ریاست کی سلامتی کو یقینی بنانا

اتوار 1 فروری 2015

Munawar Ali Shahid

منور علی شاہد

کراچی کے حالات گزشتہ دو دہائیوں سے درست کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں لیکن ہر کوشش ناکام نظر آتی ہے اور اب تک ہزاروں کی تعداد میں پا کستانی اپنے ہی ملک میں قیام امن کے نام پرہلاک ہو چکے ہیں اور سرکاری اداروں کے اہلکار بھی طالبان کی دہشت گردی کی کاروائیوں کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں،موجودہ حکومت گزشتہ ایک سال سے کراچی میں جرائم پیشہ افراد کے خلاف کاروائی میں مصروف ہے لیکن ابھی تک نتیجہ صفر ہے۔

اس سے قبل پی پی پی کی حکومت پانچ برس تک کراچی کے حالات بہتر کرنے کے خواب دیکھتی رہی اور کوششیں نھی کیں لیکن سب کچھ بے سود رہا۔جہاں پہلے لاسانیت و صوبائیت کا عفریت قبضہ جمائے ہوئے تھا وہاں اب مذہب کا عنصر بھی شامل ہوتا نظر آ رہا ہے اور یہ سب پر بھاری پڑ رہا ہے۔

(جاری ہے)

جو ملکی سلامتی اور بقاء کے لئے بہت خطرناک ہے۔مذہب کے نام پر بڑھتی ہوئی یہ آگ سب کچھ جلا کر بھسم کردے گی۔

المیہ ہے کہ تمام تر ریاستی وسائل اور اداروں کے استعمال کے باوجود وہ نتائج کیوں سامنے نہیں آرہے جس کے لئے کئی دہائیوں سے قائد کے شہر میں قیام امن کی کوششیں ہو رہی ہیں۔بہت سے سوالات ہیں جو توجہ طلب ہیں۔ پہلے ہی کراچی کرچی کرچی ہو چکا ہے اور اب بکھرنے کی باتیں بھی ہونے لگیں ہیں۔حقیقت میں اس وقت پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ سیاسی اور مذہبی عدم رواداری ہے۔

جماعتوں اوت مذہبی گروہوں کے درمیان وسیع ہوتی ہوئی اختلافات کی خلیج سب ریاستی کوششوں کو ناکام بنا رہی ہے۔ ان حالات میں یہ بات ایک مرتبہ پھر شد و من کے ساتھ سامنے آرہی ہے کہ اب مزید کوئی وقت ضائع کئے بغیر ریاستی خدو خال درست کئے جائیں اور اس کا آغاز آئین سے کیا جائے۔ اور اس کو دور حاضر کے جدید جمہوری تقاضوں کے مطابق بنا یا جائے جس کی اساس مساوات،رواداری،عدل و انصاف ایسے عالمگیر قوانین پر مشتمل ہو۔

چند دن قبل پنجاب کے گورنر صاحب نے استعفیٰ دیا ہے اور اس کے ساتھ ہی جس طرح کے جذبات کا اور بے بسی کا اظہار کیا اس سے ہماری اندرونی زبوں حالی کا بخوبی پتہ چلتا ہے اس کے علاوہ گزشتہ نصف صدی میں پیداہونے والے حالات و واقعات کا فکری سوچ کے ساتھ جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔نظر سے تعصب اور مذہب کی عینک اتانے کی ضرورت ہو گی۔ہماری اپنی اندرونی غفلتوں اور غلطیوں نے ہمارے دشمنوں کی تعداد میں اضافہ کیا ہے۔

جس کا خمیازہ ہم اس طرح بھگت رہے ہیں کہ اب وہی عناصر ہمیں اندرونی طور پر کمزور کر رہے ہیں۔حال ہی سینٹ میں پیش کردہ سرکاری رپورٹ کے مطابق پاکستان کی مذہبی جماعتوں کو چند اہم اسلامی ممالک سے ملنے والی مالی امداد بھی اندرونی ملکی سلامتی کے لئے خطرہ بن رہی ہے اور یہ سلسلہ جاری ہے اور یہی وہ بنیادی کمزوری ہے جس کو دور کرنے کی ضرورت ہے کہ ملک کے اندر سلامتی و سیکورٹی کے قوانین کو از سر نو مرتب کیا جائے اور خواہ کوئی بھی ملک ہو اس کی دوستی سے زیادہ ملکی سلامتی اور سیکورٹی مقدم ہونی چاہئے جیسا کہ دنیا کے تمام ملک کرتے ہیں۔

سعودی عرب میں آئے دن پاکستانیوں کے سر قلم کئے جاتے ہیں کیا انہوں نے کبھی اسلامی بھائی ملک کا لحاظ کیا؟ کبھی بھی نہیں۔ لیکن ہمارے ان اسلامی ملکوں کی نمائیندہ مذہبی جماعتوں کو ملکی سلامتی و وقار سے زیادہ مالی امداد ہے، ان کی حب الوطنی ان ریالوں اور دیناروں تلے دفن ہوجاتی ہے۔آئی ایس آئی کے ایک سابق سربراہ جب قومی اسمبلی کے بند اجلاس میں سیکورٹی بریفنگ دے رہے تھے تو مولانا فضل الرحمن جماعت کے ایک ممبر نے درمیان میں لچ تل دیا تھا جس کے جواب میں اسی وقت جواب دیا گیا تھا کہ ہمیں سب پتہ ہے کہ لیبیا سے کون کون اور کتنے فنڈ لیتا ہے اس کے بعد اس مولانا کی بولتی بند ہو گئی تھی۔


ہماری اندرونی حالت کا اندازہ اس بات سے لگالیں کہ سانحہ پشاور کے صرف ایک ہفتے بعد ہی ایک نجی چینل جو کہ ملک سلامتی کے حوالے سے بدنام اور مشکوک ہو چکا ہے نے ایک ایسا پروگرام نشر کر دیا کہ جس کے باعث ملک کے اندر کی صورت حال بدل کر ایک اقلیتی فرقہ کے خلاف ہو گئی ۔ صورتحال مزید اس وقت خراب ہو گئی جب اسی فرقہ کے ایک فرد کو مذہبی بنیاد پر قتل کردیا گیا اور اسی چینل نے ایک اور پروگرام مزید نشر کر کے صورت حال کو مزید خطرناک بنانے کی کوشش کی اس وقت جب کہاور دنیا بھر میں صف ماتم بچھی ہو ئی تھی پوری قوم سانحہ پشاور کے صدمہ سے نڈھال تھی
اور طالبان کے خلاف قوم متحد ہو رہی تھی ان حالات میں اس نجی پرایئویٹ چینل کی طرف سے متنازعہ پروگرام ایک منصوبے کے تحت نشر کیا گیا اور اس کا ایک ہی مقصد تھا کہ سانحہ پشاور کے نتیجہ میں طالبان کے خلاف عوامی جذبات کو نہ صرف روکا جائے بلکہ ملک کے اندر نئی مذہبی تحریک شروع کی جاسکے جس سے سیاسی عدم استحکام پیدا ہوسکے۔

اور طالبان اور طالبان کے حمائتیوں کا تحفظ کیا جاسکے۔ اس قسم کی شر انگیزیوں کو روکنا آج کی اولین ضرورت اور ملکی سلامتی کا بنیادی تقاضا ہے،کسی بھی فرقے کے خلاف شرانگیز بیان، تقریر،تحریر پر پابندی لگنی چاہئے۔دنیا کے تمام ممالک میں ہر مذہب اور عقیدہ قانون کے دائرے میں ہے اور کوئی نھی قانون سے بالا نہیں۔لیکن ہمارے ہاں الٹی گنگا بہہ رہی ہے جس میں سبھی ہاتھ دھونے کے علاوہ نہا بھی رہے ہیں۔

لال مسجد کے خطیب مولوی عزیز کی سرعام چینل پر بچوں کی شہادت کی مزمت نہ کرنے کے شرمناک اعلان اور مسلسل باغیانہ باتوں اور دھمکیوں کے باوجود اس کے خلاف بھرپور کاروائی نہ ہوسکی ۔یوروپین ممالک کی ترقی اور خوش حالی کے اسباب میں بھی یہی عنصر نمایاں ہے کہ وہاں سب کو قانون کے دائرے میں پابند کیا ہوا ہے کوئی بے لگام نہیں اور نہ کوئی قانون سے بالا ہے
پاکستان کے سنجیدہ طبقوں، دانشوروں، محب وطن شہریوں اور اخباری کالم نویسوں کو اب یہ تسلیم کر لینا چاہئے کہ پاکستان کا سب سے اہم مسئلہ کیا ہے اور کونسی چیز ملکی سیاسی عدم استحکام اور ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہے۔

اس وقت پاکستان کے اندر ایسے چراغ جل رہے ہیں جو کہ انسانی خون سے روشن ہیں اور وہی ہر طرف آگ لگا رہے ہیں۔ کبھی کسی طرف اور کبھی کہیں ان چراغوں کو گل کئے بغیر گلشن کو نہیں بچایا جا سکتا۔
نظریاتی طور پر پاکستان کے اندر ایسے ایسے خود ساختہ نظریات پیدا کئے جا چکے ہیں جن کی وہ لوگ اندھا دھند پیروی کرتے ہیں جو خود اسلام کی الف ب سے ہی واقف نہیں۔

یہ حقیقت ہے کہ اس وقت پاکستان کے لوگوں کو مذہب کے نام پر پوری طرح مشتعل کرکے ان کو استعمال کیا جارہا ہے اور ان کو فرقہ واریت کی خونی بھول بھلیوں میں دھکیلا جا رہا ہے جس کا انجام کبھی بھی خوشکن نہیں ہو سکتا۔انتہا پسندی، دہشت گردی اور خود کش حملوں نے قبرستانوں کو ہی آباد کیا ہے اور آبادیوں کو ویران کیا ہے۔ گھروں کے گھر برباد ہو گئے، کسی کا سہاگ لٹ گیا اور کسی کا جگر کا ٹکرا، کوئی باپ کی شفقت سے محروم ہو کر یتیم ہو گیا اور کوئی بھائی کی محبت سے محروم ہو گیا کون سا ظلم ہے جو باقی رہ گیا۔

اس تمام تر بدترین صورت حال کے باوجود ابھی تک ریاستی اداروں نے کوئی ایسا نہ تو کوئی قدم اٹھایا اور نہ ہی کوئی ایسی پالیسی بنائی گئی جس سے اس امر کا پتہ چل سکے کہ آئیندہ ایسا کوئی سانحہ نہیں ہو گا۔ ہماری عدلیہ اور قانون کی جو حالت ہے وہ سب کے سامنے ہے۔ ریاست کا تصور جو پاکستان کے اندر نافذالعمل ہے وہ بہت ہی بھیانک اور غیر انسانی و اسلامی ہے۔

اس تصور ریاست کی بنیادیں درست کرنے کی ضرورت ہے۔ بیس لاکھ کے قریب قریب پاکستانی دیار غیر میں ان غیر اسلامی کافروں کی ریاستوں میں زندگی کی ان رعنائیوں، دلکشیوں سے نہ صرف لطف اندوز ہو رہے ہیں جن کا خود ان کے اپنے ملک میں تصور بھی نہیں۔ بلکہ مذہبی، سیاسی ،معاشی آزادیوں کے ساتھ ساتھ وہاں مساوی حقوق بھی حاصل کئے ہوئے ہیں جو پاکستان میں صرف مخصوص سیاسی خاندانوں کو ہی میسر ہیں۔

اس کی وجہ کیا ہے؟ اس کا سبھی کو پتہ ہے لیکن سب جان بوجھ کر نظر انداز کرتے ہیں۔وہ مذہب کے معاملہ میں ریاست کی عدم مداخلت کی پالیسی۔ اور یہ کہ وہاں قانون کے سامنے سب مساوی ہیں خواہ ان کا عقیدہ و مذہب کچھ بھی ہو۔مکمل مذہبی آزادی،ان معنوں میں کہ آپ کو دوسرے کے عقیدہ میں مداخلت کرنے کی نہ اجازت اور نہ ہی کوئی حق۔ لیکن ہمارے ہاں اس کے برعکس صورت حال موجود ہے۔

ایک دوسرے کے خلاف بازاروں میں فتووں والی کتب کھلے عام فروخت ہوتی ہیں۔ لٹریچر نہ صرف شائع ہو تا ہے بلکہ بس سٹاپوں اور پبلک مقامات پر تقسیم کیا جاتا ہے لیکن قانون و ادارے سبھی خاموش اور بے بس ۔ جلسوں میں اشتعال انگیز تقاریر تو معمول بن چکا ہے اس کے ردعمل میں قتل و غارت کے بعد پھر آنیاں جانیاں دکھاتے ہیں یہ سب کچھ قانونی طور پر جرم اور بھیانک جرم کے زمرے میں آتا ہے کسی بھی ریاست میں اس طرح کی سرگرمیوں کی کی کوئی گنجائش نہیں ہو تی اور نہ ہے لیکن پاکستان میں یہ سب روز کا معمول ہے اور اس کو اسلامی خدمت سے تعبیر کیا جاتا ہے، اس وقت چین ہی پاکستان کا سب سے اہم اور بڑا اور حقیقی دوست ہے جو خدا پر ہی یقین نہیں رکھتا اور اس نے حال ہی میں اپنے اس صوبے میں جہاں مسلمان اکثریت میں ہیں برقعے پر پابندی لگائی اور ٹینکوں کے نیچے زندہ مسلمانوں کومسل دیا تھا ۔

کیونکہ وہاں ان کی سیکورٹی کا مسئلہ پیدا ہوا تھا۔ ملکی سیکورٹی سے زیادہ کوئی چیز عزیز نہیں ہونی چاہئے۔ ریاست کو مکمل غیر جانبدار ہونا چاہئے اور وہی آج کی دنیا میں زندہ رہ سکتی ہے۔ پاکستان میں آج بھی اس قدر انسانی خون کے بہہ جانے اور بربادی کے باوجود ان لوگوں اور اداروں کے خلاف کوئی اس طرح کی کاروائی نہیں ہوئی جس طرح کی ہونی چاہئے تھی اور ابھی بھی نہیں ہو رہی ۔اب تو معاملہ بچوں کی زندگیوں کا ہے جو کسی بھی ملک کا اثاثہ ہوتے ہیں اگر ان کی حفاظت نہ ہو سکی تو پھر کچھ بھی باقی نہ رہے گا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :