عورت ذات اور ہمارامعاشرہ

جمعرات 21 اگست 2014

Muhammad Akram Awan

محمد اکرم اعوان

کہیں عورت حسن ِ کائنات ہے توکہیں عورت کے دم سے رونق ،بہاراور سارے رنگ۔ کہیں ہم عورت ذات (ماں)کے قدموں میں جنت تلاش کرتے نظرآتے ہیں تو کہیں محفلوں میں بڑھ چڑھ کرعورت کی عظمت اور مقام پر گفتگو زیر ِبحث ہوگی۔ کہیں عورت کا مقام بیان کرتے ہوئے حدیث مبارکہ کا حوالہ دیا جائے گا کہ جس نے دو بیٹیوں کی پرورش کی توقیامت کے روز وہ شخص جنت میں نبی آخرالزمانﷺکے ساتھ ہوگا۔


مگر کیاہم نے عورت کو وہ مقام ،حق ،مرتبہ اوراہمیت عملی طورپر بھی دی یا بس بیانات اورشاعری کی حد تک کہتے ہیں کہ وجودِزن سے ہے تصویر ِکائنات میں رنگ ۔ عورت کے معاملہ میں ہم اندر سے بالکل ویسے ہی ہیں جیسے برصغیرمیں اسلام کی آمد سے پہلے تھے۔ ہمارے عمل اور سوچ میں ذرا بھی تبدیلی نہیںآ ئی۔

(جاری ہے)

یہ سوچ اور رویہ نسل در نسل منتقل ہوتارہا۔حقیقت یہ ہے کہ ہمارا معاشرہ ہے ہی مردوں کا معاشرہ کیونکہ نہ توہمیں عورت کے حقوق کی پرواہ ہے اور نہ ان کے حقوق جاننے کی فکر، حقوق کی ادائیگی تو دور کی بات ہے۔

عورت آج بھی مرد کے لئے کھلونا،گھر کی باندی ،کام کاج اور محنت مشقت کرنے والی ہے۔ جوپیدائش سے لے کر موت تک مختلف مراحل سے گزر کر اپنے آخری اور اصلی گھر قبرمیں سفیدکفن اوڑھے پہنچ جاتی ہے۔عورت ماں ہے تو ساری زندگی خاونداور اولاد کی دیکھ بھال اور ناز نخرے برداشت کرنے ہوں گے، بہن ہے تو بھائیوں کے اشارہ ابرو پر ہرخدمت کے لئے مستعد رہنا ہوگا اورپھر یہی عورت بیوی بنی تو تاحیات سسرال کی قید میں مشقت کی چکی پیستے ملے گی۔


ایک غیرسرکاری رپورٹ کے مطابق 95فیصدخواتین گھریلوتشدد کا شکار بنتی ہیں۔اسی طرح ہرسال پاکستان میں تین ہزارسے زائد عورتیں قتل ہوجاتیں ہیں، ان میں سے بڑی تعداد اُن عورتوں کی ہے جن کو اُن کے باپ، بھائی غیرت کے نام پرقتل کردیتے ہیں یا دوسری بیٹی کی پیدائش پر شوہرتشدد اور آگ لگا کر موت کے گھاٹ اُتار دیتے ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق خواتین پر تشدد تہذیب یافتہ دُنیاکا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔

دُنیابھر میں ہر چھ میں سے ایک عورت کو مرد کے تشددکا نشانہ بننا پڑتا ہے۔
رہی عورت کے حقوق کی بات تو کیسے حقوق؟ ہمارے معاشرہ میں عورت کا تو اپنا گھر تک نہیں، پیدا ہوئی تو باپ کا گھر، بیاہی گئی تو سسرال کا گھراور صاحب اولادبنی اور پرورش کے بعد بیٹاجوان ہوا تواُس کی شادی کرنے کے بعد بیٹے کا گھر۔ اگربہو /بیٹا خوش قسمتی سے فرماں بردار نکل آئے تو زندگی کی باقی گھڑیاں عزت سے گزر جائیں گی، ورنہ آج کل کے حالات میں تو بیچاری مائیں زندگی کی بقیہ سانسیں گن گن کرگزارتی نظر آتی ہیں۔

اُنہیں بیٹے سے بات کرنے اوراپنی ضرورت بتانے کے لئے بھی مناسب الفاظ کا چناؤکرنا پڑتا ہے۔ کہ کہیں انڑنیٹ پر مصروف دنیا بھرمیں انسانیت کوخدمت، محبت ، ہمدردی اور اچھے اخلاق کا درس دیتا بیٹابرا ہی نہ مان جائے اور طیش میں آکر گھرمیں طوفان ِ بدتمیزی نہ کھڑا کردے۔
قول وفعل کے تضاد کے باوجودہماری خوش فہمی کی انتہادیکھیں کہ ایک طرف توہمارا ایمان ہے کہ عورت (ماں، بہن ، بیٹی )جنت کے حصول کے اسباب میں سے ایک اہم ذریعہ ہے۔

دوسری طرف اس ترقی یافتہ دور میں بھی عورت کے حوالہ سے ہماری سوچ اور ذہنیت میں کو تبدیلی نہیں آئی بلکہ موجودہ عہد کا انسان عورت کے معاملہ میں ِزمانہ جہالت سے بھی زیادہ سفاک اور بے رحم ہوگیا ہے ۔آج ماں کے پیٹ میں تشخیص ہوتے ہی عرش ِ معلی کوہلاکررکھ دینے والے ظلم کی انتہا کردی جاتی ہے کہ عورت ذات دُنیا میں آہی نہ سکے ۔حرص ولالچ زدہ اور ذہنی بیمارمعاشرہ میں عورت ماں کے پیٹ سے قبر کے پیٹ تک نہ جانے کتنی بار جیتی اور کتنی بار مرتی ہے، اس کا اندازہ خالص مردانہ معاشرہ میں کیسے ممکن ہے؟پھراُمیداور وہ بھی جنت الفردوس کی!جس ذات کے ساتھ ہم اپنی جنت وابستہ کرتے ہیں ،اسی عورت ذات پرہم ظلم ،ناانصافی،حق تلفی اوراسے ناحق قتل کرتے وقت اللہ کی ناراضگی،قہراورآخرت کاعذاب آخر کیوں بھول جاتے ہیں؟
ہمارے معاشرہ میں تو آج بھی عورت کا نکاح قرآن سے کردیا جاتا ہے کہ کہیں جائیداد دوسرے خاندان میں منتقل نہ ہوجائے۔

میرے اور آپ کے تجربہ کی بات ہے کہ ہم عزت دار ، اونچی ناک اور شان والے جوماؤں ، بہنوں کوساری عمر گھر کی چاردیواری سے باہرقدم نہیں رکھنے دیتے،لیکن اِنتقال ِ جائیداد کی خاطر تحصیل آفس اور کچہری کے چکرلگواتے ہوئے ذرا بھی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتے۔مائیں بہنیں بھی ایسی کہ چُپ چاپ کاغذات پر دستخط کردیں، کہ یہی ریت ،روایت ہے ورنہ لوگ کیا کہیں گے ؟ کیونکہ عورتوں کو بچپن سے ہی یہی تعلیم دی جاتی ہے اور اُن کے ذہن میں یہ بات بیٹھا دی جاتی ہے کہ زمین، جائیداد، کاروبار سے حصہ مانگنا بے غیرتی ہے اور جائیداد کی تقسیم کروانے والی عورت خود غرض ڈائین ہوتی ہے ۔

یہی وجہ ہے کہ ہمارے معاشرہ میں عورت جائیدادلینے کا تصور بھی نہیں کرسکتی۔یہاں تک کہ اگر عورت کوبتایا جائے کہ وہ اِسلامی اورملکی قوانین کے تحت جائیداد کی حقدار ہے تب بھی اُس میں اتنی جرات اور ہمت نہیں ہوتی کہ وہ اس ظالم معاشرہ کی بے رحم روایات سے بغاوت کرسکے۔
عورت کو وراثت کے حق سے محروم رکھنے کے لئے کئی حربے استعمال کئے جاتے ہیں۔

کوشش کی جاتی ہے کہ شادی ہی نہ ہو اگرشادی کربھی دی، تو جوکچھ جہیز میں دیا وہی اُس کا حصہ تھا۔حالانکہ دیکھا جائے توجہیز میں بھی ہماری ذاتی انا، عزت شامل ہوتی ہے اور اس میں ذرابھی شک نہیں کہ ہم جہیزمیں بھی اپنی بہن ، بیٹی کی محبت کی بجائے دوسروں سے مقابلہ بازی کرتے ہیں۔ فلاں نے اتنا زیور اور سامان دیا، میں اُس سے بڑھ کردوں گا، یا کم سے کم اُس کے برابر تو ضرور دوں گا، ورنہ لوگ، برادری کیا کہے گی۔

اس طرح ایک تیر سے دو شکار کئے جاتے ہیں کہ برادری میں ناک بھی بُلند رہے اورساتھ ہی اسی جہیزکوزمین ،جائیداد یا وراثت کا نعمل البدل تصور کرلیا جاتا ہے۔بہرحال دونوں صورتوں میں اللہ کی نافرمانی کے مرتکب ہوتے ہیں، ایک تو وراثت میں حصہ نہ دے کردوسرا جہیزدے کر، کہ جسے لعنت کہاگیا ہے اور جس کی سختی سے نفی اور ممانت آئی ہے۔
ہمارے معاشرہ میں ایسے ایسے دیندار اور مقررین ِ اسلام موجود ہیں کہ دین پر بات کریں تو گویا جنت ، جہنم کا نقشہ سامعین کی آنکھوں کے سامنے آجائے، مگر میں کسی ایسے شخص کو نہیں جانتا کہ جس نے اپنی بیٹی یا بہن کووراثت میں سے کچھ دیا ہو۔

حتیٰ کہ بعض دفعہ تو بیٹی کی اولاد کوبھی ماموں کے انتقالِ جائیدادکے لئے تحصیل ، کچہری کے چکر لگاتے دیکھا گیا ہے۔کیا یہ قبل از اسلام کی روایت اور طریقہ نہیں؟کیا یہ ظلم اور ناانصافی نہیں؟اوراگریہ ظلم ونا انصافی ہے تو پھر ہم روز ِ قیامت میں پیش ہونے کا دن کیوں بھول جاتے ہیں کہ ہر ظلم کرنے والے سے بدلہ لیاجائے گا حتیٰ کہ بغیرسینگ والی بکری کوسینگ دیئے جائیں گے تاکہ وہ اپنا بدلہ لے سکے۔

اس سے واضح ہدایت کیا ہوسکتی ہے جس کا مفہوم کچھ یوں ہے۔
"لوگو عورتوں کے معاملہ میں اللہ سے ڈرو، وہ تمھارے پاس خداکی امانت ہیں، پس تم ان سے نیک سلوک کرو، تمھارا حق عورتوں پر اور عورتوں کا تم پر حق ہی"
کتنا عجیب ہے کہ اپنی اولاد کو اللہ کے عطاء کردہ حق سے محروم رکھنااورپیدائش سے قبل ہی قتل کردینا اور پھر دوسروں سے اُمید کہ وہ ہمیں ہمارا حق دیں۔کیا ہم نے کبھی سوچا کہ ہماری انفرادی پریشانی ،بے سکونی، نااتفاقی اورملک بھر میں اجتماعی خوف،اضطراب، بے یقینی ،بدامنی جیسی موجودہ صورت ِ حا ل،ہمارے اپنے ہی سیاہ اعمال ،حق تلفی اور ناانصافی کا نتیجہ ہیں؟

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :