پاکستانی فوج ہی کیوں؟

منگل 14 اپریل 2015

Azhar Thiraj

اظہر تھراج

سعودی عرب اور یمن کے باغیوں کے مابین جنگ آج کل دنیا بھر میں موضوع بحث بنی ہوئی ہے،پاکستان میں تو خاص مکتبہ فکر اس لڑائی کو پاکستان کی اپنی جنگ کا نام دے رہا ہے،ان کے بیانات سے ایسے لگتا ہے کہ پاکستانی ہی مکہ و مدینہ بلکہ پوری دنیا کے مسلمانوں کے محافظ ہیں بلکہ یہ کہا جائے کہ مسلمہ امہ کی حفاظت کا ٹھیکہ پاکستانیوں کے پاس ہے تو غلط نہ ہوگا۔

یہ ایسے ہی پاکستان کی جنگ بنائی جا رہی ہے جیسے افغانستان میں روس اور امریکہ کی بالا دستی کی لڑائی یا پھر امریکہ کی القائدہ اور طالبان کیخلاف چڑھائی۔جسے پاکستانی آج تک اپنی جنگ سمجھتے آرہے ہیں،اس اپنی جنگ میں ہم نے بہت نقصان برداشت کیا ہے،اپنے بچے ذبح کروائے،جوانوں کی جانوں کے نذرانے پیش کیے،ماؤں کی گودیں اجڑیں تو سہاگنوں کے سہاگ چھینے گئے،بوڑھے باپ جوان بیٹوں کی میتوں کو کندھے دیتے ہوئے دیکھے ۔

(جاری ہے)


یہاں بھلا ہو پارلیمنٹ کا جس نے سعودی عرب اور حوثیوں کی جنگ میں فریق نہ بن کر”اپنی جنگ“ بننے سے بچا لیا۔یہ الگ بات ہے کہ ہماری پارلیمنٹ کی قراردادوں کی کیا وقعت ہے؟
چلیں جیسا بھی ہے ایک جرائتمندانہ فیصلہ ہے جس کا کریڈٹ تمام پارلیمانی پارٹیوں کو جاتا ہے،سعودی عرب اور یمن کے باغیوں کے مابین جنگ میں پاکستان کا فریق بننا اتنا ہی نقصان دہ ہے جتنا کہ افغانستان میں طالبان کیخلاف جنگ میں امریکہ کا اتحادی بننا تھا،ثالثی کا کردار ادا کرکے پاکستان یمن اور سعودی عرب دونوں کو امریکہ کے فراہم کردہ اسلحہ و بارود کے ایندھن بننے سے بچا سکتا ہے۔


پاکستان کی اس”ناں“پر عرب ملکوں سے دھمکیاں ملنا شروع ہوگئی ہیں،عرب امارات کے وزیر خارجہ نے تو یہاں تک کہ دیا ہے کہ پاکستان کو اس کی سزا بھگتنا پڑے گی۔ابھی تو آغاز ہے آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا؟ ہاں دیکھنا یہاں یہ ہوگا کہ پاکستان کو اس ”ناں“ کے بدلے کیا کیا تکلیفیں برداشت کرنی پڑسکتی ہیں؟سعودی عرب نے پاکستان کو ایف سولہ کی خریداری کیلئے پانچ سو ملین ڈالر دیے ہیں،ہر کڑے وقت میں پاکستانی معیشت کو سہارا دیا،اس احسان فراموشی پر زیادہ دیر چپ نہیں رہے گا۔


ایک وقت تھا جب عرب خطے میں قیادت تھی،اپنے فیصلے خود کرتے تھے،شام سے حافظ الاسد، عراق سے صدام حسین، سعودی عرب سے شاہ فیصل اور بعد ازاں شاہ عبدالعزیز کتنے ہی کمال کے لوگ تھے ایک ایک کرکے مار دیے گئے یا پھر وہ زندگی کے دن پورے کرکے کوچ کرگئے،محمد مرسی بھی جیل میں ہے،پوری دنیا میں آج طیب اردووان کے علاوہ کوئی لیڈر نہیں نظر نہیں آتا جس میں قیادت کی اہلیت ہو مسلمانوں کا درد ہو۔

طیب اردوان کو بھی اپنے ملک کا مفاد عزیز ہے، آبنائے ہرمز سے صحرائے عرب تک قیادت کا قحط نظر آتا ہے،ہر ایک نے اپنی ہی دکان کھول رکھی ہے،اپنے اپنے مفادات عزیز ہیں،ایرانی سنیوں کیخلاف ساری طاقت صرف کررہے ہیں تو سنی شیعوں کو کافر کہ کر مار رہے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ عرب دنیا پاکستان کی حوثیوں کیخلاف جنگ میں شمولیت کیلئے بیقرار کیوں ہے؟
میرے خیال میں اس کی بڑی وجہ عربیوں کی کاہلی اور سستی ہے،بنیادی طور پر عرب باشندے سہل پسند ہیں،وہ کوئی بھی مشکل کام کرنا پسند نہیں کرتے،یہ دولتمند ہیں اور دولت کے بل بوتے پر ہی کام کروانا چاہتے ہیں،شہانہ ذہنیت رکھنے والے عرب باشندے پوری دنیا کے مسلمانوں کو غلام سمجھتے ہیں،اس وقت15 لاکھ سے زائد پاکستانی،نو لاکھ مصری، سوڈانی فلپائنی، 5 لاکھ انڈونیشی اور ساڑھے تین لاکھ سری لنکن باشندے موجود ہیں، بھارتی،بنگلہ دیشی اور دیگر ممالک کے لوگ اس کے علاوہ ہیں،سعودی ان سب کو اپنا غلام تصور کرتے ہیں،وہ ہرمشکل سے مشکل کام ان سے ہی کرواتے ہیں،سعودی افواج تو ان سب سے دو ہاتھ آگے ہیں۔


جدید ابراہام ٹینکوں، اپاچی اٹیک ہیلی کاپٹروں اور ایف 15 جنگی جہازوں سے لیس ہونے کے باوجود کمزور کیوں؟ جواب آسان ہے سعودی فوجی تو اپنے آپ کو جنگ کے لائق ہی نہیں سمجھتے ۔وہ کہتے ہیں جب دوسرے لڑنے کیلئے موجود ہیں تو ہمیں کیا لڑنے کی ضرورت،ان میں نہ نظم وضبط ہے اور نہ ہی جنگی جذبہ۔جنگیں ایسے تھوڑی ہی لڑی جاتی ہیں،جنگ کیلئے پاکستانی فوج جیسا جذبہ تجربہ چاہیے ہوتا ہے، پاکستان کے وجود میں آنے سے آج تک پاک فوج جنگیں ہی تو لڑتی آئی ہے،کبھی مکار پڑوسی کے خلاف تو کبھی اپنی دھرتی میں چھپے غداروں سے برسر پیکار۔

پینسٹھ میں، بے سروسامانی کے عالم میں ایسی جنگ جیتی کہ دشمن آج تک زخم چاٹ چاٹ کر رو رہا ہے۔افغانستان میں اٹھائیس ممالک کی فوجیں دہشتگردوں کا صفایا نہیں کرسکیں جو پاکستانی اکیلی فوج نے اپنے ملک میں کردکھایا،یقینا قابل فخر ہیں وہ مائیں جنہوں نے ایسے سپوتوں کوجنم دیا۔
پاکستان نہ صرف ایٹمی طاقت ہے بلکہ اس کے پاس جدید ترین میزائل، ڈرون ٹیکنالوجی اور دنیا کی بہترین اور مسلم دنیا کی سب سے طاقتور فوج بھی ہے۔دنیا کی کسی طاقت کو شکست دینے کی صلاحیت رکھتی ہے،اسرائیل کے خلاف عربوں نے جنگ جیتی تو اس کے پیچھے بھی پاکستانی فوج تھی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :