولا "تقسیم کرو اور پھر حکومت کرو" کامیاب ہونے جارہاہے۔
مسلمانوں کے روایتی حریف یہودو نصاریٰ کی سازشیں”اپنوں“ کی ریشہ دوانیوں کی بدولت کامیاب ہورہی ہیں۔

ترکوں سے برطانیہ کو ایک خطرہ بحرہ ہند کی ناکا بندی کی صورت میں تجارتی نقصان کا ہے تو دوسرا مشرق وسطیٰ میں اسرائیل کے قیام کا خواب پورا ہوتا دکھائی نہیں دے رہا۔
1901ء میں صیہونی تحریک کے سربراہ تھیوڈور ہرٹزل نے خلافتِ عثمانیہ کے 25 ویں خلیفہ سلطان عبدالحمید ثانی کو پیشکش کی کہ اگر آپ سرزمین فلسطین میں یہودی آبادکاری کی اجازت دے دیں تو ہم آپ کو سونے کے 150 ملین برطانوی پونڈز دیں گے۔

“ سلطان نے جواب دیا: ”اگر تم مجھے 150 ملین برطانوی پونڈز کے بجائے وہ سارا سونا بھی دے دو جو پوری دنیا میں پایا جاتا ہے تو بھی مجھے تمہاری پیشکش قبول نہیں، کیونکہ میں پچھلے 30 سال سے اسلامی دنیا اور اُمت محمدیہ کے مفادات کا نگہبان ہوں۔ میں یہودیوں کو سرزمین فلسطین کا ایک انچ بھی نہیں دینے والاکیونکہ یہ میری ملکیت نہیں ہے۔“
کیا یہ محض حسنِ اتفاق تھا کہ سلطنت عثمانیہ کا شیرازہ بکھیرنے کے لیے جس شخص تھامس ایڈورڈ لارنس کا انتخاب کیا گیا وہ ایک عیسائی علاقے کے یہودی باشندے سرتھامس چیپ مین کا ناجائز بیٹا تھایہ یہودو نصاریٰ کی صبح عروج تھی یا مسلم اُمہ کی شام زوال کی علامت کہ لارنس آف عریبیہ کی شخصیت تعلیم و تربیت ،مہارت و ذہانت کا وہ مجموعہ تھی جس نے وحدت مسلم کو ٹکڑوں میں ایساتقسیم کیا کہ پھر وہ کبھی یکجا نہ ہوسکے۔


آثار قدیمہ ، لسانیات اورفنون لطیفہ کے ماہر، شاعر، ادیب اور جنگجو تھامس ایڈورڈ لارنس نے آثارِ قدیمہ میں ڈاکٹریٹ کے تحقیقی مقالہ” صلیبی جنگوں کے دوران قلعوں کا طرز تعمیر“کے لئے تحقیق کے دوران مسلم تاریخ ، عرب زبان و ادب اور عثمانی اور عرب سلطنتوں کی سیاسیات کا تفصیلی مطالعہ کیا۔جنگ عظیم اول کے ابتدائی سالوں میں لارنس کو برطانوی فوج میں کمیشن ملا، سروس کے آغاز میں وہ جنرل آرچی بالڈ مرے کے ہیڈکوارٹر (قاہرہ)میں سٹاف افسر کے طور پر تعینات رہا، بعدازاں اسے ملٹری انٹیلی جنس کے عرب ڈیسک میں بھیج دیا گیا۔

عرب ڈیسک میں اس کی بنیادی ذمہ داری عرب قبائل کی سیاسی و عسکری صورتحال پر نظر رکھنا اور ترکوں کے جزیرہ عرب اور مشرقِ وسطیٰ میں تسلط کو کمزور کرنے کے لئے شہزادہ فیصل کو مشاورت فراہم کرنا تھی، عرب ڈیسک میں کام کے دوران عرب ثقافت، زبان اور سیاست کے گہرے مطالعے اور صحرائی زندگی سے فطری لگاؤ کے بل بوتے پرلارنس نے عربوں میں قوم پرستی کا جذبہ ابھارا۔


ستمبر 1911ء میں لارنس نے بصرہ کے ایک ہوٹل میں جاسوسی کا ایک باقاعدہ ادارہ قائم کیا اور دو عرب نوجوانوں کو بھی اپنے ساتھ شامل کیا۔ ایک امریکن جاسوس یہودی لڑکی بھی اس منصوبے میں شامل تھی جس نے اس کی بڑی مدد کی۔ وہ انتہائی خوبصورت تھی۔ اس نے عربی نوجوانوں پر دام حسن ڈال کر ترکوں کی بیخ کنی شروع کردی۔انگریزوں نے لارنس کو ہدایت کی کہ وہ برلن سے بغداد جانے والی ریلوے لائن سے متعلق اطلاعات لندن پہنچائے اور ایسے افراد کا انتخاب کرے جو ضمیر فروش ہونے کے ساتھ ساتھ بااثر بھی ہوں۔

ان دنوں عراقی ریلوے لائن دریائے فرات تک پہنچ چکی تھی اور دریا پر پل باندھا جار ہا تھا۔اس پل کے قریب لارنس نے آثار قدیمہ کے نگران اعلیٰ کا روپ دھار کر کھدائی شروع کروا دی، آثار قدیمہ کی کھدائی محض بہانہ تھی، اصل مقصد برلن بغداد، ریلوے لائن کی جاسوسی تھا۔ یہاں سے وہ ہر روز خبریں لکھ کر لندن روانہ کرتا رہتا۔اپنا مقصد حاصل کرنے کیلئے اس نے مزید غداروں اور ضمیر فروشوں کی تلاش شروع کی۔

کافی تگ و دو کے بعد اس نے ترک پارلیمنٹ کے رکن سلیمان فائزی کا انتخاب کیا اور خطیر رقم کا لالچ دے کر اپنا ہم نوا بنانے کی کوشش کی۔ فائزی نے بڑی حقارت سے اسکی پیشکش ٹھکرا دی لارنس بڑا عقلمند اور جہان دیدہ تھاکافی غوروفکر کے بعد فیصلہ کیا کہ برطانیہ کیلئے قابل اعتماد آلہ کار اسکو پڑھے لکھے، دولت مند اور سیاسی لوگوں میں سے نہیں مل سکتا اس لیے مذہب کی آڑ لینا شروع کی۔

وہ بصرہ کی مسجد میں گیا اور مسلمان ہونے کا اعلان کیا۔ عربی لباس پہن کر عرب صحرا نشینوں میں گھل مل گیا۔ لارنس نے بدووٴں میں دو لاکھ پونڈ ہر ماہ تقسیم کرنا شروع کردیے ۔اس نے " پونڈ" پانی کی طرح بہا کر عربوں کو اپنا مداح بنا لیا۔وہ اس کو اپنا محسن اور مربی سمجھنے لگے اور ان کی مدد سے لارنس نے گورنر مکہ حسین ہاشمی اور ان کے بیٹوں تک رسائی حاصل کی انہیں مشرق وسطیٰ میں ” سُنی عرب خلافت“ کے قیام کا خواب دیکھا اور اس خواب کی تعبیر کے لیے برطانیہ کی طرف سے عسکری تعاون کی یقین دہانی کراکربغاوت پر قائل کرلیا۔


بغاوت کے پہلے مرحلے میں لارنس نے شہزادہ فیصل کے ہمراہ صرف پچاس گھڑ سواروں کے ساتھ ”عقبہ“ کی بندرگاہ پر قبضہ کرلیا اورپھر عرب قبائیلیوں پر مشتمل سپاہ “عرب لیجن “( Legion) کھڑی کی جس نے دمشق کی فتح تک مدینہ اور حجاز کے علاقوں میں ترک عسکری قوت کم کرنے کے لئے مسلسل گوریلا کارروائیاں کیں۔عرب لیجن کی مدد سے ترکی کو حجاز سے ملانے والی ریلوے لائن تباہ کرکے اس نے ترکوں کی انصرامی (Logistics)امداد کا شیرازہ بکھیر دیا۔

گوریلا کارروائیوں کے دوران بارود کے استعمال کی وجہ سے اسے “شیخ ڈائنامائیٹ ” کہا جانے لگا۔سلطنت عثمانیہ کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے کے بعد موجودہ ایران،کویت،اردن اور اسرائیل کے علاقے برطانیہ کے حصے میں آگئے ۔لبنان،شام اور شمال مشرقی ترک پر مشتمل علاقہ فرانسیسیوں کو مل گیا جب کہ قسطنطنیہ(استنبول) سمیت سارا ترکی روس کے قبضے میں چلا گیا۔

غداری اور بغاوت کے انعام میں شریف مکہ اور اس کے بیٹوں کے حصے میں حجاز،اردن اور عراق کی حکمرانی آئی مگرحجاز اور عراق میں انہیں یہ اقتدار بھی محض کچھ سال ہی نصیب ہوا۔عربوں نے مشرق وسطیٰ میں” سُنی عرب خلافت“ کے قیام کے لیے سلطنت عثمانیہ کو ٹکڑے ٹکڑے کیا مگر وہ خود علاقائی،نسلی اورقبائلی بنیادوں پر درجنوں ریاستوں میں تقسیم ہوگئے اور ان کے سینے پر اسرائیل کا خنجر گھونپ دیا گیا یہ مسلم تاریخ کا نوحہ ہی تو ہے کہ ایک طرف فلسطین میں خون مسلم بہ رہاہے تو دوسری طرف القائدہ،داعش ایسی عسکری تنظیموں کی کارروائیوں سے مسلمانوں کی نسل کشی بھی کی جارہی ہے اورمذہبی،روحانی، ثقافتی اور علمی اثاثے بھی تباہ کیے جارہے ہیں اُمت کے خلاف گریڈ گیم کا سلسلہ جاری ہے اور اب سیاسی اور کاروباری مفادات کی جنگ فرقہ واریت کے نام پر شروع کردی گئی ہے جس کا میدان یمن ہے ناتواں وجود امت مزید لہو لہان ہورہاہے۔

خون بہانے والے اِدھر بھی مسلمان ہیں............اُدھر بھی مسلمان ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :