پاک بھارت تعلقات…اسلام آباد دھرنوں سے خراب

منگل 2 ستمبر 2014

Zubair Ahmad Zaheer

زبیر احمد ظہیر

پاک بھارت تعلقات میں حالیہ کشیدگی نے ایک بار پھر دونوں ممالک کو ایک دوسرے دور کردیا ۔ نواز شریف نیبی جے پی کی حکومت کے ساتھ 1999والے تعلقات دووبارہ بحال کرنے کی حکمت عملی اختیار کی اور بھارت کی نئی مودی حکومت کے پہلے دن سے ہی تعلقات میں گرم جوشی کی پالیسی اپنائی اور مودی کی حلف برادری میں باوجود شدید مخالف کے شرکت کی ۔مگر مودی حکومت نے حریت قائدین کے پاکستانی ہائی کمشنر سے ملاقات کا بہانہ بنا کر سارے تعلقات توڑلیے اور پاکستان سے 25اگست کو ہونے والے خارجہ سیکریڑی سطح کے مذاکرات ختم کردیے ۔

پاکستان کے ہائی کمشنر عبدالباسط نے 25اگست کو پاک بھارت سیکریٹری خارجہ مذاکرات سے قبل حریت قیادت کو اعتماد میں لینے اور ان سے براہ راست رابطوں کے لیے سفارتی کوششیں شروع کردیں ۔

(جاری ہے)

چنانچہ عبدالباسط نے حریت قیادت کو پاکستان کے نئی دہلی میں سفارت خانے آنے کی 12اگست کودعوت دی ۔18،19اگست کو حریت قیادت نے شیڈول کے مطابق نئی دہلی پاکستانی ہائی کمشنر سے ملاقات کرنی تھی ۔

جوں ہی پاکستان کے ہائی کمشنر کے براہ راست حریت قیادت کے رابطوں کی اطلاع بھارت کی مودی حکومت کو ہوئی ۔یہ بہانہ تراش کر مودی حکومت نے مذاکرات ختم کر لیے ۔بھارت کی مودی حکومت نے پاکستان سے مذاکرات پہلے ہی ختم کرنے کی ٹھان لی تھی ۔مگر بھارت کسی اچھے موقعے کی تلاش میں تھا ۔1994سے پاکستانی ہائی کمشنر اور حریت قیادت کے مابین رابطے پاک بھارت مذاکرات کا معمول کا حصہ چلے آرہے ہیں ۔

مودی حکومت نے آکر نئی کشمیر پالیسی اپنا لی اور ان رابطوں پر پہلی بار قدغن لگا دی ۔مذاکرات ختم کرنے کا مودی حکومت پہلی ہی ذہن بنا چکی تھی محض بہانے تراشنے کے ہائی کمشنر کی ملاقاتوں کا جواز تراشا گیا ۔یہ بات پاک بھارت تعلقات ختم میں بھارت کی عجلت سے واضح ہوتی ہے۔ 18اگست کوشیڈول کے مطابق شبیر احمد شاہ نے ہائی کمشنر عبدالباسط سے ملاقات کرنی تھی اس ملاقات سے قبل بھارتی خارجہ سیکٹریری سجاتا سنگھ نے پاکستانی ہائی کمشنر سے رابطہ کرکے انہیں دھمکی دی کہ اگر انہوں نے علیحدگی پسندوں سے ملاقات کی تو ہندوستان پاک بھارت سیکریٹری خارجہ ملاقات منسوخ کردے گا ۔

اس پر ہائی کمشنر نے اسلام آباد سیکریٹری سے فور ی طور پر موبائل پر رابطے کی کوشش کی تواسلام آباد میں دھرنوں کی وجہ سے جیمرز لگے تھے جس کی وجہ سے رابطہ نہ ہوسکا۔اور اس دوران وقت پورا ہوگیا اور ہائی کمشنر کوئی جواب نہ دے سکے ۔اس دھمکی کے باوجود پاکستان کے ہائی کمشنر نے شبیر احمد شاہ سے سہ پہر کو طے شدہ وقت پر ملاقات کی جس کی اطلاع جوں ہی بھارتی وزارت خارجہ کو ہوئی ۔

تو اسی شام بھارتی وزارت خارجہ کے ترجمان سید اکبر نے پریس کانفرنس بلا کر مذاکرات منسوخی کا اعلان کردیا ۔پاکستان سے مذاکرات منسوخی کا فیصلہ 18اگست پیر کے روزبھارتی وزیررعظم نریندر مودی اور بھارتی وزیر خارجہ سشماسوراج کے مابین مشاورت سے طے پایا ۔اس فیصلے سے ابتداًبھارتی سیکڑیری خارجہ کوبے خبر رکھا گیا تاہم بعد میں انہیں پاکستان کے ہائی کمشنر کو رابطہ کرکے حریت قیادت سے ملاقات منسوخ کرنے کا کہا گیا ۔

پاکستان کے ہائی کمشنر عبدالباسط کی جانب سے مذاکرات ختم کرنے کی بھارتی دھمکی کے باوجود حریت قیادت سے ملاقات پر حریت قیادت نے پاکستان کے اس اقدام کو بھارت کے مقابلے میں کشمیریوں کو ترجیح دینے سے تعبیر کیا اور اس پالیسی پر حریت قیادت نے پاکستان کے موقف کی حمایت کا یقین دلایا ہے ۔بھارت وزارت خارجہ کے ترجمان نے پہلے ہی مذاکرات منسوخی کا اعلان کردیا تھا بعد میں رسما ًہائی کمشنرکو دفتر خارجہ بلا کر سرحدی کشیدگی اور مذاکرات منسوخی سے آگاہ گیا ۔


پاک بھارت تعلقات میں کشیدگی سے نیویارک میں نواز مودی ملاقات کی امید دم توڑ گئی ۔ بھارت کی جانب سے یکطرفہ طور پر پاک بھارت خارجہ سیکریٹری ملاقات منسوخ ہونے کے بعدسب سے زیادہ منفی اثر اگلے ماہ نواز مودی متوقع ملاقات پر پڑا ہے ۔22,23ستمبر کو نیویارک میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کا اجلاس طلب کیا گیا ہے ۔اس اجلاس میں نواز شریف اور مودی دونوں سربراہ شریک ہونگے ۔

حالیہ پاک بھارت کشیدگی نے دونوں ممالک کے وزرائے اعظموں کی اس متوقع ملاقات پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے ۔ بھارت کے دفتر خارجہ اور پاکستان کی وزارت خارجہ نے معمول کی ہفتہ وار پریس بریفنگ میں تاحال اس ملاقات کا کوئی مثبت اشارہ نہیں دیا ۔ پاکستان کے ہائی کمشنر اور بھارت کی دفتر خارجہ کے ترجمان دونوں نے نیویارک میں نواز مودی ملاقات کے لیے کسی بھی ہوم ورک سے اپنی لاعلمی کا اظہار کردیاہے ۔

جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ نواز مودی ملاقات کے امکانات کم ہیں ۔اگلے ماہ تک اگر پاک بھارت تعلقات میں گرم جوشی آتی ہے تو پھر یہ ملاقات ممکن ہے ۔بھارت کے اس طرز عمل کودیکھ کر پاکستان نے مسئلہ کشمیر کو آیندہ ماہ اقوام متحدہ کے اجنرل ا سمبلی اجلاس میں اٹھانے کا فیصلہ کرلیا ہے ۔تاکہ بھارت مذاکرات ختم کرکے جس معاملے سے جان بچانے کے درپے ہے اس پر اقوام متحدہ اور عالمی برادری کا دباؤ ڈالا جاسکے
۔

بھارت کا حریت قیادت ملاقاتوں پر شدید ردعمل کھلی چغلی کھارہا ہے کہ مودی حکومت نے مسئلہ کشمیر پر اپنی نئی پالیسی وضع کرلی ہے ۔اس پالیسی میں پاکستان اور حریت قیادت کو دور رکھنا بطور ٰخاص شامل ہے ۔ان رابطوں میں رخنہ انداز ی کا مطلب عالمی سطح پر مسئلہ کشمیر کے صرف دوفریقوں کو اجاگر کرنا ہے ۔مودی کی نئی پالیسی میں کشمیری بطور تیسرا فریق شامل نہیں ۔

اس لیے بھارت نے سرحدی کشیدگی میں اضافہ کردیا ہے اوردوسری جانب بھارتی باڈرسیکورٹی فورس اور پاکستان رینجرز کے مابین معمول کی فلیگ میٹنگ بھی تعطل کا شکار ہے ۔بھارت نے فلیگ میٹنگ سے بھی خود کو دور کرلیا ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ بھارت کی مودی سرکار انڈیا میں انتہا پسندوں کی دلجوئی میں جتی ہوئی ہے ۔ان دنوں بے جے پی نے مقبوضہ کشمیر کی داخلی سیاست میں بھی مداخلت شروع کردی ہے ۔

ادھر نئی دہلی میں پاکستان کے سفارت خانے کے سامنے انتہاپسندوں کو احتجاجی مظاہروں کی کھلی چھوٹ دے دی گئی ہے ۔ایک انتہا پسند گروہ نے پاکستانی سفارت خانے پر حملے کرنے کی بھی کوشش کی ہے ۔ستم بالاستم یہ ہے بھارت کی ایک ماتحت عدالت نے ہائی کمشنر اور حریت قائدین کی ملاقات کو جرم بنا کر ہائی کمشنر اور شبیر احمد شاہ کیخلاف غداری کا مقدمہ بنانے کا بھی حکم دے دیا ہے ۔

ان بھارتی اقدامات سے اندازہ ہوتا ہے کہ مودی سرکار تاحال قومی سیاست کی بجائے صوبائی سیاست کے خول سے باہر نہیں نکلی ۔مودی کی اس تنگ نظری نے پاک بھارت سرحدی کشیدگی میں بھی اضافہ کردیا کنڑول لائن پر تو بھارت جارحیت معمول کا حصہ ہے اب تو سیالکوٹ جیسے بین الاقوامی ورکنگ باؤنڈری پر بھی بھارتی توپیں بارود اگلنے لگی ہیں ۔بھارت نے اس بہانے سرحدوں اور کنڑول لائن پر اپنی فوج کی تعداد میں بھی اضافہ کرلیا ہے ۔مودی کی موڈی سیاست نے پاک بھارت دونوں ممالک کی ڈیڑھ ارب آبادی کو خوف میں مبتلا کردیا ہے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :