نصیحت

اتوار 26 جولائی 2015

Muhammad Saqlain Raza

محمد ثقلین رضا

مہاتما گاندھی نے جواہر لعل نہرو کو نصیحت کی تھی کہ اگر تم فلاحی ریاست چاہتے ہو تو تین چیزیں کبھی مہنگی نہ ہونے دینا سائیکل‘آٹا اور سینما کاٹکٹ‘ تینوں کی قیمتوں پر کنٹرول کرنا کیونکہ ان تینوں کاتعلق غریب آدمی ہے ‘غریب آدمی سائیکل پر سفر کرتاہے‘ کھانے کو دووقت کی روٹی اسے میسر رہے اورلے دے کے اس کے پاس تفریح محض سینماگھر ہی ہوتاہے ۔

مہاتما گاندھی کا حکم تھا یا کچھ آج بھی بھارت میں تینوں اشیا کی قیمتیں پاکستان سے کہیں کم ہیں۔اس عمل کے اثرات بھی آج بھارتی معاشرہ پرمحسوس کئے جاسکتے ہیں۔آج بھی بھارت میں سائیکل آٹا اور سینما کاٹکٹ بہت سستا ہے گویا جواہر لعل نہرو کے بعد بھی آنے والے حکمرانوں نے اپنے پوتر اور قابل احترام باپو مہاتما گاندھی کی نصیحت پر عمل کیا ۔

(جاری ہے)

بڑے بڑے بحران آئے ‘معیشت زبوں حالی کاشکار رہی لیکن بھارت نے اس نصیحت کو ہاتھ سے نہ جانے دیا‘بھارت نے اس نصیحت کے ساتھ ساتھ خود انحصاری کوہاتھ سے نہ جانے دیاتقسیم ہند کے بعد سے لیکر کچھ عرصہ قبل تک بھارت سرکار کے بڑے بڑے وزرا بلکہ خود وزیراعظم اپنے ہی ملک میں تیارہونیوالی چھوٹی سی کار استعمال کیاکرتے تھے لیکن آج اس خود انحصاری کا نتیجہ ہے کہ بھارت دنیا کی بہتر ین کار کمپنیاں رکھنے والے ملک بن چکا ہے ٹاٹا ‘ ماروتی دو ایسی کمپنیاں ہیں جن کے معیار پر بھارت کو بجاطورپر فخر ہوسکتاہے ۔

تاریخ کے صفحات پر درج ان واقعات کو نہ تو کھرچا جاسکتاہے اورنہ ہی تاریخ اس بات کی اجازت دے گی کہ بھارتی عوام کی زندگی بدل دینے والی نصیحت کو یوں فراموش کردیاجائے لیکن جونہی اپنے ہاں کے حالات پر نظر پڑتی ہے تو کلیجہ منہ کو آنے لگتاہے ‘ مہنگائی کاطوفان دنیا بھرمیں برپا ہوا ‘ چند برسوں میں بیروزگاری ‘مہنگائی کے طوفان برپا ہوئے ‘ امریکہ جیسی سپرپاور ‘برطانیہ جیسی منظم ریاست بھی اس بحرانی کیفیت سے دوچار رہی لیکن کہیں سے بھی ”بیڈگورننس “ کی خبر نہیں ملیں ‘ آئے روز یہ اطلاعات توسامنے آتی رہیں کہ سینکڑوں افراد بے گھر ہوئے لیکن اس طوفان میں کسی کے بھوکا رہنے کی خبر نہیں مل سکی ۔

دنیا بھر میں وطیرہ ہے کہ اشیائے صرف کی قیمتوں پر خاص طورپر کنٹرول رکھاجاتا ہے تاکہ مہنگائی کاطوفان کھڑا نہ ہوجائے۔ دنیا کے بڑے بڑے ممالک ہوں یا ترقی پذیر ملک‘ حکمران یہی کوشش کرتے ہیں کہ مستقل مزاج پالیسیوں پر چلاجائے تاکہ عوام پر مہنگائی کا بوجھ نہ پڑے۔ لیکن باعث حیرت ہے کہ پاکستان میں ان عوامل پر توجہ دیناگوارہ نہیں کیاجاتا ۔

تسلیم کرناپڑیگا کہ پاکستان اپنے مشکل ترین دور سے گزررہاہے ‘ معیشت کی زبوں حالی ‘ بجلی ‘گیس اوردوسرے بحران اس کی معیشت کا بیڑہ غر ق کرچکے ہیں لیکن باعث بدقسمتی ہے کہ گذشتہ پانچ اورموجودہ دوسالہ دور میں جمہوریت پسندوں نے عوام کی حالت بدلنے کی بجائے اپنی تقدیربدلنے کی طرف زیادہ توجہ مرکوز رکھی ۔ بحران ہر ریاست کی زندگی میں آتے ہیں ہمارے ہاں بھی بحرانی کیفیت رہی اورآج بھی اثرات ہیں ‘اثر پڑا تو عوام کی زندگی پر لیکن حکمرانوں کے چال چلن‘ طرز زندگی پرکوئی اثر نہیں پڑا ۔

۔ ہرپندرہ دن کے بعد گیس ‘پٹرولیم مصنوعات اور بجلی کی قیمتوں میں اضافہ کے کوئی ایسا کارنامہ موجودہ حکومت کے پلڑے میں دکھائی نہیں دیتا جس پر کارپردان حکومت فخر کرسکتے ۔ لیگی حکومت سے کچھ توقعات وابستہ تھیں تو وہ بھی اب عنقا ہوگئیں۔ حکومت نے اپنی دوسالہ کارکردگی کی بدولت عوام میں مایوسی کا زہر بھرنے کے علاوہ ناکامیوں کا وہاں سفر شروع کردیا ہے جہاں سے پیپلزپارٹی نے پانچ سالہ دور کے اختتامی لمحات میں ختم کیاتھا۔

ابتدائی ناکامیوں کاداغ حاکمین وطن کیسے دھوپائیں گے یہ کسی بھی حاکم ‘وزیرمشیر یا عوام کو پتہ نہیں ہے۔یہاں ہمیں نیلسن منڈیلا کی کہی ہوئی بات یاد آرہی ہے کہ کسی نے تحریک آزادی کے اس عظیم مجاہد سے پوچھاتھا کہ لیڈر اور سیاستدان میں کیافرق ہوتاہے‘ انہوں نے جواب دیا کہ” سیاستدان اقتدار کیلئے اورلیڈر قوم کیلئے سوچتا ہے “
صاحبو! ہم نے مہاتما گاندھی کی نصیحت کا ذکر کیا ‘تاریخ کی کتابوں کو بہت کھنگالا ‘ ورق الٹے‘ انٹرنیٹ کو سرچ کیا لیکن ہمیں اول تو محمدعلی جناح جنہیں بابائے قوم اوربانی پاکستان کے نام سے یاد کیاجاتا ہے ‘ کی طرف سے ایسی کوئی نصیحت سامنے نہیں آئی ہوسکتاہے کہ انہوں نے ایسی کوئی نصیحت کی بھی ہو تو یاد کون رکھتاہے ‘ ہاں مخصوص اوراپنی ڈوبتی کشتی کو بچانے کیلئے حاکمین فرامین قائد  کواستعمال توکرتے ہیں لیکن جونہی عوام کی فلاح کی بات ہو یا قائداعظم کے اس فرمان کا ذکر ہو کہ ”ہم ایک فلاحی ریاست کاقیام چاہتے ہیں“ تو فلاحی ریاست کا مطلب محض حکمرانوں کی فلاح قراردیکر گویا راوی سکھ چین لکھنے لگتا ہے ۔

ہمیں اپنے ہاں کے حاکمین پر اعتراض نہیں البتہ بھارتی قوم سے گلہ ضرور ہے کہ انہوں نے خواہ مخواہ پینسٹھ، سیاسٹھ برسوں میں اپناآپ ضائع کردیا ‘ چونسٹھ برس پہلے باپو نے جو نصیحت کی تھی وہ زمانہ اورتھا ‘ یہ زمانہ اور ہے ‘ اس وقت دنیا کے وہ حالات نہ تھے جو اب ہیں ‘ حکمرانوں کی وہ ضرورتیں اب نہیں رہیں اب حکمرانوں کی ضروریات چادر سے باہر نکل چکی ہیں اس لئے باپو کی بات پر اتنا عمل کیوں کر کیاجائے؟؟؟ لیکن صاحب وہ بھارت ہے جہاں باپو کو اتنی عزت دی جاتی ہے جس کا تصور حقیقی ماں باپ بھی نہیں کرسکتے لیکن ہم نے اپنے ”باپو“ کو کرنسی نوٹوں پر اس لئے ہی تو چھاپا ہے کہ اسے اپنے ہاں محفوظ رکھاجائے یا پھر اپنی تجوریوں باپو کی تصویر سے سجے نوٹوں سے بھراجائے کیونکہ باپو ہمارے لئے قابل احترام تھے دونوں ریاستوں کے قیام میں چند گھنٹوں کافرق ہے لیکن آج دونوں ریاست کے معاشی حالات میں گھنٹوں کافرق نہیں رہا دونوں ایک دوسرے سے میلوں دور دکھائی دیتے ہیں ایک ریاست آج بھی اپنی بقا کی جنگ لڑرہی ہے اوردوسری بقا کی قید سے نکل کر دنیا کو چیلنج کرنے نکل کھڑی ہوئی ہے۔

فرق کیا ہے؟ فرق محض اتنا ہے کہ دنیا کو چیلنج کرنیوالی اس ریاست کے حکمرانوں نے عوام کی فلاح پرتوجہ دی ‘ اپنے مفادکوپس پشت ڈالا اورعوامی فلاح کو مدنظررکھا۔لیکن میلوں پیچھے رہ جانیوالی اس ریاست کے حاکمین کی پہلی تو جہ ہمیشہ اپنے پیٹ کی طرف رہی‘ مورد الزام مارشلاؤں کوٹھہرایاجاتا ہے لیکن حقائق کی دنیا کہتی ہے کہ مارشل لاء تو برے تھے ہی لیکن جمہوریت بھی اس مملکت خداداد پاکستان کے مقدر کیلئے کچھ نہ کرسکی الٹا جمہوریت پسند ‘مارشلائی دکھ سناکر قوم کی چمڑے ادھیڑنے میں مصروف ہیں۔

ہرروز مشیران حکومت سر جوڑکر یہی سوچتے دکھائی دیتے ہیں کوئی ایسا شعبہ باقی نہ رہ جائے جہاں سے ٹیکس کے نام پر لوٹ مار کی جاسکے۔ قوم کی ایسی کوئی رگ باقی نہ رہے جس خون نکالاجاسکے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :