سنگ آنکھیں نہیں رکھتے

پیر 22 دسمبر 2014

Jahid Ahmad

جاہد احمد

طالبان پاکستان کے بدترین دشمن ہیں تو طالبان حمایتی بدترین سے بدتر ہیں۔ اس وحشت کو سٹریٹیجک ڈیپتھ کے نام پر پال پوس کر خونخوار درندے کی شکل میں پروان چڑھانے والے پاکستان میں جاری دہشت گردی کے لئے اتنے ہی ذمہ دار ہیں جتنے کہ طالبان کے حق میں دلائل دینے والے اور بذاتِ خود طالبان۔بات ترجیحات کی ہے پر ہماری ترجیحات کیا ہیں؟ شایدتلخ زمینی حقائق کو بس قالین کے نیچے دھکیل دینا اور وقت گزاری کرنا! طالبان کی جانب سے ایک کے بعد ایک دہشت گردی کی واردات کے باوجود حقیقی بنیادی وجوہات سے چشم پوشی کی جاتی رہی ہے۔

طالبان حمایتیوں کی طرف سے ہر دہشت گرد کاروائی کے بعد اس گروہ کی سفاکی کو بین الاقوامی سازش ،شرعی نظام کے نفاذ کی جد و جہد، امریکی جنگ، ڈرون حملوں، اور پاک فوج کے آپریشن کے ردِ عمل کے طور پر ابھار کر طالبان کو مکمل سیاسی ، مذہبی، اخلاقی اور جنگی جواز فراہم کیا جانا انتہائی قابلِ اعتراض فعل ہے کیونکہ درحقیقت یہی نظریاتی حمایت اس قاتل گروہ کی اسقدر مضبوطی کا سبب بھی بنی ہے۔

(جاری ہے)


پشاور آرمی پبلک سکول میں نہتے بچوں کے قتلِ عام کے بعد سیاسی اور عسکری قیادت نے جس ولولے سے متحد ہو کر دہشت گردوں کے خلاف کمر کسی ہے گر یہی مستعدی ہزارہ کمیونیٹی کے قتل عام ، پشاور چرچ کے خودکش دھماکوں، مذاکرات کے دوران سیکیورٹی اہلکاروں کی گردنیں اتارے جانے یا اقلیتوں کو مذہب کے نام پر زندہ جلانے کے مواقعوں پر دکھائی گئی ہوتی تو شاید اس انسانیت سوز ظلم کو وقوع پذیر ہونے سے روکا جا سکتا تھا۔

پر شاید وطنِ عزیز کے خوابیدہ شعور اور قومی یکجہتی کو جنجھوڑنے کے لئے اس قوم کے نرم گرم رخسار پر کسی ایسی عظیم قربانی کا زناٹے دار تھپڑ درکار تھا ! اب دیکھنا یہ ہے کہ اس تھپڑ کی سنسناہٹ قومی یکجہتی اور بیدار ہوئے شعور کو کتنی دیر تک جگائے رکھتی ہے!!! اگر قوم ، قومی اداروں اور قومی قیادت میں انسانیت، عاقبت اندیشی ، سنجیدگی اور عقل و سمجھ بوجھ نامی عناصر باقی ہیں تودہشت گردی کے ہمراہ دہشت گرد حمایتی قوتوں کے خلاف بھی زیرو ٹالیرنس پالیسی کا سوفیصد اطلاق کیا جائے گا! ایک بار پھر دہرانا پڑتا ہے کہ طالبان حمایتی قوتیں طالبان سے زیادہ خطرناک ہیں۔

یہ قوتیں طالبان کے برپا کیے قتال کو جواز فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ سادہ لوح عوام کے مذہبی ، حب الوطنی و سیاسی جذبات سے کھلواڑکرتے ہوئے دہشت گرد عناصر کے لئے دلوں میں نرم گوشہ ابھارتی ہیں اور مستقبل کے لئے طالبان نظریہ کی تکمیل کی خاطر خام مال کے بسان اذہان تیار کرنے میں مکمل معاون و مددگار ثابت ہوئی ہیں۔ ان قوتوں میں ملا سے لے کر، سیاستدان، حکمران طبقہ اور اعلی سیکورٹی اداروں کے اونچے نیچے عہدوں پر فائز اہلکار سب ہی شامل ہیں۔


132 بچوں کی زندگی اگر وقتی طور پر قومی یکجہتی اور شعور اجاگر کرنے کی قیمت ہے تو ہم نے بلاشبہ بہت مہنگا سودا کیا ہے۔ اگر یہ قومی یکجہتی اور شعور مستقل نوعیت کا ہے تب بھی سودا سستا نہیں کیونکہ بچے بہت قیمتی ہوتے ہیں اور یہ بات والدین سے بہتر کوئی نہیں جان سکتا۔ دوسری بات کہ یہی سودا بہت پہلے بہتیرے مواقعوں پر انتہائی ارزاں قیمت پر بھی خریدا جا سکتا تھا۔

ضرورت تھی تو درست وقت پر دہشت گرد عناصر کو مزید قبولیت بخشنے سے انکار کرتے ہوئے زمینی حقائق پر مبنی سنجیدہ قومی ایجنڈا مرتب کرنے کی نہ کہ قومی سانحات پر سانحات رونما ہونے کے باوجود انہی عناصر کی کاروائیوں کی توجیہات پیش و قبول کرنے کی!یہی غیر سنجیدہ اور ناعاقبت اندیش رویہ قومی سطح پر ہماری بڑی ناکامی ثابت ہوا ہے۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جوں جوں عوام کے جذبات میں ٹھہراؤ آتا جا رہا ہے تو ایک بار پھر رونما ہوئے عظیم قومی سانحے کو غیر ملکی سازش کے طور پر ابھارنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

ایک بار پھر ملا سوچ اس جرم کے محرکات اور خونریزی کے حق میں دلائل پیش کر رہی ہے۔ ایک بار پھر شخصیت پرستی طالبان حمایتی قوتوں کی شدید مذمت اورانہیں ایکسپوز کرنے کی راہ میں دیوار بن کر حائل ہے۔ ایک بار پھر طالبانی نظریاتی بالادستی لہو کے رنگ کو پھیکا کیے دے رہی ہے۔تب ہی برملا کہنا پڑتا ہے کہ بد نیت ملا نے اپنے ہاتھ مضبوط سے مضبوط تر کرنے کے مقصد سے، خرد عقل جرنیل نے دشمن کے خلاف سڑیٹیجک ڈیپتھ حاصل کرنے کے نام پر اور نا اہل سیاست دان نے اپنی سیاست بچانے و بڑھانے کے چکر میں جن عناصر کو بیرونی امداد کے طفیل اپنے آنگن میں جس انداز سے پرورش کی ہے اس کا خمیازہ بیوقوف و بے شعور عوام چپ چاپ پچھلی ایک دہائی میں پچاس ہزار سے زائد لاشوں کی صورت میں ادا کر چکی ہے جبکہ معاملات ابھی بھی جاری و ساری ہیں۔

بطور قوم ہم نے اپنی کج شعوری، نا عاقبت اندیشی ، سٹریٹیجک ڈیپتھ نامی پالیسی ، نظام کی شرعی ساخت پر بحث ، اچھے برے طالبان کی خود ساختہ تفریق، اور دیگر غیر ضروری الجھاؤ کے سبب معاملات اس حد تک خراب کر لیے ہیں کہ جس کے منطقی نتائج اب سب کے سامنے عیاں ہیں!!!
وہ پاکستانی پود جس نے ضیاء دور کے پاکستان میں آنکھ کھولی۔ نوے کی دہائی کی سیاست کو سکول اور کالج جاتے بچے کے طور پر دیکھا۔

مشرف کی مطلق العنانیت میں پڑھائی کا دور ختم کرکے عملی زندگی میں قدم رکھا۔ 9/11 اور اس کے بعد کی پیدا ہوئی صورتحال کا ذاتی طور پر مشاہدہ کیا جب چار سو بم دھماکے ، قتل و غارت گری اور جنگ و جدال عروج پر تھا۔آج اسی پاکستانی پود کے بچے سکولوں میں زیرِ تعلیم ہیں۔ ضیاء دور کی جہادی پالیسی کو اِس پود نے جو بھگتا سو بھگتا اب اِسی پود کے معصوم بچے بھی اسی آگ کو بھگت رہے ہیں۔

آج جو فیصلے ہم اور ہمارے کرتا دھرتا لیں گے وہ ہمارے بچوں کے بچے بھگتے گیں۔ آج بھی اگر ہم دہشت گردوں اور ان کے حمایتیوں کی کھلی عام مذمت نہیں کر سکتے، انہیں یکسر رد و مسترد نہیں کر سکتے، درست ، سخت، سنجیدہ اور سیدھے فیصلے نہیں لے سکتے تو اس سے کہیں زیادہ تکلیف دہ اور سخت وقت ہمارے بچوں اور ان کے بچوں کا انتظار کر رہا ہے۔ خالد احمد صاحب کے یہ اشعار موجودہ حالات کا بالکل درست احاطہ کرتے ہیں:
شہر جاگے تو ہمیں خون میں تر دیکھیں گے
سنگ آنکھیں نہیں رکھتے کہ سر دیکھیں گے
ہر دریچے میں نظر آئیں گی خالی آنکھیں
اور ہم چاک بہ جاں، خاک بہ سر دیکھیں گے

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :