Thank you for the great surprise

ہفتہ 26 جولائی 2014

Ahmed Adeel

احمد عدیل

ایسٹرن اینڈ اورنٹئیل ایکسپریس نے بنکاک کے ٹرین سٹیشن کی پٹریوں پر رینگنا شروع کر دیا تھاجوں جوں ٹرین آگے بڑھ رہی تھی اس کا چہرہ دھندلاتا جا رہا تھا پلیٹ فارم کے شیڈ سے نکلنے کر بعد باہر ہوتی بارش کے سبب سارے منظر دھندلا گئے تھے لیکن ایک چہرہ کبھی دھندلا نہیں سکا وہ ایک ایسے دوست کا چہرہ تھا جس نے جینے کا گُر سکھانے کے ساتھ ساتھ ایک ایسی پسماندہ سوچ کو بدلنا سکھایا جو جہالت کی مٹی سے گوندھی گئی تھی ، مارچ 2009کی ایک شام کو جب اس نے مجھے ایسٹرن اینڈ اورنٹےئل کا ٹکٹ تھمایا اور پیسے لینے سے انکار کر دیا تو میں اس کا شکر گزار تھا کہ کم از کم بنکاک سے سنگاپور تک ٹکٹ کے پیسے بچ گئے لیکن ٹرین میں سوار ہونے کے بعد ساری خوشی ہوا ہو گئی کئی سوال تھے جن کا جواب نہیں تھا ، کیا اسے میری سیچویشن کا علم نہیں کہ میں کن حالات میں یہاں تک پہنچا ہوں؟ اگر اس نے ٹکٹ کے پیسے مانگ لیے تو؟ میں تمہاری حالت کو سمجھ رہا ہوں لیکن یہی میرا سر پرائز ہے یہ کہتے ہوئے وہ مسلسل مسکرا رہا تھا، جانتے ہو جب سن وے میں میرے پاس کال کرنے کے لیے پیسے نہیں ہوتے تھے اور ادھار مجھے کوئی دیتا نہیں تھا تب میں تمہارا موبائل یوز کرتا تھا ، کئی دفعہ میں پرل پوائنٹ ہائٹس کی اکیسویں منزل پر میں تمہارے فلیٹ میں سویا ہوں، یہ وہ وقت تھا جب سن وے میں سب مجھے لیزی بوائے کہتے تھے ، لیکن آج میں تمہیں سچ بتاتا ہوں میری زندگی کا ایک مقصد تھا کہ میں نے انڈسٹریل سائیکالوجی میں فرسٹ گریڈ لینا ہے اور اگر میں جاب کرتا تو وہ ممکن نہیں ہو پاتا اس لیے میں نے سن وے میں تمہارے آنے سے پہلے اور جانے کے بعد کئی ماہ تک کمپرومائز کیا لیکن آج میں یہ سب افورڈ کر سکتا ہوں ، میرے پاس ایک بہترین جاب ہے جو کہ میری برداشت اور برے حالات سے کمپرو مائز کا ریوارڈ ہے ، اٹس اوکے مگر اسی ٹرین کا ٹکٹ کیوں؟ شاید تم نہیں جانتے کہ میں گھر سے 285 $ کر نکلا ہوں جبکہ اس ٹرین کی ٹکٹ 1890 $ کی ہے ، میرے اس تلخ سوال کے بعد اس کی مسکراہٹ اور بھی گہری ہو گئی، جانتے ہو جب میں سولہ سال کا تھا تو میرے ڈیڈی مجھے پیرس لے گئے اور وہ ٹریول انجوائے منٹ کے لیے نہیں بلکہ زندگی کا ایک پازٹیو فیس دکھانے کے لیے تھا تب میرے ڈیڈی نے اس ٹریول کے لیے بینک سے لون لیا تھا، انہوں نے مجھے پیرس کی بہترین شاپس کا وزٹ کروایا ، ہم دونوں بہترین ہوٹل میں ٹھہرے، امریکن کانٹنیٹل بریک فاسٹ کیا اور مہنگے ریسٹورنٹس میں کھانا کھایا، اور پیرس چھوڑنے سے پہلے ہم دونوں باپ بیٹا اداس تھے، تب میرے ڈیڈی نے کہاکہ دیکھو سن یہ سب کچھ جو ہم نے لون کے پیسے سے کیا ہے یہ عیش نہیں تھی بلکہ ایک سبق تھا جانتے ہو تم اداس کیوں ہو؟ کیونکہ تم ایک افسانوی ٹریول کو چھوڑ کو زندگی کی حقیقت میں واپس لوٹ رہے ہو اگر تم چاہتے ہو کہ یہ سب تمہارا ہو اور تم زندگی کی ان نعمتوں کو افورڈ کر سکو تو پھر تم کو محنت کرنا ہو گی ، کمپرو مائز کرنا ہو گا، اور ایک ایسے راستے کا انتخاب کرنا ہو گا جو تمہیں ہوس کی دلدل میں نہ گرائے ، سو چوائس از یورز، راستہ بھی تم نے چننا ہے، محنت بھی تمہاری ہوگی ، ریوارڈ بھی تم لوگے ، اور آج میں ریوارڈ لے رہا ہوں ، جب تم نے بتایا کہ تم تھائی لینڈ جاب کے لیے آ رہے ہو اور وہاں سے سنگا پور جاؤ گے تو میرے ذہن میں یہی آئیڈیا آیا ، جانتے ہو تم کو ا لا لمپور سے ناکام کیوں لوٹے تھے؟ آئی ایم سوری ٹو سے مگر صرف تمہاری اپنی کمپنی کی وجہ سے، سو دوبارہ یہ غلطی مت کرنا، یہ ٹکٹ میری ایک ماہ کی تنخواہ کے برابر ہے لیکن اس سے کہیں زیادہ وہ ہے جو تم نے میرے لیے تب کیا جب میرے دوست مجھے اچھوت سمجھتے تھے، ٹرین از اباوٹ ٹو لیو، اس سفر کو انجوائے کرؤ اور جب بھی کبھی بُرا وقت آئے یہ سوچ لینا کہ تم نے پیچھے مڑکر نہیں دیکھنا ، اس سفر سے سیکھو جیسے میں نے پیرس کے سفر کے دوران سیکھا ، اگر تم زندگی میں کامیاب ہو گئے تو اس ٹکٹ کے پیسے تم سے مانگنے میں خود آؤں گا ․
ایسٹرن اینڈ اورینٹیل ایکسپریس کا چار دن اور تین راتوں کا لگزری سفر، پھر زندگی کا پانچ سال پر محیط ایک تھکن بھرا سفر ، اس سفر میں کئی ایسے مرحلے بھی آئے جب امید ریگستان کی اس سوکھی جھاڑی کی طرح تھی جو اپنی ہریالی قائم رکھنے کے لیے بارش کے چند قطروں کی محتاج ہو ، لیکن اس کے باوجود واپس پلٹنے کا خیال کبھی نہیں آیا ، آج جب وہ سب کچھ پاس ہے جس کا خواب میں نے دیکھا تھا تو ایک بات سمجھ میں آئی ہے کہ اصل بات یہ نہیں ہوتی کہ آپ کتنے محنتی ہو بلکہ اصل بات یہ ہے کہ آپ کتنے پازٹیو ہو آپ اپنی محنت کو کسطرح یوٹیلائز کر رہے ہو یا آپ کی ترجیحات کیا ہیں، ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم خود سیٹل ہو نہیں سکتے اور دوسروں کو سیٹل کرنا اپنا فرض سمجھتے ہیں، دوستوں ، رشتے داروں، برادری میں ناک اونچی رکھنے کے لیے کم از کم ایک کوٹھی یا بنگلہ ضروری سمجھا جاتا ہے، جو باہر کما رہا ہے اس کی حالت کو سمجھے بغیر اس سے مطالبات کرتے ہوئے سمجھتے ہیں کہ ان مطالبات کو پورا کرنا اس کا حق ہے ، اصل میں ہم ایک ایسے معاشرے میں سروائیو کر رہے ہیں جہاں ہر آدمی کی نظر دوسرے کی پاکٹ پر ہے اور وہ اسے اپنا حق سمجھتا ہے، خیر یہ ہمارا المیہ ہے جس سے شاید ہم کبھی باہر نہیں نکل سکتے، مجھے جہاں
زندگی سے اپنے حصے کی خوشیوں کی تلاش نے وہ سب کچھ دیا جو میں چاہتا تھا وہیں کچھ ایسا چھین لیا جس کا کوئی نعم البدل نہیں ہو سکتا، جس دن امی کی ڈیتھ ہوئی اس دن اکاونٹ میں صرف اتنے پیسے تھے جن کی بمشکل ٹکٹ مل سکتی لیکن ملی وہ بھی نہیں ، ایک ایسا خلا جو کبھی بھر نہیں سکتا، شاید اولڈمین Luke ٹھیک کہتا تھا کہ وقت نہیں گزرتا لیکن انسان گزر جاتے ہیں ایک ایسے وقت کا انتظار کرتے ہوئے جب وہ زندگی کی سب خواہشوں کو حقیقت کو روپ دھارتے دیکھ سکیں ، آج ناممکن نظر آنے والی کئی خواہشیں حقیقت بن چکی ہیں لیکن یہ ایک ایسا سفر تھا جس نے زندگی کے اس روپ کو اجاگر کیا جو ان سب پاکستانیوں کی نظروں سے اوجھل ہے جو آج بھی یورپ جانے یا یونان کے لیے ڈنکی مارنے کو اپنا فیوچر سمجھتے ہیں ،اور اس فیوچر کے انتظار میں اپنا قیمتی وقت اور خون پسینے سے کمایا ماں باپ کا پیسہ اجاڑتے ہیں شاید اس کی وجہ اس معاشرے کا ڈبل سٹینڈرڈ بھی ہے جہاں ایک طرف ہم مغربی روایات کو دن رات بُرا بھلا کہتے ہیں وہیں ان سب چیزوں تک رسائی کے لیے کسی بھی حد تک جانے کے لیے تیار ہیں ، اس میں ایک چیز نفرت بھی شامل ہے ، ان رشتے داروں کی نفرت کو کسی اچھے مقام پر پہنچنے کے بعد دوسروں کو اچھے یا بُرے ہونے کا سرٹیفکیٹ دینا اپنا حق سمجھتے ہیں ، خیر یہ ایک ایسا ایشو ہے جو ٹروجن ہارس کی طرح اس معاشرے کی رگوں میں سرایت کر چکا ہے اور ہر مڈل کلاس آدمی کو ان سب پرابلمز کا سامنا ہے ایک عرصے بعد یہ سب لکھنے کا خیال اس لیے آیا کہ نو اگست کو میں Changsha ( چائینہ) جا رہا ہوں ایسٹرن اینڈ اورینٹیل کے ٹکٹ کی پہلی قسط ادا کرنے اور jeo yeng کو تھینک یو بولنے جس نے زندگی کا فلسفہ ایک ڈفرنٹ طریقے سے سمجھایا اور جتنی دفعہ بھی خدا کا شکر ادا کروں وہ کم ہے جس نے وہ مجھے سب کچھ دیا جو میری اوقات سے بھی زیادہ ہے

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :