مبارک ہو ، مبارک ہو۔۔۔ پٹرول مل گیا!!!

جمعرات 22 جنوری 2015

Syed Shahid Abbas

سید شاہد عباس

مبارک ہو۔۔۔ مبارک ہو۔۔۔ یہ وہ الفاظ تھے جنہوں نے ایک لمحے کے لیے میرے ہونٹوں پر مسکراہٹ بکھیر دی کیوں کہ ہجوم میں اکثریت مسکرانے والوں کی ہی تھی۔ لیکن چند چہروں پہ خفگی کے آثار بھی نمایاں طور پہ دیکھے جا سکتے تھے۔ کیوں کہ شاید انہیں اس شخص سے کچھ حسد محسوس ہونے لگا تھا جسے مبارک باد دی جا رہی تھی۔ اور یقینا حسد ہونا بھی چاہیے تھا کیوں کہ اس شخص نے معرکہ ہی ایسا سر کیا تھا جس پہ وہ مبارکباد کا مستحق تو تھا۔

مبارکبادیں سمیٹتا ہوا وہ شخص فخر سے سینہ تان کر ہجوم سے نکلا اور فاتحانہ انداز میں نظروں سے اوجھل ہو گیا۔ اور باقی ہجوم اصل مسلے کی طرف متوجہ ہو گیا۔
میرے ہونٹوں پر بکھرنے والی مسکراہٹ جلد ہی افسوس و شرمندگی میں تبدیل ہو گئی۔ یہ نوجوان جو کچھ دیر پہلے مبارکبادیں سمیٹ رہا تھا یہ پورا 12لیٹر پٹرول حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیا تھا۔

(جاری ہے)

کیوں کہ اس ہجوم میں کوئی ایسا نہ تھا جس نے کسی کو ایک بوتل سے زیادہ پٹرول لے جاتے ہوئے دیکھا ہو اس لیے شاید وہ نوجوان ہجوم کے نزدیک مبارکباد کا مستحق ضرور تھا۔ ویسے بھی اس بحرانی کیفیت میں پٹرول کا مل جانا یقینا ایک ایسا عمل تھا جو قابل تعریف اور بہادری کے مصداق تھا۔
لیکن نہ جانے کیوں افسوس نے مسکراہٹ پر غلبہ پا لیا۔نہ جانے ہم کیسی قوم ہیں جو اپنے حقوق بھی قطاروں میں لگ کر حاصل کرنے پر خوشی و طمانیت محسوس کرتے ہیں۔

ہم میں شاید سوال کرنے کی طاقت نہیں رہی یا ہم نے منافقت کا ایسا لبادہ اوڑھ لیا ہے جس کی وجہ سے ہم چشم پوشی کو ہی سب سے بہترین اور کارگر ہتھیار سمجھتے ہیں۔ ہجوم پیسے ہاتھ میں لیے چکراتا پھرتا ہے لیکن پٹرول اسے نہیں ملتا۔ گیس کے بل باقاعدگی کے ساتھ ہر مہینے ہمیں موصول ہو رہے ہیں۔ لیکن گیس کی فراہمی میں باقاعدگی عرصہ ہوا ناپید ہو چکی ہے۔

ماہانہ بجلی کے بلوں میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے لیکن ہم خاموشی سے بل بھی جمع کرواتے ہیں اور حکومت وقت کو گالی بھی دیتے ہیں۔ ہم یہ سوچنا گوارا نہیں کرتے کہ گالی سے حکومت کا نہ کچھ بگڑے گا نہ ہی حقوق کے حصول میں مدد ملے گی۔ یہ تو صرف اندر کا غصہ ہے جو گالی کی صورت میں باہر آ جاتا ہے تو ہم سمجھتے ہیں کہ ہم نے اپنا فرض ادا کر دیا۔لوڈ شیڈنگ کا دورانیہ 12گھنٹے سے بھی تجاوز کر گیا ہے لیکن اس کے باوجود ہم ان سیاستدانوں کا گریباں کیوں نہیں پکڑتے جو ڈیم بننے کے نام پر ہی لاشیں بچھا دینے کا واویلا شروع کر دیتے ہیں۔

لیکن ہم گریباں پکڑنے سے زیادہ مہارت جلسوں میں نعرے لگانے میں رکھتے ہیں۔ اور یہی ہمارا جدی پشتی کام ہے۔ میرے ایک بزرگ کہتے ہیں کہ پٹرول کا موجودہ بحران اگر ایک ہفتہ مزید جاری رہا تو قوم اشرافیہ یا برائے نام اشرافیہ کے محلات کو آ گ لگا دیں گے۔ میرے قہقے پر انہوں نے عجیب سی نظروں سے میری طرف دیکھا اور ہنسنے کی وجہ دریافت کی۔ جواباً عرض کیا کہ بزرگوار! آپ کس قوم کی بات کر رہے ہیں؟ اس قوم کی جو ابھی تک قوم بن ہی نہیں پائی ؟ یا اس عوام کی جو آج بھی مسجد کے باہر جوتوں تک کو تالا لگا کر جاتی ہے؟ یا یہ آگ وہ قوم لگائے گی جو مسجدوں میں لٹکتے ننھے بدن کو بھی چند دن کے بعد بھول جاتی ہے؟ کیا اس قوم میں صلاحیت ہے کہ یہ حکومت وقت کا گریباں پکڑ سکے؟ کیا اس قوم میں اتنی ہمت ہے کہ یہ نا اہلی کے بت بنے وزراء و مشراء کو سر بازار روک کر پوچھیں کہ وہ کون سی ایسی جمہوریت کو سنبھالے بیٹھے ہیں جس میں دو وقت کی روٹی کا حصول بھی ناممکن بنا دیا گیا ہے؟ ان تمام سوالوں کے جوابات کے لیے مجھ سمیت ہر ذی شعور کو اپنے گریبانوں میں جھانکنا ہو گا۔

ذی شعور اس لیے کہ جو لوگ سیاستدانوں کے کہے کو فرمان سمجھنے کے عادی ہیں ان کا حال اس بدمست ہاتھی کا سا ہے جو ایک ہی سمت میں دوڑے چلا جاتا ہے بناء سوچے کہ شاید آگے گہری کھائی ہی ہو۔
ہم بطور قوم اقبال کے کاغذی شاہین ہیں ۔ کیوں کہ ہم قطار پٹرول کے لیے تو بنا سکتے ہیں لیکن ایک ایسا ہاتھوں کا دائرہ نہیں بنا سکتے جس میں حکمرانوں کو جوابدہ بنایا جا سکے۔

ہم کسی کے تو کہہ دینے کو تو اپنی ذلت تصور کرتے ہیں لیکن گھنٹوں گرم سرد سے بے نیاز قطار میں کھڑے ہونے کو اپنی ذلت تصور نہیں کرتے۔موجودہ بحران میں تو ہم اجتماعی ذلت سہہ رہے ہیں۔ اور پھر بھی حکمران ہمارے لیے دودھ کے دھلے ہی ہیں۔ پٹرول، بجلی ، گیس، پانی وغیرہ اور اس کے علاوہ بھی ہر چیز کی قلت صرف عوام کے لیے ہی کیوں؟ کیا پٹرول کی موجودہ قلت سیاستدانوں کو متاثر کر پائی؟ یا ان کی گاڑیاں رکیں؟ ان کے روزمرہ کے معاملات رکے؟ اگر نہیں تو کیا ان کے گھروں میں سے پٹرول ابل پڑا ہے؟ آخر کیوں ہم یہ سوچنا گوارا نہیں کرتے کہ جعلی ڈگریاں ہم پہ راج کر رہی ہیں اور اصل ڈگریاں قطاروں میں کھڑی ہیں۔


وزیر خزانہ صاحب کے بقول پٹرول بحران بھی موجودہ حکومت کے خلاف سازش ہے۔ سازشوں کا واویلا کرنے سے بہت بہتر ہوتا اگر وزیر موصوف اپنی قابلیت کے مطابق صرف IMF سے قرضوں کی اگلی قسط کے معاملات طے کرتے ۔ کیوں کہ عوام کے مفاد کی سوچ شاید وہ واحد قابلیت ہے جو کسی وزیر یا مشیر کے پاس نہیں ہے۔ پٹرول کا بحران حکومت کے خلاف سازش ہے۔ دھرنا دینا حکومت گرانے کی سازش ہے۔

پارلیمنٹ کے سامنے آ کر اپنا حق مانگنا جمہوریت کے خلاف سازش ہے۔ وزراء کے خلاف کرپشن کیسز سیاسی جماعت کے خلاف سازش ہیں۔ کسی رشوت خور کو سامنے لانا اس کی ذات کے خلاف سازش ہے۔ کیا کوئی ایسی سازش نہیں ہو سکتی جس سے عوام کو اس کے بنیادی حقوق ہی مل جائیں؟ کیا کسی ایسی سازش کے تانے بانے نہیں بنے جا سکتے جس سے عوام کو بلا تعطل بجلی و پٹرولیم مصنوعات کی فراہمی یقینی بنائی جا سکے؟ لیکن ایسی سازش کیوں ہو گی جس سے عوام کو فائدہ ہو گا۔

حکمرانوں کے گھروں میں چراغاں ہے تو وہ اپنے چراغوں کا رخ تک بھی اندھیروں کی طرف کرنا کیوں کر گوارا کریں گے ۔
پٹرول بحران تو شاید کچھ دنوں تک ختم ہونے کی نوید مل جائے۔ لیکن بطور قوم ہم جس بحران کا شکار ہیں اس کے خاتمے کی پالیسی انفرادی سطح پر بنے گی تو پھر ہی اس سے چھٹکارا مل پائے گا۔ ہیجان میں مبتلا ہجوم کو ایک قوم بننے کے لیے اپنے حقوق کا نہ صرف ادراک کرنا ہو گا ۔

بلکہ ان کو حاصل کرنے لیے راستہ بھی چننا ہو گا۔ حکمران اعلیٰ و ارفع شخصیت کے مالک نہیں ہیں جن سے سوال نہ ہو سکے۔ جن سے اپنے حقوق اور ان کے سیاسی وعدوں کے بارے میں پوچھ نہ ہو سکے۔سیاستدان ایک دوسرے کے ساتھ احتساب کا کھیل کھیلتے رہتے ہیں لیکن اصل احتساب عوام کا حکمرانوں سے جب ہونا شروع ہو جائے گا اس وقت یہ ہجوم واقعی ایک قوم بن جائے گا۔

لاشوں پہ یکجا ہو کر آنسو بہانے، بچوں کی شہادت پر اکھٹے ہو کر احتجاج کرنے سے ایک قدم اور آگے بڑھنا ہو گا ۔ اور اپنے حقوق لینے کے لیے باعزت راستے کا انتخاب کرنا ہو گا۔ ہمارے پیسوں سے ہی تنخواہیں وصول کرنے والے جب ہم کو ہی کمتر سمجھتے ہیں تو کیا ہماری غیرت آسانی سے یہ بے عزتی برداشت کر لیتی ہے؟
چھوڑیں اس سوال پہ غور کرنا۔ اور متوجہ ہوں کیوں کہ ایک اور منچلا پٹرول مل جانے کی خوشی میں جشن منا رہا ہے۔ مبارک ہو۔ مبارک ہو۔ پٹرول مل گیا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :