رابرٹو کے مخمصے

ہفتہ 25 اپریل 2015

Shahid Sidhu

شاہد سدھو

محترم قارئین! آپکی دلچسپی کو مدِ نظر رکھتے ہوئے اطالوی نژاد غیر ملکی سیاح ، رابرٹو کے سفر نامے سے چند مزید اقتباسات بزبانِ رابرٹو پیشِ خدمت ہیں۔
اسلامی جمہوریہ کی سیر میرے لئے ایک معمے سے کم نہ تھی۔ ہر روز میرا سامنا ایسے حقائق سے ہور ہا تھا جِن سے میں پہلے قطعی لا علم تھا۔ مجھے یقین ہے کہ اٹلی اور مغربی دنیا کے دیگر لوگ بھی اِن حقائق سے واقف نہیں ہونگے۔

مجھے علم ہوا کہ جہاں اس ملک کے تعلیمی ادارے سالانہ پانچ، دس ہزار ڈاکٹر اور انجینئر تیار کرتے ہیں وہیں اس ملک کے تعلیمی ادارے سالانہ ڈیڑھ ، دو لاکھ سے زائد مولوی حضرات تیار کرتے ہیں۔ یہ شاید واحد شعبہ ہے جہاں حاضر سروس مولوی صاحبان کی ریٹائرمنٹ کے لئے عمر کی کوئی حد نہیں ہے ، عام طور پر ان کی خدمات تا حیات ہوتی ہیں۔

(جاری ہے)

لِہٰذا نئے مولوی حضرات کو کھپانے کے لئے سالانہ ڈیڑھ، دو لاکھ مسجدوں اور مدرسوں کی ضرورت پڑتی ہے، یہی وجہ ہے کہ اسلامی جمہوریہ میں ڈیڑھ اینٹ کی مسجدوں کی بہتات ہے۔

جب میں اِس ملک کی سیر کے لئے عازمِ سفر ہورہا تھا تو مجھے ٹریول ایجنٹ نے بتایا تھا کہ اسلامی جمہوریہ کی ستانوے فیصد آبادی مسلمان ہے مگر اس سر زمین پر قدم رکھنے کے بعد مجھے ٹریول ایجنٹ کی معلومات پر شک سا ہوگیا۔ شاید یہاں کوئی انہونی ہوئی تھی کیونکہ آجکل ان لوگوں کو دوبارہ مسلمان بنانے کی بھر پور کوششیں جاری ہیں۔ لاکھوں لوگوں پر مشتمل گروہ اِس ملک کے لوگوں کو دوبارہ مسلمان بنانے کی سعی جاری رکھے ہوئے ہیں۔

ملک بھر کے چھوٹے بڑے شہروں میں مسلسل بڑے بڑے اجتماعات ہورہے ہیں جہاں لاکھوں مسلمان رنگ برنگی پگڑیاں باندھے دن بھر اور رات بھر تقریریں کر کر کے اس ملک کے عوام کو دوبارہ مسلمان بنانے کی کاوشیں کر رہے ہیں، لاکھوں لوگ گھر گھر جاکر لوگوں کو دوبارہ مسلمان بنا رہے ہیں۔ مجھے محسوس ہوا کہ شاید یہ چین کے ثقافتی انقلاب کے بعد دنیا میں ہونے والی سب سے بڑی سر گرمی ہے، تاہم میرا اندازہ کچھ زیادہ صحیح نہ تھا۔

مجھے بتایا گیا کہ یہ سرگرمی اِس ملک کے قیام کے چند سالوں کے بعد ہی شروع ہوگئی تھی ، جب بہت سے بڑے بڑے گروہوں کو اِس ملک کے لوگوں کے ایمان پر شک ہو گیا تھا، بس اُس وقت سے عوام کو دوبارہ مسلمان بنانے کا سلسہ جاری و ساری ہے۔
منطق اور دلائل سے محبت اِس ملک کے عوام کی گھٹی میں پڑی ہوئی ہے۔ یہاں کا ہر شہری اِن دولتوں سے مالا مال ہے اور ایسی ایسی منطق پیش کرتا ہے کہ زمانہ قدیم کے اساتذہ بھی اپنے کان پکڑ لیں۔

یہاں اگر آپ زید سے پوچھیں کہ وہ بجلی کیوں چوری کر رہا ہے تو اسکا جواب ہوگا کہ بکر بھی تو چوری کر رہا ہے۔ یہاں اگر آپ نیلی کار والے سے پوچھیں کہ اس نے سگنل کیوں توڑا تو اسکی منطق ہوگی کہ لال کار والے نے بھی تو سگنل توڑا تھا۔ اتنی بھرپور منطق آپ کو پوری مغربی دنیا میں نہیں ملے گی۔
پاک سر زمین کی سیر سے پہلے میرا خیال تھا کہ جرمنی وہ واحد ملک ہے جہاں کے ہائی ویز جوکہ آٹو بان کہلاتے ہیں پر کوئی اسپیڈ لمٹ نہیں ہے اور گاڑیاں من چاہی اسپیڈ پر دوڑائی جاسکتی ہیں، لیکن میں غلط تھا۔

پاک سر زمین کے اکثر ہائی ویز پر تو اسپیڈ لمٹ ہے البتہ شہروں کے اندر موجود سڑکوں پر اسپیڈ لمٹ نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی، آپ من چاہی اسپیڈ پر گاڑیاں دوڑا سکتے ہیں۔
یہ ملک زندہ دلوں کا ملک ہے ۔ اِس ملک کے لوگ کھلے دل کے مالک ہیں۔ آپ جانتے ہی ہونگے کہ اِس ملک کے لیڈروں اور مشاہیر کے نام پر دنیا کے کِسی بھی ملک میں کوئی سڑک، محلہ یا ادارہ نہیں پایا جاتا سوائے ترکی یا ایک آدھ مغربی ملک کے جہاں اس ملک کے بانی لیڈروں کے نام پر سڑکیں ہیں۔

اِس کے برعکس آپ اسلامی جمہوریہ کی زندہ دِلی ملاحظہ فرمائیں کہ یہاں کے شہر، سڑکیں، گلیاں، بازار، چوک چوراہے اور عمارتیں دنیا بھر کے لیڈروں ، شہروں اور ملکوں کے ناموں سے اٹے پڑے ہیں۔ بڑے غیر ملکی لیڈر تو ایک طرف رہے یہاں تو بعض ممالک کے سفیروں کے نام پر بھی سڑکیں پائی جاتی ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ توقع کے مکمل بر عکس مجھے اطالوی ناموں والی عمارتیں بھی اِس ملک میں مل گئیں ، مثال کے طور پر وینس، بمبینو، ریالٹو وغیرہ۔


اپنی بہت سی خوبیوں کے ساتھ ساتھ اِس ملک کے ٹی وی چینلوں پر جلوہ افروز ہونے والے دانشور اینکر ایک بڑی غلط فہمی کا شِکار بھی نظر آتے ہیں، مجھے اِس بات کا اندازہ اپنے ترجمہ کار کی مدد سے بہت سے چینلوں سے لطف اندوز ہونے کے بعد ہوا ۔ ہر اینکر ہر دوسرے پروگرام میں یہ کہتا نظر آیا کہ ” ساری دنیا ہمیں دیکھ رہی ہے“، ”ہمار ا پروگرام ساری دنیا میں دیکھا جارہا ہے “ ۔

اینکر اپنے پروگرام میں مرغے لڑوانے کے بعد کہتے ہیں کہ ” خدا کے واسطے اپنا رویہ ٹھیک کریں، ساری دنیا میں پاکستان کے لیڈروں کے بارے میں کیا پیغام جارہا ہے“ ۔ بخدا مغربی دنیا، امریکی ممالک اور مشرقِ بعید کے بے شمار ممالک گھومنے کے بعد میں پورے یقین سے کہ سکتا ہوں کہ ان کو پاک سر زمین کے اردو چینلوں سے کوئی دلچسپی نہیں بلکہ ان ممالک کے لوگ کِسی بھی پاک صاف چینل کا نام تک نہیں جانتے۔

خود مجھے بھی پاک سر زمین آکر پتا چلا کہ یہاں اسّی سے زائد چینل کام کر رہے ہیں جو در اصل نام بدل کر ایک ہی پروگرام نشرکئے جارہے ہیں۔ایک بات کی داد دینی پڑے گی وہ ہے پاک نیوز چینلوں کی مساوات پالیسی۔ اس پالیسی کے تحت اگر بچے کھیل کے دوران زور دار پٹاخہ چلائیں یا شہر میں بم دھماکے میں کئی افراد ہلاک ہوجائیں، دونوں واقعات بریکنگ نیوز کے طور پر نشر ہونگے۔

اسی مساواتی پالیسی کے تحت ڈیڑھ کروڑ ووٹ لیکر وزیر اعظم بنے والے سیاستدان اور ایک حلقے سے ڈیڑھ ہزار ووٹ لینے والے ”لیڈر“ کی میڈیا سے گفتگو براہِ راست نشر ہوتی ہے۔ اسی مساواتی رنگ کی وجہ سے دنیا کی دوسری بڑی معیشت اور تیسری بڑی جنگی مشینری رکھنے والے ملک کے لیڈر اور ضمنی نہاری کھاتے ہوئے ”عظیم لیڈر“ میڈیا پر یکساں اہمیت حاصل کرتے ہیں۔پاک لوگوں سے ملاقات کا سلسہ ابھی جاری رہے گا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :