سانحہ پشاور ظلم کی آخری حد

ہفتہ 20 دسمبر 2014

Umer Khan Jozvi

عمر خان جوزوی

صدر،وزیراعظم،چاروں وزرائے اعلیٰ،عمران خان ،فضل الرحمن،زرداری،پرویزمشرف ،وفاقی وصوبائی وزراء کی مذمت اورحکمرانوں کی طرف سے شہداء کے غمزہ خاندانوں کیلئے شہداء پیکج کے اعلانات سے کیاہوتاہے ۔کیاوقت کے حکمرانوں اورقومی رہنماؤں کی مذمت اورقومی خزانے سے شہداء کے نام پرچند لاکھ روپے جاری کرنے سے وہ پھول جیسے بچے جنہیں دیکھ کرگلاب جیسے خوبصورت پھول بھی شرماجاتے تھے ۔

وہ بچے جوماؤں کی دل کے قرار اورآنکھوں کے تارے تھے جن کودل سے لگائے بغیرمائیں گھر سے رخصت ہی نہیں کرتی تھیں ۔وہ بچے جن کی مسکراہٹ اورشرارتوں سے ہرگھر جنت کامنظر پیش کرتاتھا۔وہ بچے جن کودیکھ کراپنے کیابیگانوں کے چہرے بھی خوشی سے کھل اٹھتے تھے۔ کیاوہ اب واپس آجائیں گے ۔۔۔؟یہ کہتے ہوئے باباجی کی آنکھوں سے آنسوؤں کے قطرے زمین پرٹپکنے لگے ۔

(جاری ہے)

باباجی اس طرح پھوٹ پھوٹ کررورہے تھے جس طرح کوئی چھوٹا بچہ دھاڑیں مارکررورہاہو ۔آنکھوں سے آنسو پونجھتے ہوئے باباجی گویاہوئے۔نوجوان تمہیں کیاپتہ اولاد اورپھرپھول جیسے بچوں کاغم کتنا بھاری ہوتا ہے ۔میراایک بچہ آج سے کئی سال قبل اپنی موت آپ مرا لیکن کئی سال گزرنے کے بعد بھی میں اس کاغم نہ بھول سکا۔اس کی موت نے میری کمرتوڑ کررکھ دی ہے ۔

اب جب بھی میں کسی بچے کے مرنے کی خبر سنتا ہوں تومیرادل پھر سے پھٹنے لگتا ہے ۔اللہ بچوں کاغم کسی مسلمان کیاکسی کافر کوبھی نہ دکھائے ۔نوجوان آپ اوروقت کے ان حکمرانوں جن کوسیاست سیاست کھیلنے سے ایک لمحے کیلئے بھی فرصت نہیں کیاپتہ کہ بچوں کی جدائی کاغم کتنابھاری ہوتاہے۔بچوں کاغم تو ایک صحت مند اورمضبوط اعضاء کے حامل انسان کوبھی دیمک کی طرح چاٹ کراندرسے کھوکھلاکردیتاہے ۔

آپ اوریہ حکمران کیاجانیں کہ سانحہ پشاور میں بندوق کی بے رحم گولیوں اوربارود کی خوراک بننے والے گلاب کے پھول سے بھی تروتازہ پھول جیسے بچوں کے بدقسمت والدین پرکیاگزررہی ہوگی۔۔؟مجھے نہیں یقین کہ اپنے معصوم بچوں کویاد کرکے وہ اب کبھی اس دنیا میں جی بھی سکیں گے ۔نوجوان خدا کیلئے تم ایک منٹ کیلئے سوچو۔ تم اپنے بچوں سے کتنا پیا کرتے ہو۔

ان کی ذرہ سی تکلیف اورپریشانی بھی آپ سے برداشت نہیں ہوسکتی ۔ان کی ہرخواہش پوری کرنے کیلئے تم جان کی بازی تک لگادیتے ہو۔ ان کے معصوم چہروں پرپریشانی کی کوئی آتاردیکھتے ہی آپ کوبخار چڑھنا شروع ہوجاتا ہے۔ ان کے سر پرکوئی ہلکاسادرد بھی شروع ہوجائے توآپ ہائی بلڈپریشر اورشوگر جیسے اپنے خطرناک امراض بھی بھول جاتے ہیں ۔آپ کی ہروقت یہ خواہش ہوتی ہے کہ آپ کوبے شک کچھ ہوجائے لیکن آپ کے بچوں پرکسی درد،تکلیف اورپریشانی کاسایہ تک بھی نہ پڑے۔

نوجوان!سانحہ پشاور میں پھول جیسے معصوم بچے شہید ہوگئے ہیں آپ خودسوچیں ۔وہ بھی توآخر کسی نہ کسی کے بچے ہونگے ،ان سے بھی توکوئی جان سے زیادہ پیار کرتاہوگا،ان کے بھی ماں اورباپ ہونگے اوران کے سینے میں بھی کوئی پتھر نہیں آپ جیسا گوشت کادل ہوگا۔ان ماؤں کا کیاحال ہوگاجنہوں نے اپنے ہاتھوں سے ان بچوں کوتیار کرکے سکول بھیجا ہوگا ۔ان ماؤں نے بھی تو بچوں کویونیفام پہنانے ،ناشتہ دینے اورہاتھ میں دس بیس روپے رکھنے کے بعد سکول بھیجتے ہوئے پیار سے ان کے کان پکڑ کرکہاہوگا کہ بچے سکول سے واپس سیدھا گھر آنا۔

ان کوکیامعلوم کہ وہ آج کے بعد کبھی گھر واپس نہیں آسکیں گے ۔میں باپ ہوکراپنے بچے کاغم نہ بھول سکایہ مائیں اپنے معصوم بچوں کی خون آلودنعشیں کیسے بھول پائیں گی جن کاجینامرناہی بچوں کیلئے ہوتاہے۔میں نے کہاباباجی آپ ٹھیک کہتے ہیں ماں کااپنے بچوں کے ساتھ عجیب رشتہ ہوتاہے ۔ماں کی لازوال پیارکی وجہ سے ہی انسان دنیا کی ہرشے بھول سکتا ہے مگرماں کاپیار کبھی نہیں بھول سکتا،میری ماں کی بھی یاد آج مجھے اس دنیا میں جینے نہیں دے رہی ۔

جب بھی مجھے میری ماں کی یادآتی ہے توایسا لگتا ہے جسے کوئی میرادل اندر سے چیررہاہے ۔پھر ماں توبچوں سے جومحبت اورپیار کرتی ہے اس کی توکوئی انتہا نہیں ۔ایسے میں سانحہ پشاور میں جوبچے جام شہادت نوش کرگئے ہیں ان کی ماؤں پرکیاگزررہی ہوگی ۔۔؟ وہ مائیں اپنے معصوم بچوں کی خون آلود نعشوں اورمسکراتے چہروں کوکیسے بھول پائیں گی ۔کیاان بچوں کی کتابیں ۔

۔بستے۔۔کپڑے ۔۔اٹھنابیٹھنا۔۔چیخناچلانا۔۔رونارلانااوردیگریادیں ان ماؤں کوکیاجینے دیں گی ۔نہیں کبھی نہیں ۔جگہ وہی جلتی ہے جہاں آگ لگی ہو،دردوہیں ہوتاہے جہاں زخم لگاہو۔ایک ماں ہی بچوں کے غم کااندازہ لگاسکتی ہے ۔وقت کے حکمران اوراس ملک کے سیاستدان ماؤں کاغم کیاجانیں۔سانحہ پشاور میں درندوں کانشانہ بننے والے معصوم بچوں کی ماؤں پرآج جوبیت رہی ہے اس کی حکمرانوں سے لیکرسیاستدانوں تک کسی کوکوئی پرواہ نہیں ۔

وہ پھول جوکھل کرکھلے بھی نہیں اس کے مسلنے پرافسوس ہی نہیں دل پھٹ رہاہے مگرافسوس کہ وقت کے ظالم حکمرانوں اورسیاستدانوں کواس کاذرہ بھی احساس نہیں ۔مذمتی بیانات سے نہ کسی کاغم کم ہوتاہے اورنہ ہی کسی کا بوجھ ہلکاہوتاہے ۔یہ توجان چھڑانے کاایک طریقہ ہے جومعلوم نہیں کہ کس ظالم نے اس ملک میں متعارف کرادیا ہے۔ ظالم حکمرانوں کی مفاداتی سیاست اورگناہوں کی سزااس ملک کے غریب عوام پچھلے کئی سالوں سے بھگت رہے ہیں مگرظالم حکمرانوں کوشرم تک نہیں آتی ۔

انہی حکمرانوں کی وجہ سے عوام اپنوں اوربیگانوں کے جنازے اٹھااٹھا کرتھک چکے ہیں ۔پیاروں کی خون آلودنعشوں پرآنسو بہاتے بہاتے اب آنکھیں بھی خشک سی ہوگئی ہیں ۔ماؤں ،بہنوں اوربیٹیوں کے ساتھ آج پوری قوم غم سے نڈھال،کسی میں مزید کسی جنازے کوکندھا دینے کی سکت اورہمت بھی نہیں۔ پوری قوم زخموں سے چورچورہے ۔نعشیں اٹھاتے اٹھاتے نہ صرف ہمارے ہاتھ بلکہ دل بھی خون سے رنگین ہوگئے ہیں لیکن اس کے باوجود حکمرانوں کوسیاست سیاست کھیلنے سے فرصت نہیں ۔

نوازشریف اورعمران خان کے ہاتھ ملانے یاپشاور میں آل پارٹیزکانفرنس کرنے سے کیا ہوگا۔۔؟یہ ہاتھ پہلے بھی ایک نہیں سوبار ملے ۔آل پارٹیز کانفرنسیں بھی سونہیں ہزارہوئیں لیکن اس سے آج تک کچھ حاصل نہیں ہوسکا۔بزرگ کہتے ہیں کہ دشمن دارلوگ اپنے گھروں کے دروازے کھلے نہیں چھوڑتے۔مطلب اگرکسی سے دشمنی ہوتوپھر گھر کے سارے دروازے بندرکھنے پڑتے ہیں کیونکہ معلوم نہیں ہوتا کہ دشمن کس دن اورکس وقت حملہ کرتاہے مگریہاں تومعاملہ ہی الٹ ہے ۔

یہ جانتے ہوئے بھی کہ ایک طرف بھارت ہمیں کچاچبانے کیلئے تیار ہے تودوسری طرف افغانستان،امریکہ،اسرائیل،اوربنگلہ دیش بھی پکانشانہ لگائے بیٹھے ہیں پھربھی ہم نے گھر کے سارے دروازے کھلے چھوڑے ہوئے ہیں ۔سانحہ پشاور ظلم کی آخری حد ہے ۔اس سے آگے اورظلم کیاہوگا۔۔؟حکمرانوں کوآخراس ظلم کااحساس کب ہوگا۔ کیا جب تک حکمرانوں کے اپنے بچے خون میں رنگے نہیں جاتے۔

۔؟ تب تک حکمرانوں کوہوش نہیں آئے گا۔پشاورمیں دشمنوں نے ظلم کی تمام حدیں پھلانگتے ہوئے ہماری آنکھیں کھول دی ہیں ۔اب بھی اگرہم نہ سمجھیں گے توپھرکبھی بھی نہیں سمجھیں گے ۔سانحہ پشاور کی جڑیں کہاں سے ملتی ہیں یہ تقریباً اندازہ ہوگیا ہے ۔ہماراازلی دشمن بھارت افغانستان کے راستے اس ملک کوتباہ کرنے کاخواب دیکھ رہاہے اوریہ خواب وہ ویسے نہیں دیکھ رہا اس کوافغانستان سے کوئی سپورٹ مل رہی ہوگی یاکوئی اشارہ ملاہوگا تب وہ ایساسوچ رہاہے ۔

ایسے میں اب ضروری ہوگیا ہے کہ وطن عزیز سے افغان مہاجرین کوملک بدر کرکے پاک افغان بارڈر کومکمل طورپرسیل کردیاجائے ۔افغان مہاجرین کی بہت مہمان نوازی ہوچکی ان کی وجہ سے اب ہم اورہمارے معصوم بچے خودموت کے مہمان بنتے جارہے ہیں۔اگرگھر میں آگ لگی ہوتوپھر مہمان کوالوداع کہنے میں کوئی حرج نہیں۔موجودہ حالات میں جب تک اس ملک سے افغان مہاجرین کاصفایا اورپاک افغان بارڈر کوسیل نہیں کیاجاتا اس وقت تک ملک میں پشاور جیسے واقعات رونماہوتے رہیں گے ۔حکمران فوری طورپرافغان مہاجرین کوملک بدرکرنے کیلئے اقدامات اٹھائیں ورنہ بھارت کے مذموم عزائم کوناکام بنانا پھر ہرگز آسان نہیں رہے گا ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :