منتخب ممبران اسمبلی یا مجرم حاضرہوں۔۔۔۔؟

منگل 1 دسمبر 2015

Umer Khan Jozvi

عمر خان جوزوی

سر جی ہمارا علاقہ شہر سے بہت دور اور زندگی کی بنیادی سہولیات سے محروم ہے۔ پرائمری، مڈل اور ہائی سکولوں کا نام تو سنا ہے مگر ہمارے بچوں کو یہ نہیں پتہ کہ میٹرک کے بعد بھی کوئی تعلق ہوتی ہے، بجلی گیس اور ٹیلی فون کی بہت تعریفیں سنی ہیں لیکن آج تک ان میں کسی ایک کو قریب سے نہیں دیکھا، کوئی ہسپتال کا نام لے تو ہم لوگ سمجھتے ہیں کہ حاجی صاحب کے اس گھر کی کوئی بات ہورہی ہے جس کو نہ جانے کب سے تالا لگا ہوا ہے کیونکہ حاجی صاحب جب سے امریکہ منتقل ہوئے ہیں اس کے بعد سے اس گھر کا دروازہ کبھی نہیں کھلا۔

کسی کے لب پر سکول کا ذکر خیر ہو تو ہمیں فوراً محسوس ہوتا ہے کہ جانوروں کے اس سرکاری باڑے یا مہمان خانے کی بات ہورہی ہے جس میں ہمارے علاقے کے جاگیردار، سرمایہ دار، خان اور نواب لوگ یا تو اپنے پالتو جانور باندھتے ہیں یا کسی دوسرے علاقے سے آنے والے غریب مہمانوں کو ٹھہراتے ہیں۔

(جاری ہے)

ہاں سر جی ایک بات یاد آئی ان میں کبھی کبھار شادی بیاہ کی محفلیں منعقد کرکے ڈھول باجے کا اہتمام بھی کیا جاتا ہے۔

سر جی یہ سکول اور ہسپتال جنات اور جانوروں کیلئے بنائے جاتے ہیں یا ان میں کچھ اور کام بھی ہوتا ہے۔۔۔۔؟ میں نے پوچھا نوجوان کس علاقے میں رہتے ہو۔ وہ بولے سر جی شہر سے میلوں دور پہاڑ کی ایک چوٹی پر جہاں سے شہر آتے ہوئے پورادن لگ جاتا ہے۔ میں نے کہا کہ کوئی ایم این اے یا ایم پی اے کبھی تمہارے علاقے میں نہیں گیا۔ وہ کہنے لگے نہیں سر جی جب الیکشن کا دور آتا ہے تو ہم خود ان کے پاس آتے ہیں۔

آپ جس ایم این اے اور ایم پی اے کو ووٹ دیتے ہیں انہوں نے کبھی آپ کیلئے کچھ نہیں کیا۔۔۔۔؟ ان کو آپ کے ان حالات پر کبھی رحم نہیں آیا۔۔۔۔؟ میرے سوال سن کر نوجوان کی آنکھوں میں آنسو آگئے اور وہ کہنے لگے ۔سر جی ہم جس کوووٹ دے رہے ہیں وہ کبھی جیتے نہیں ۔جن کو ہم ووٹ نہیں دیتے وہ لوگ ایم این اے اور ایم پی اے بن جاتے ہیں اورسرجی وہ بہت سخت لوگ ہیں وہ کسی کی بات نہیں سنتے ۔

اگر ہم غلطی سے بھی ان کے سامنے کوئی شکایت یا کوئی مسئلہ لے کر جائیں تو وہ آنکھیں سرخ کر کے کہتے ہیں کہ جن کو ووٹ دئیے ان کے پاس جاؤ۔ سر سالوں کے سال گزر گئے ہمارا کوئی ایم این اے اور ایم پی اے نہ بن سکا۔ آج بھی ہمارا کوئی ایم این اے اور ایم پی اے نہیں۔میں نے نوجوان کو حوصلہ دیتے ہوئے کہا کہ پاگل تمہارا ایم این اے اور ایم پی اے کیوں نہیں ۔

۔۔۔؟ جو شخص جس حلقے سے ایم این اے اور ایم پی اے منتخب ہوتا ہے وہ پھر اپنوں بیگانوں، دوستوں اور دشمنوں سب کا نمائندہ ہوتا ہے۔ وہ لوگ جنہوں نے اس کو ووٹ نہیں دئیے ان کے مسائل حل کرنا بھی پھر اس کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ الیکشن میں کامیابی کے بعد کوئی سیاستدان پھر اپنوں اور ووٹروں تک محدود نہیں رہتا بلکہ حلقے کے سارے عوام کے مسائل ان کے حصے میں آجاتے ہیں اور ان مسائل کے حل کیلئے ان کو حکومت کی جانب سے بھاری فنڈز صرف اس مقصد کیلئے دئیے جاتے ہیں تاکہ وہ اپنے پورے حلقے میں عوام کے مسائل حل کر سکیں۔

میری باتیں سن کر نوجوان تو چلے گئے لیکن جاتے جاتے نوجوان مجھے گہری سوچوں میں ڈال گئے۔ نوجوان مجھے خداحافظ کہتے ہوئے دل کی بات بھی کہہ گئے کہ صاحب آپ جو مرضی کہیں ہمارے حالات بدلنے والے نہیں کیونکہ جولوگ ووٹ نہ دینے کی وجہ سے ہمیں کچا چبانے کی راہیں تلاش کررہے ہوں وہ بھلا کیسے ہمارے مسائل حل کروائیں گے۔ نوجوان کی یہ بات سن کر میں پھر کافی دیر تک سوچتا رہا کہ انتقامی سیاست نے کس طرح ہمیں تباہ و برباد کر کے رکھ دیا ہے۔

ایک ووٹ نہ دینے کی وجہ سے ہمارے ممبران قومی و صوبائی اسمبلی پھر اپنے ہی حلقے کو کس طرح پسماندگی اور مسائل کی دلدل میں دھکیلتے ہیں۔ دیہی علاقوں کے عوام جو پہلے ہی ترقی سے دور ہوتے ہیں وہ انتقامی سیاست کا سب سے زیادہ نشانہ بنتے ہیں جس کی وجہ سے دیہی علاقوں میں ترقی کا سفر کبھی شروع نہیں ہوتا۔ یوں تو ملک میں انتقامی سیاست کی لگی آگ نے شہروں اور صوبوں اور صوبوں کے ساتھ پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے لیکن دیہی علاقوں میں اس کے شعلے زیادہ بلند ہیں۔

اسی انتقامی سیاست کی وجہ سے دیہی علاقوں میں صحت اور تعلیم کا برا حال ہے۔ سرکاری سکول اگر مویشی باڑوں میں کہیں تبدیل ہو رہے ہیں تو یہ بھی انتقامی سیاست کا نتیجہ ہے، پی ٹی آئی حکومت کے سخت اقدامات کے باعث تو اکثر علاقوں میں سرکاری سکولوں کو مویشی باڑوں اور مہمان خانوں کے طور پر استعمال کرنے کا رواج تقریباً ختم ہو گیاہے جو صوبائی حکومت کا ایک بہت بڑا کارنامہ ہے لیکن انتقامی سیاست کے جراثیم آج بھی ڈینگی مچھروں کی طرح ہمارے اردگرد بھنبھنارہے ہیں۔

جب تک ملک سے انتقامی سیاست کے جراثیم مکمل طور پر ختم نہیں کئے جاتے اس وقت تک ہمارے دیہی علاقوں کے مسائل حل ہو سکتے ہیں نہ ہی یہ ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکتاہے۔ ہمارے منتخب ممبران اسمبلی کو انتقامی سیاست کی چادر کو جلا کر عوام کی حقیقی خدمت کیلئے میدان عمل میں نکلنا ہوگا۔ دیہی علاقوں سے پسماندگی کا خاتمہ ممبران اسمبلی کا اولین فرض ہونا چاہیے۔

جب تک دور دراز کے علاقوں کے عوام کو صحت، تعلیم، بجلی، گیس سمیت دیگر بنیادی سہولیات میسر نہیں ہوں گی اس وقت تک ہم اور ہمارا یہ پیارا ملک ترقی کی راہ پر گامزن نہیں ہو گا۔ اس لئے ہمیں اپنے منتخب ممبران اسمبلی کولائن حاضرکرکے انتقامی سیاست کو اب ہر حال میں مٹی تلے دفن کرنا ہوگا تاکہ غریب عوام بھی سکون کی زندگی گزارسکیں ورنہ کل جب انتقامی سیاست کے باعث ہمارے پاس تباہی وبردبادی کے سواکچھ نہیں بچے گاتوپھرہرطرف سے ان منتخب ممبران کیلئے ایک ہی پکارہوگی کہ مجرم حاضرہوں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :