پردہ اٹھنے کی منتظر ہے نگاہ

منگل 1 ستمبر 2015

Qasim Ali

قاسم علی

اسلام کی ایک خوبصورتی یہ بھی ہے کہ یہ اپنے پیروکاروں کو ایک ہی نظر سے دیکھتا اور یکساں انصاف فراہم کرتا ہے حتیٰ کہ ایک بار جب چوری کے الزام میں ایک فاطمہ نامی عورت کو پکڑا گیا تو ایک صحابی رسول ﷺ نے اس کی رہائی کی سفارش کی تو آپ ﷺ کا چہرہ مبارک سرخ ہوگیا آپ ﷺ نے فرمایا جس کا مفہوم ہے ''اگر یہ جرم میری بیٹی فاطمہ بھی کرتی تو خدا کی قسم اس کے بھی ہاتھ کاٹ دئیے جاتے'' آپ ﷺ نے یہ بھی فرمایا کہ پہلے والی قومیں اس لئے تباہ و برباد ہوئیں کہ اس کے اعلیٰ طبقے کے لوگوں اور غریبوں کو ایک جیسا انصاف فراہم نہیں کیا جاتا تھا یہی وجہ تھی آج بھی کیا اپنے کیا پرائے اسلام کے اس دور کو عہد انسانی کا پرامن ترین دور گردانتے ہیں کیوں کہ اسلام کی تعلیم ہی یہی ہے کہ معاشرہ کفر کیساتھ تو چل سکتا ہے مگر ظلم و ناانصافی کیساتھ نہیں ہرگز نہیں۔

(جاری ہے)

وطن عزیز کی سب سے بڑی بدقسمتی یہی رہی ہے کہ اسلام کے نام پر قائم ہونیوالی اس عظیم مملکت خداداد کو نام تو اسلامی جمہوریہ پاکستان دے دیاگیا مگر صحیح معنوں میں نہ تو یہاں پر عملی طور اسلام کو نافذ کیا گیا اور نہ ہی جمہوریت یہاں پروان چڑھ سکی جس کی وجہ سے طاقت اس ملک کا قانون اور سٹیٹس کو کا زہر ہماری رگوں میں سرائیت کرتا گیا جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا ازلی قانون خود بخود ہی یہاں رائج ہوگیا اور یہ گزشتہ دور حکومت میں تو یہ تک کہاجانے لگا کہ پاکستان میں جو جتنا بڑا لیڈر بننا چاہتا ہے اس کو اتنا بڑا مجرم اور سزایافتہ ہونا ضروری ہے گویا ''جو ایک روپیہ چوری کرے وہ تو چور ہے مگر جو ایک لاکھ روپیہ چوری کرے وہ فنکار ہے'' مگر گزشتہ دنوں جب نیب نے سابق مشیر پٹرولیم اور چیئرمین ہائیر ایجوکیشن کے چیئرمین ڈاکٹر عاصم کو پٹرولیم پر دہشتگردوں کی مالی معاونت،منی لانڈرنگ اورسی این جی سٹیشنوں کو غیرقانونی لائسینس دینے جیسے الزامات میں گرفتار کیا گیا اور وفاقی اینٹی کرپشن کورٹ نے سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی اور پیپلز پارٹی کے مرکزی رہنما مخدوم امین فہیم کو دس ستمبر تک گرفتار کرنے کے احکامات دئیے عوامی سطح پر تو ان اقدامات کو بہت پزیرائی ملی کہ اب کی بار ایسے کرداروں پر ہاتھ ڈالا گیا تھا کہ حقیقی معنوں میں جن کے کئے کی سزا پوری پاکستانی قوم بھگت رہی ہے جنہوں نے کرپشن کے ذریعے اربوں روپے کا قومی خزانے کو نقصان پہنچایا وہ اب قانون کے شکنجے میں آرہے تھے مگر دوسری جانب وہی جماعتیں جو اب تک دن رات ایسے بیانا ت دیتی نہیں تھکتی تھیں کہ جیسے ان کا جینا مرنا ہی عوام ہیں اور عوام کا ایک روپیہ بھی ان پر حرام ہے انہی کی جانب سے ایک ہنگامہ برپا ہوگیا پہلے خورشید شاہ صاحب نے بیان داغا کہ'' زرداری صاحب کو گرفتار کیا گیا تو جنگ ہوگی ''اس کے بعد وزیراعلیٰ سندھ نے ان اقدامات کو آئین کی خلاف ورزی اور سندھ پر حملہ قراردے دیا ۔

یہاں ہم قارئین کے سامنے خورشید شاہ کے بیان کے بارے میں کچھ مزید حقائق رکھنا چاہتے ہیں کہ ان کو ایسا بیان کیوں دینا پڑا اصل بات یہ ہے کہ یہ سب کچھ اچانک نہیں ہوگیا خفیہ ادارے اور نیب اس سلسلے میں پہلے سے ہی بہت سرگرم ہیں جس میں تیزی اس وقت آئی جب 18جون کو زرداری صاحب کے انتہائی قریبی ساتھی اویس ٹپی کے دست راست محمدعلی شیخ کو گرفتار کیا گیا تھا اس کے بعد ڈی سی او سجاول ممتاززرداری اور سلطان قمر صدیقی کو پکڑا گیا یہ تمام لوگ زرداری صاحب کے بہت قریبی دوستوں میں شمار ہوتے ہیں اور اس کے بعد جب ڈاکٹر عاصم کی گرفتاری عمل میں آئی اور پھر گیلانی صاحب اور امین فہیم کو بھی دس ستمبرکوگرفتار کرکے عدالت میں پیش کرنے کے احکامات دئیے گئے تو اپوزیشن لیڈرکی جانب سے یہ بیان آنا ایک فطری عمل تھا ۔

ممکن ہے آئندہ کچھ روز میں اس سلسلے میں مزید شوروغوغا کیاجائے اور کرپشن کے خلاف ان اقدامات کو سیاسی انتقام کا نام دیاجائے مگر ایک بات جو اتنی بڑی گرفتاریوں کے بعداب روزروشن کی طرح واضح نظر آرہی ہے وہ یہ ہے کہ اب کوئی بھی مجرم چاہے وہ کتنا ہی بڑا اور طاقتور ہو وہ کسی طور بھی بچ نہیں پائے گا اور ان گرفتاریوں پر عوام خوش بھی ہے کیوں کہ ان میں یہ احساس پیدا ہوا ہے کہ قانون سب کیلئے برابر ہے جو بھی غلط کرے گا اور قومی خزانے کو لوٹے گا اس کو اب ''فنکار''کی بجائے ''چور''ہی سمجھا جائے گا اور اس کو اپنے کئے کی سزا بھی بھگتنا ہوگی اور آنیوالے دنوں میں ایسی گرفتاریوں میں مزید تیزی آنے کا امکان ہے کیوں کہ ذرائع کے مطابق ڈاکٹر عاصم نے کم از کم دودرجن کے قریب اہم ترین افراد کے نام بتادئیے ہیں جو کرپشن میں کسی نہ کسی طرح ملوث رہے ہیں اور اس کی تصدیق ڈاکٹر عاصم کی گرفتاری کے محض دودن بعد اس وقت ہی ہوگئی جب خورشید شاہ سمیت تین اہم ترین سیاسی شخصیات کے فرنٹ مین کے طور پر کام کرنیوالے ہزاروں ایکڑ اراضی پر قابض اور ارب پتی انتہائی بااثر شخص حضور بخش کلوڑ کو گرفتار کرلیاگیا۔

اطلاعات کے مطابق کرپشن کے خلاف حرکت میں آنیوالا یہ ڈنڈہ عنقریب ایم کیو ایم پر بھی برسنے والا ہے اور اس کا پہلا بڑا شکار سابق وزیر شپنگ بابر غوری ہوسکتے ہیں اس کے بعد مزید بڑی مچھلیوں پر بھی ہاتھ ڈالے جائیں گے حتیٰ کہ جو لوگ لوٹ مار کرکے بیرون ملک فرار ہوچکے ہیں ان کو بھی واپس لانے کی تیاری کی جارہی ہے جس کے بعد عوام کو مزید اچھی خبریں سننے کو ملیں گی کیوں کہ اب کرپشن کے خلاف چلنے والا یہ ڈنڈہ کہیں نہیں رکے گا اور عوام کاخون چوسنے والی جونکیں اب بے نقاب ہوکررہیں گی اور عوام بھی بڑی بے چینی سے ایسے کرداروں کو پہچاننے اور ان سے لوٹا ہوا مال واپس لینے کی کوششوں کو تحسین کی نظروں سے دیکھ رہے ہیں انشااللہ اب ادارے صحیح معنوں میں آزادی سے کام کرکے عوام کو اس کا حق دلاکر رہیں گے عوام جاننا چاہتے ہیں کہ کرپشن کی بہتی گنگا میں ہاتھ منہ دھونے والوں میں کن کن پردہ نشینوں کے نام شامل ہیں بس پردہ اٹھنے کی منتظر ہے نگاہ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :