راحیل شریف کا تاریخی فیصلہ

ہفتہ 6 فروری 2016

Mohammad Azam Khan

محمد اعظم خان

پاک فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف نے کہا ہے کہ وہ رواں برس نومبر میں اپنی تین سالہ مدت ملازمت کی تکمیل پر اپنے عہدے سے سبک دوش ہو جائیں گے اور اسمیں کوئی توسیع نہیں چاہیں گے۔ فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کی جانب سے جاری کردہ ایک بیان کے مطابق جنرل راحیل شریف کا اپنے موجودہ عہدے کی مدت میں اضافے سے متعلق حکومت سے کوئی درخواست کرنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔

بیان میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ان کی ریٹائرمنٹ کے بعد بھی دہشت گردوں کے خلاف پاکستانی فوج کی کارروائیاں پوری شدومد سے جاری رہیں گے اور ان میں کوئی کمی نہیں آئے گی۔جنرل راحیل شریف نے 2013ء میں فوج کی کمان سنبھالی تھی۔یہ بات اہم ہے کہ ان سے قبل پاکستان کے دو فوجی سربراہوں نے اپنی مدت ملازمت کی تکمیل پر سبک دوش ہونے کی بجائے اس میں توسیع لی تھی۔

(جاری ہے)

کافی عرصہ سے میڈیا پر یہ چہ مگوئیاں کی جا رہی تھیں کہ ممکنہ طور پر ماضی میں فوجی سربراہان کی طرح وہ بھی اپنی مدت ملازمت میں توسیع کروا سکتے ہیں،مگرافواج پاکستان کے سپہ سالار جنرل راحیل شریف نے مدت ملازمت میں توسیع نہ لینے کا اعلان کرکے توسیع کے حوالے سے پھیلنے والی بے بنیاد افواہوں کا خاتمہ کردیا ہے ۔ جنرل راحیل شریف نے ریٹائرمنٹ سے دس ماہ قبل مقررہ وقت پر ریٹائرمنٹ کا اعلان کرکے ان تمام قیاس آرائیوں کی تردید کردی ہے کہ جو اس حوالے سے کی جارہی تھیں۔

فوج کے ادارہ تعلقات عامہ نے بھی اس بات کی تصدیق کی ہے کہ افواج پاکستان کے سپہ سالار اپنی ملازمت میں توسیع کے خواہشمند نہیں ہیں۔ جنرل راحیل شریف کا یہ اعلان نہ صرف تاریخی ہے بلکہ آئین پاکستان کے عین مطابق بھی ہے کیونکہ افواج پاکستان آئین پاکستان سے وفاداری اور اس پرکلی عملدرآمد کا حلف اٹھاتی ہیں چنانچہ جنرل راحیل کا یہ اعلان پاکستان میں جمہوری اقدار کو مضبوط بنانے کے مترادف ہے اور اس عزم کا اظہار ہے کہ مسلح افواج ملک میں آئین اور جمہوریت کی بالا دستی پر مکمل طورپر یقین رکھتی ہیں اور وہ ملک کے سیاسی معاملات میں مداخلت کا کوئی عزم یا ارادہ نہیں رکھتیں۔

پاکستان آرمی کی روایات ہمیشہ سے تاریخی رہی ہیں۔ راحیل شریف کے استعفیٰ سے قبل جنرل اسلم بیگ، جنرل وحیدکاکڑ، جنرل کرامت جہانگیر نے اپنی مدت سے بڑھ کر کوئی توسیع نہیں لی کیونکہ یہ ادارہ پاکستان کا واحد مضبوط ادارہ ہے جس کی بنیادیں مستحکم اور روایات شاندار ہیں اس کا ایک ایک سپاہی فولاد کے مانند ہے اور اپنے فرائض سے بخوبی آگاہ ہے اسے علم ہے کہ اس نے کس طرح ملک کی جغرافیائی اور نظریاتی سرحدوں کی پاسبانی کرنی ہے یہی وجہ ہے کہ سیلاب ہو ، زلزلہ ہو یہ کوئی ناگہانی آفت ہو عوام کی نظریں فوج کی جانب ہی اٹھتی ہیں حتیٰ کہ سیاست دان بھی اس بات متفق ہیں کہ فوج میں ہیرا پھیری کی کوئی گنجائش نہیں یہی وجہ ہے کہ جب عام انتخابات کا مرحلہ درپیش ہوتا ہے تو اس وقت بشمول حکومت تمام سیاستدانوں کا مطالبہ یہی ہوتا ہے کہ یہ انتخابات فوج کی نگرانی میں کرائے جائیں۔

جنرل راحیل شریف پاکستان کی عسکری تاریخ میں پہلے جرنیل ہیں جنہیں عوامی سطح پر بے پناہ مقبولیت ملی ہے۔انہوں نے ایک ایسے وقت میں افواج پاکستان کی کمان سنبھالی جب ملک دہشت گردی کی شدید ترین لپیٹ میں تھا اور افواج پاکستان حالت جنگ میں تھی۔انہوں نے پوری قوت کیساتھ دہشت گردی کو جڑسے اکھاڑ پھینکنے کیلئے مخلصانہ اقدامات کیے جنکے نتیجے میں دہشت گرد جو پاکستان کے اندر دہشت گردی اور خوف و ہراس پھیلانے میں مصروف تھے وہ سرپر پاؤں رکھ کر بھاگے ۔

جنرل راحیل شریف کے ان اقدامات کی بدولت شہروں کی رونقیں واپس لوٹ آئیں اور کراچی جسے عروس البلاد کہا جاتا تھا ،ایک بار پھر امن و سکون کا گہوارہ بن گیا ہے،گو کہ اس منزل تک پہنچنے کیلئے افواج پاکستان کو بے پناہ قربانیاں بھی دینا پڑی مگر جب ایک سپہ سالار کسی کام کو کرنے کا عزم کرلیتا ہے تو پھر یہ قربانیاں بھی معمولی نظر آتی ہیں۔ جنرل راحیل شریف کے اس اقدام کو ملک کے سیاسی حلقوں میں تحسین کی نگاہ سے دیکھا گیا ہے اور خاص طورپر ان کے پیش رو جرنیلوں نے اس فیصلے کو تاریخی قرار دیا ہے، مگر عوامی حلقوں اور سابق جنرل پرویز مشرف نے اس فیصلے کو مناسب قرار نہیں دیا۔

دراصل جس بہادری اور جرأت کے ساتھ جنرل راحیل شریف نے ملک بھر سے دہشت گردی اور لاقانونیت کا خاتمہ کیا ہے قوم انہیں ایک نجات دہندہ کے روپ میں دیکھ رہی تھی اور عوامی حلقے یہ توقع کررہے تھے کہ آخری دہشت گرد کے خاتمے تک جنرل راحیل شریف اپنی وردی پہنے رکھیں گے مگر جنرل راحیل شریف جو دو نشان حیدر پانے والے شہداء کے وارث ہیں انہیں اپنے ادارے پر اس قدر یقین واثق ہے کہ ان کے بعد آنے والا سپہ سالار ان کے پروگرام کو اسی جذبے کے ساتھ جاری رکھے گا جس جذبے کے ساتھ انہوں نے کمان سنبھالی تھی، چونکہ راحیل شریف ایک پروفیشنل فوجی پس منظر رکھنے والے گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں اسلئے وہ اپنی ذمہ داریوں کا تعین بھی اچھی طرح سمجھتے ہیں۔

اپنی مدت ملازمت میں توسیع نہ لینے کا اعلان کرکے انہوں نے نہ صرف فوج کے اندر بلکہ بیرونی طورپر بھی اپنے قد کاٹھ میں اضافہ کیا ہے۔ قوم ان کی خدمات کو سراہتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ جہاں قوم دہشت گردوں کیخلاف کی جانے والی کارروائیوں ، افواج پاکستان کو مضبوط بنانے جیسے اقدامات کو یاد رکھے گی وہاں یہ بھی یاد رکھا جائے گا کہ انہوں نے جمہوری استحکام اور آئینی بالا دستی کیلئے دس ماہ قبل ریٹائرمنٹ لینے کا اعلان کرکے آئین اور جمہوریت کی بالا دستی پر مہر ثبت کردی تھی ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :