پاکستان میں غیر سرکاری تنظیموں اور دینی مدارس کا کردار۔۔۔

جمعرات 30 جولائی 2015

Hafiz Muhammad Faisal Khalid

حافظ محمد فیصل خالد

غیر سرکاری تنظیموں سے مراد وہ تنظیمیں ہیں جو ترقی یافتہ ممالک کی جانب سے ملنے والی مالی امداد سے ترقی پذیر ممالک میں اصلاحِ معاشرہ کی غرض سے کام کر رہی ہیں۔ پاکستان میں اس وقت معاشرتی اصلاح کی غرض سے کئی بیرونی ممالک سے تعلق رکھنے والے ادارے زندگی کے مختلف شعبوں میں کام کر رہی ہیں۔مثلاََ جن میں بعض ادارے صحت پر کام کر رہے ہیں۔

بعض حقوقِ نسواں کے نام پر سر گرمِ عمل ہیں۔ بعض پینے کے صاف پانی کی فراہمی کو یقینی بنانے کی اہمیت کو اجاگر کرنے کیلئے اپنی توانائیاں صرف کر رہے ہیں ۔اور بعض ادارے انسانی حقوق سے متعلق آگاہی اورمعاشرے میں ان پر عمل در آمد کو یقینی بنانے کیلئے کوشاں ہیں۔
دوسری جانب دینی مدارس بھی ان تنظیموں کی طرح رضاکارانہ طور پر کام کر رہے ہیں۔

(جاری ہے)

مثلاََ پاکستان میں موجود تمام تر مدارس اپنے طلبہ کو نہ صرف مفت تعلیمی سہولیات فراہم کر رہے ہیں بلکہ ان طلبہ کے قیام و طعام کا انتظام بھی بالکل مفت کر رہے ہیں۔اسکے علاوہ طلبہ کی مالی معاونت کے لئے انکو ماہانہ وضائف بھی دئے جاتے ہیں ۔ علاوہ ازیں بعض مذہبی ادارے معاشرتی اصلاح کی غرض سے بھی سرگرمِ عمل ہیں اور زندگی کے مختلف شعبوں میں بلا امدادِ غیر اپنا کردار ادارے کر رہے ہیں۔

بعض ادارے صحت کی سہولیات کی مفت فراہمی اور بعض دل کے امراض میں مبتلاء بچوں کے مفت علاج کا بیڑااٹھائے ہوئے ہیں۔اس کے علاوہ کئی ایسے ایشوز ہیں جن پر مختلف انداز میں کام کیا جا رہا ہے۔
مگر بد قسمتی سے اگر ان دونوں طبقوں کی ان رضاکارانہ خدمات کے پیشِ نظر انکا موازنہ کیا جائے تو ایک طبقے کا کردار مثبت انداز میں پیش کیا جاتا ہے جبکہ دوسرے طبقے کو ہر سطح پر تنقید کا نشانہ بنایا جا تارہا ہے اور جا رہا ہے۔

ایک طبقہ جسے ہم مذہبی طبقے کے نام سے جانتے ہیں اگر کسی قسم کی اشتعال انگیزی یا شدت پسندی میں ملوث پایا جائے تو اسکو براہ راست بلا تصدیق جرم دہشتگرد اور شدت پسند کے القابات سے نوازدیا جاتا ہے۔ اور اب تو اس کے خلاف قانون سازی بھی کر دی گئی ہے۔ جبکہ دوسری جانب دوسرا طبقہ جسے ہم سوشل سیکٹر کے نام سے جان تے ہیں اگر وہ اس قسم کی شر انگیزی ، شدت پسندانہ کاروائیوں میں ملوث پایا جائے تو ایسے منفی سوچ کے حامل افرد کی ان اشتعال انگیز سوچ کو آزادِ اظہارِ رائے سے تعبیر کر دیا جاتا ہے۔


اگر چند دینی مداس پر دہشتگردوں کو پناہ دینے کا الزام ہے ہم یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ پاکستان میں کام کرنے والی بعض ین۔جی۔اوز۔ کے خلاف بھی پاکستان مخلاف کاروائیوں میں ملوچ ہونے کے ناقابلِ تردید شواہد بھی موجود ہیں۔مگر ان سب حقائق کے باوجود ایک طبقے کو شدت پسند قرار دینا اور دوسرے طبقے کا خود کو انسانی حقوق کا علمبعدار اور خود کو تمام تر عیوب سے پاک گر داننا کم از کم راقم الحروف کی عقل سے بالا تر ہے۔

اور یہی وہ دوہرا معیار ہے جو دن بند ن معاشرتی بگاڑ کا باعث بن رہا ہے جس میں صرف مذہبی طبقہ ہی نہیں بلکہ اس گناہِ بے لذت میں یہ نام نہاد انسانی حقوق کے محافظ بھی برابر کے شریک ہیں۔ اور اگر انکی یہی روش رہی تو یہ معاشرہ مزید گرہوں میں بٹ جائے گا جس سے کم از کم انکی فنڈنگ تو نہیں متاثر ہوگی البتہ اس فعلِ ابلیس کے مضر اثرات پاکستان اور اس میں بسنے ولے عوام کو بھگتے پڑیں گے۔


لہذا حکومتِ وقت ہی مہربانی کر کے احمقوں کی جنت میں بسنے والے ان ملک دشمن عناصر پر قابو پانے کیلئے باقاعدہ قانون سازی کرے اور مدارس کے خلاف ہونے والی کاروائیوں کے ساتھ ساتھ اسوشل سیکٹر میں موجود انتہاء پسندوں کے خلاف نہ صرف عملی اقدامات اٹھائے بلکہ اس شعبے میں موجود شدت پسندوں کے خلاف بھی وہی قانون حرکت میں لایا جائے جو خالصتاََ شدت پسندوں کے خاتمے کئلئے متعارف کرایا گیا ہے۔ کیونکہ یہ گروہ بھی شدت پسندی کے فروغ میں ایک قلیدی کردار ادا کر رہے ہیں ۔ اور اگر متعلقہ ادارو نے بر وقت ایسے اقدامات نہ کئے تو مذہبی شدت پسندوں کے بعد اب سوشل اِکسٹریمسٹ کا ٹولے سے نمٹنے کیلئے بھی تیار رہنا ہو گا ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :