سمارٹ فون موٹی قوم

جمعہ 28 اگست 2015

Hussain Jan

حُسین جان

کل حسب معمول جسم کی چربی پگلانے کے لیے پارک میں دوڑ لگانے گئے تو دیکھا ہمارئے جیسے کتنے ہی موٹے افراد اس دوڑمیں ہمارئے ساتھ شامل ہیں۔ بیشتر افراد کے ہاتھوں میں سمارٹ فون اور کانوں میں ہینڈ فری لگے دیکھائی دیے ۔ اُن کے چہروں کے تاثرات سے صاف اندازہ ہو رہا تھا کہ جناب چربی پگلانے سے زیادہ گاناسننے کے موڈ میں ہیں۔ کیا ہمیں کوئی سمجھائے گا کہ یہ چربی اسی سمارٹ فون کی دین ہیبندہ کچھ لمحوں کے لیے تو اسے گھر پر چھوڑ سکتا ہے۔

اب جب کانوں میں کوئی سریلا گانا رس گھول رہا ہو گا تو کیا جناب مٹک مٹک دوڑ لگائیں گے یا کسی پنجابی مٹیار کی طرح لہراتے بل کھاتے چلتے نظر آئیں گے۔
ایک وقت تھا ہم لوگ جسمانی کاموں میں زیادہ مصروف رہتے تھے ، بچے اپنا فارغ وقت ایک دوسرئے سے کھیلنے میں گزارتے تھے، کبھی کسی کا سر پھٹ جاتا تھا تو کبھی کسی کی ناک ٹوٹ جاتی تھی ۔

(جاری ہے)

لیکن ان سب میں موٹاپے کی وجہ سے ناک نہیں کٹتی تھی۔

مگر اب تو حالات بھی بدل چکے ہیں ۔ بچے سب سے پہلے دیکھتے ہیں کہ پاپا کے فون میں کون کون سی گیمز ہیں۔ کس کے پاس اچھا ٹیبلٹ ہے۔ یہی حال بڑھوں کا ہے جیسے ہی کوئی وقت میسر آیا تو پکڑ لیا ہاتھ میں فو ن اور ہو گئے شروع کچھ نہ کچھ کرنے میں ۔ مگر مجا ل ہے کبھی کسی کے دل میں جسمانی مشقت کرنے کا جذبہ اُبھرا ہو کہ یہ کام اس ملک میں صرف مزدور کا ہی راہ گیا ہے۔

ایک سروئے کے مطابق پاکستان میں موٹاپے کی بیماری بہت تیزی سے پھیل رہی ہے جس کی بہت سی وجوہات ہیں مگر سب سے بڑی وجہ ٹیلی فون کا بے جا استعمال، اور ٹیلی ویژن کا دیکھنا ہے۔
ایک وقت تھا جب مائیں بچوں کو کہا کرتیں تھیں کہ کچھ دیر گلی محلے میں کھیل آؤ۔ یا پھر بچے گھر میں ہی کوئی نا کوئی جسمانی کھیل کھیل لیتے تھے۔ جس سے صحت پر اچھے اثرات مرتب ہوتے تھے۔

اور اس کے ساتھ ساتھ بچوں میں ایک میل ملاپ کی عادت بھی پروان چڑتی تھی۔ مگر آج کل کی مایں بچوں سے دور بھاگتی ہیں اور اُن کی کوشش ہوتی ہے کہ بچا فارغ اوقات میں یا تو ٹی وی پر بیٹھ کر اپنے پسندیدہ کارٹون دیکھے یا پھر موبائل فون پر بیٹھ کر گیم کھیلے۔ اس کے بچے کی جسمانی اور ذہنی نشونما پر بہت برئے اثر مرتب ہوتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ بچے تہنائی کا شکار بھی ہوجاتے ہیں۔

ایک دوسرئے کو ملنے سے کتراتے ہیں۔ گھر میں کوئی رشتہ دار آجائے اُسے بھی غصے سے دیکھتے ہیں کہ اس سے اُن کی سرگرمیوں میں تعطلآجاتا ہے ۔ ڈاکٹر کہتے ہیں کہ بچوں اور بڑھوں کو بہت زیادہ سوشل ہونا چاہیے۔ ورزش کرنی چاہیے، کھیل کود میں حصہ لینا چاہیے۔ اس میں کوئی شک نہیں ایک صحت مند بچا اور فرد ہی اچھے معاشرئے کی بنیاد رکھ سکتا ہے۔
موٹا ہمارے لیے وبال جان بن چکا ہے۔

اس سے چھٹکارا پانے کی ہر بندے کی خوائش ہوتی ہے مگر عملی طور پر اس کے لیے کوئی تگ و دود نہیں کی جاتی۔ اب تو حالات یہ ہیں کہ اگر کوئی مر بھی رہا ہو تو بھاگ کر اُسے بچانے کی سکت کسی میں نہیں ہوتی ہاں موبائل سے سلفی اور ویڈیو ضرور بنا لی جاتی ہے۔ یہ بھی ایک طرح سے ہمارے اخلاقی گراوٹ کی نشاندہی کرتی ہے۔
سمارٹ فون رکھنے کی چاہ نے ہمیں بے حد سہل اور سست بنا دیا ہے۔

اُٹھتے بیٹھتے کھاتے پیتے ہر وقت ہمارے ایک ہاتھ میں فون اور دوسرئے میں کھانے پینے کی اشیاء ہوتی ہیں۔ ہم کھانا پینا تو بھول سکتے ہیں مگر فون سے فیس بک اور ٹویٹر پر سٹیٹس اپ دیٹ کرنا نہیں بھولتے۔ اگر ہم اپنی روٹین کو تھوڑا سا تبدیل کر لیں تو انقلابی تبدیلیاں رونما ہوسکتی ہے۔ ورزش کے وقت صرف ورزش کریں کھانے پینے کے وقت سارا دھیان اُسی چیزپر مرکوز رکھیں۔

پڑھائی اور دفاتر میں کام کے وقت صرف کام کریں۔ فیس بک اور دوسرئے سوشل میڈیا ضرور استعمال کیں مگر اُن کی ایک لمیڈ مقرر کر دیں۔ بچوں کو جتنا ہو سکے اس ٹیکنالوجی سے دور رکھیں کہ بڑا ہو کر یہی چیزیں استعمال کرنی ہے۔ اگر آپ کسی نہ کسی طرح اپنے آپ کو جاگینگ کے لیے تیار کر ہی لیتے ہیں تو اُس کے لیے کانوں میں ٹوٹیاں لگانے کی کیا ضرورت ہے۔ کچھ وقت کے لیے اس شیطانی گرو کو گھر پر بھی رکھا جاسکتا ہے۔


ہمارے ایک دوست کہا کرتے تھے ہر وہ بندہ جو سیدھا کھڑا ہو کر اور صرف گردن کو نیچے کرکے اپنے پاؤں کی انگلیاں دیکھ لے تو سمجھو وہ موٹا نہیں۔ میں نے خود بھی یہی کرنے کی کوشش کی اور بہت سے دوسرئے لوگوں کو بھی ایسا کرنے کو کہا مگر مجال ہے کوئی ایک بندہ بھی اپنے پاؤں کی انگلیاں دیکھ پایا ہون۔ یعنی 90فیصد بندے موٹاپے کے شکارہیں۔ کبھی یہ بھی کہا جاتا تھا کہ زیادہ کھانے سے موٹاپا آتا ہے یہ کسی حد تک ٹھیک بھی ہے۔

مگر موجود ہ دور میں لوگوں کو کھانے کا ہوش ہی کہاں ہیں ،کسی درخت کی طرح ایک جگہ پر بیٹھ گئے تو بس بیٹھ گئے۔ اب بیٹھے بیٹھے تو چربی پگلنے سے رہی ہاں بڑھ ضرور جائے گی۔ جدید ٹیکنالوجی نے انسان کو ایک دوسرئے سے دور کر دیا ہے۔ ہمیں ہزاروں میل دور بیٹھے ہوئے لوگوں کے حالات تو پتا ہوتے ہیں مگر ساتھ والے گھر میں کیا ہو رہا ہے اس کا کوئی پتا نہیں۔

گلی محلوں کے چوکوں پر بیٹھا کسی زمانے میں بوڑھوں جوانوں کا محبوب مشغلہ ہوا کرتا تھا مگر آج کل اسے معیوب سمجھا جاتا ہے۔ کیونکہ اب ہم زیادہ وقت اپنے اپنے موبائیلوں اور ٹیلی ویژن کے لیے رکھ چھوڑتے ہیں۔ اس موبائل نے نسلوں کو ایک دوسرئے سے دور کر دیا ہے۔ دادا ،دادی نانا نانی، ماموں ،چچا جیسے رشتے صرف نام کے ہی راہ گئے ہیں کیونکہ ہمارے پاس رشتوں کو نبھانے کا وقت ہی نہیں بچتا۔

یہ ہمارا لیے لمحہ فکریہ ہے، سمارٹ فون کی بجائے اگر ہم اپنے آپ کو سمارٹ بنا لیں تو ہمارے لیے یہ بہتر ہو گا۔ اگر سماڑت فون کا ہماری زندگیوں میں اسی طرح عمل دخل رہا تو پھر وہ وقت دور نہیں جب ہمیں ایک دوسرئے کی شکلیں اور نام بھی یاد نہیں رہیں گے۔ اور پیٹ اتنے موٹے ہو جائیں گے زمین کو دیکھا محال ہو جائے گا۔ لہذا سمارٹ فون کا ستعمال کم کریں اور جسمانی سرگرمیوں کو بڑھائیں کہ اسی میں بہتر مستقبل کا راز ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :