مسئلہ فلسطین کا ’شریفانہ‘ حل میٹرو بس

منگل 22 جولائی 2014

Kaleem Ullah Shah Bukhari

کلیم اللہ شاہ بخاری

اگر میں آپ سے کہوں کہ پاکستان کو در پیش سنگین نو عیت کے 10 مسائل کی فہرست بنائیں تو یقیناّ امن و امان،صحت،تعلیم،غربت، توانائی کا بحران، مہنگائی،بے روزگاری،نکاسی آب اور فراہمی آب کے بعد شاید آٹھویں یا دسویں نمبر پر آپ ملک کے بڑے شہروں میں ٹریفک اور ٹرانسپورٹ کے مسئلے کو جگہ دیں گے۔-
اقتصادیات میں پوری دنیا میں کسی ملک اور قوم کی ترقی کو ماپنے کے لیے جو بنیادی انڈی کیٹر( Indicators (یا اشارے استعمال ہوتے ہیں وہ بھی ان ہی بنیادی سنگین مسائل میں کمی کی پیمائش پر مشتمل ہوتے ہیں جس سے دو ملکوں یا معاشروں کی درمیان ترقی کی رفتار کے فرق کو ماپا جا سکتا ہے ۔


کسی بھی ملک کی ترقی کو ماپنے کی لیے اکنامکس میں مندرجہ ذیل میں سے کچھ یا تمام اشاریے استعمال ہوتے ہیں
فی کس آمدنی (غربت کو ماپنے کا ذریعہ)
شرح خواندگی ( تعلیم کی سہولتیں)
نومولود میں شرح اموات
مخصوص بیماریوں میں مبتلا افراد کی شرح ( صحت کی مجموعی سہولتیں)
بے روزگاری کی شرح
فی کس آمدنی کے حساب سے منہگائی کی شرح
ان کے علاوہ بھی کچھ اشاریے استعمال ہوتے ہیں جیسے صاف پینے کے پانی کی سہولت، نکاسی آب کی سہولت وغیرہ-
اکنامکس کے طالب علم کی حیثیت سے یہاں ایک دلچسپ بات بتاتا چلوں کہ ذرایع نقل و حمل یعنی ٹرانسپورٹ بعض ماہرین کے نزدیک کسی معاشرہ کی ترقی ماپنے کے بنیادی اشاریوں میں شامل ہی نہیں ہوتے۔

(جاری ہے)


لیکن پاکستان میں گزشتہ 30 سال سے کسی نہ کسی شکل میں حکومت کا حصہ رہنے والی مسلم لیگ نون کی اعلیٰ قیادت میاں برادران کے نزدیک سڑکیں اور پلیں بنانا ، ٹرین اور بسوں کے پروجیکٹ لگانا ہی ملکی ترقی کی کنجی قرار پایا ہے۔طویل عرصہ تک موٹر وے کی لکیر کو پیٹنے اور اس سے لیکشن میں حاصل ہونے والے خاطر خواہ فائدے کو مد نظر رکھتے ہونے اب نون لیگ کے عظیم معیشت دان امن و امان، تعلیم، صحت، بے روزگاری اور ان جیسے کئی اور بنیادی مسائل کا حل سڑکوں، فلائی اوور اور میٹرو بسوں سے کرنا چاہ رہے ہیں ۔


آخر کیا وجہ ہے کہ نون لیگ کے کرتا دھرتا ایسے پروجیکٹس میں بے تحاشا پیسہ جھونکنے میں تیار رہتے ہیں جب کہ ملک کے بنیادی مسائل جو معاشرہ کو دیمک کی طرح کھا رہے ہیں ان کی طرف کوئی توجہ نہیں دی جاتی؟ مجھے تعصب کا طعنہ دینے سے پہلے ایک منٹ میرے اس تجزیے میں آپ بلا تعصب میرا ساتھ دیں تو آپ کو سمجھنے میں دیر نہیں لگے گی۔
یہ ہر اس پروجیکٹ میں بلا حساب پیسہ لگا دیں گے جس سے وقتی طور پر واہ واہ ہو جائے۔

جس کی لفافوں کے غلام میڈیا اور صحافیوں کے ذریعہ تشہیر کی جا سکے اور کم پڑھے لکھے متوالوں کے سامنے اگلے الیکشن میں حب الوطنی کے ایک سرٹیفکیٹ کی شکل میں پیش جا سکے۔اب تک میٹرو بس ، لیپ ٹاپ سکیم اور فلائی اوورز جیسے پروجیکٹس کے لیے پاکستان کی تاریخ میں سب سے زیادہ قرضے ایک سال میں لے چکے ہیں جن کا سو د نسلوں کو ادا کرنا ہو گا۔
لیڈر اور سیاست دان میں یہی بنیادی فرق ہوتا ہے کہ سیاست دان کی سوچ صرف اگلے الیکشن کو جیتنے کی خواہش تک محدود ہوتی ہے جبکہ ایک لیڈر اس طرح کی سطحی سوچ سے بلند ہوتا ہے۔


پاکستانی معاشرہ کا ناسور کرپشن بدستور ہماری قومی آمدنی کا ایک بڑا حصہ ہر سال ہڑپ کر رہا ہے کہا جاتا ہے زرداری کی گزشتہ حکومت میں لوٹ مار کا بازار گرم تھا اور اب قومی خزانہ میں کچھ باقی نہیں رہا۔ لیکن ایک سال سے زیادہ عرصہ میں گزشتہ حکومت کے کسی بھی فرد پر کوئی کیس دائر نہیں کیا گیا بلکہ قومی احتساب بیورو کے چیرمین کے معاملہ پر پی پی پی اور نون لیگ کا مک مکا واضح نظر آتا ہے کہ جیسے زرداری نے میاں صاحب کے خلاف کرپشن اور منی لانڈرنگ کے کیسوں پر پانچ سال پردہ ڈالے رکھا اسی طرح اب نون لیگ پی پی پی کی پردہ داری کر رہی ہے۔

اس لیے کرپشن ختم ہونا تو دور کی بات ہے کم ہو جائے تو بھی غنیمت ہے ۔
ترجیحات کے اس عمل میں اداروں کی مضبوطی سب سے مقدم ہونی چاہیے جس کا سرے سے ذکر ہی کہیں نہیں ہے۔پولیس کا غنڈہ گردی اور فرسودہ طریقوں پر مبنی نظام آج سے تیس سال پہلے جیسا تھا ویسا ہی اب ہے۔خادم اعلیٰ کی طرف سے اپنے چھے بار وزیر اعلیٰ بننے کے باوجود پنجاب پولیس کے کسی نظام میں کسی جدت کی جھلک تک نہیں ملتی۔

سیاستدان کو اگلے الیکشن میں جیتنے کے لیے دیہات میں پولیس کی وڈیروں کے ذریعہ غنڈہ گردی کی مدد سے ووٹ بھی تو حاصل کرنا ہے۔اگر ان کی جگہ کوئی لیڈر ہوتا تو وہ اگلے الیکشن کی پرواہ کیے بغیر بغیر اداروں کو ٹھیک کرنے کے اقدامات اٹھاتا۔
کسی بھی ملک میں کسی انسان کا سب سے بنیادی مسلہ اس کی جان ، مال اور عزت کی حفاظت ہوتی ہے۔یہ وہ بنیادی حق ہے جس کا انسان ریاست سے اپنی تابعداری کے عوض سب سے پہلے مطالبہ کرتا ہے ۔

لاہور میں جو کہ گزشتہ تیس سال سے پنجاب کا ایک تہائی بجٹ صرف کرنے والا میاں صاحبان کا ایسا شہر ہے جہاں اب ڈاکو رات ہونے کا انتظار بھی نہیں کرتے۔اخبارات روزانہ سٹریٹ کرائم ، ڈکیتیوں اور قتل کی وارداتوں سے بھرے ہوتے ہیں لیکن ان کے نزدیک امن وامان اور جان و مال کی حفاظت سے کہیں مقدم سڑکوں کے پل اور میٹرو بس جیسے منصوبے ہیں۔
یہی صورتحال عدالتی نظام کی ہے ۔

ایک سڑا ہوا بد بو دار عدالتی نظام جس میں انصاف کے حصول کے لیے آپ کے پاس عمر خضر، قارون کا خزانہ اور ایوب علیہ ا لسلام کا صبر چاہیے۔کیا گزشتہ تیس سال میں عوام کی بنیادی ترین ضرورت "انصاف" کی جلد اور بہتر فراہمی کے لیے کوئی اقدام کیا گیا؟ یا انیس سو پچاسی کے عدالتی نظام اور موجودہ عدالتی نظام میں کوئی فرق محسوس ہو تو متوالوں سے گزارش ہے کہ میری تصحیح ضرور کر دیں۔


یہی حالت صحت جیسی ایک بنیادی ترین ضرورت کی ہے۔پاکستان میں جس کے پاس اللہ کا دیا کچھ ہے وہ بھول کر بھی سرکاری ہسپتالوں کا رخ نہیں کرتا۔عوام کی اکثریت دیہات میں ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مر جاتی ہے یا پھر دور دراز شہروں کے سرکاری ہسپتال میں اس وقت پونچھ پاتی ہے جب مرض لا علاج ہو چکا ہوتا ہے۔میاں صاحبان سمیت ملک کی تمام اشرفیہ اپنے معمولی چیک اپ بھی برطانیہ اور دبئی سے کرواتے ہیں۔

یعنی تیس سال کے عرصہ میں یہ صاحبان اپنی اشرافیہ کے لیے بھی کوئی ہسپتال اس معیار تک نہیں لے جا سکے کہ جس میں یہ کبھی اپنا طبی معاینہ ہی کروا لیں۔
تعلیم میں ان کی ترجیحات کا یہ عالم ہے کہ پنجاب بھر میں ہزاروں سکولوں میں پینے کا پانی نہیں، چار دیواری نہیں، فرنیچر نہیں۔استاد نہیں
جبکہ لاکھوں بچے تعلیم سے ہر سال معاشی مسائل کی وجہ سے محروم رہ جاتے ہیں اور آٹھ دس سال کی عمر میں اوزار ہاتھ میں تھام کر گھر کا چولھا جلاے رکھنے کی کوشش میں لگ جاتے ہیں- جن کے گھروں کو حکومتی سپورٹ دے کر ان بچوں کو سکولوں میں واپس لیا جا سکتا ہے ۔

لیکن اس سارے عمل میں ذہن کا استعمال کرنا پڑتا ہے اور طویل دوراں یے کے اس عمل کی میڈیا میں "واہ واہ " کے زیادہ امکانات بھی نہیں ہیں۔ان کی نظر میں اس سے کہیں بہتر لیپ ٹاپ جیسی سکیمیں ہیں جس میں نوجوانوں کو اگلے الیکشن سے پہلے گھیرنے کے امکانات کے ساتھ ساتھ میڈیا میں تشہیر کا ایسا نادر موقع ہاتھ آتا ہے کہ ذہن کا زیادہ استعمال کیے بغیر ایک تیر سے تین چار شکار کیے جا سکتے ہیں اور پھر کم پڑھے لکھے سپورٹر کہ سبحان اللہ۔

لیپ ٹاپ سکیم میں بیس ارب سے زیادہ لگانے کے بعد اس کے تعلیمی معیار اور شرح خواندگی پر مرتب ہونے والے اثرات جانچنے کے لیے آپ کا ماہر تعلیم ہونا ضروری نہیں ہے۔
سڑکوں سے محبت میاں صاحبان کو اپنے سیاسی گرو ضیاء الحق سے بھی ورثہ میں ملی ہے۔ لیکن سڑکوں پر ٹریفک حادثات میں روزانہ درجنوں مرتے افراد ان کی ذمہ داری نہیں ہیں۔ نہ گزشتہ تیس سال میں ڈرائیونگ لائسنس کی پابندی، سڑک بنانے والے ٹھکیداروں سے سیفٹی قوانین کی پابندی، گاڑیوں کی فٹنس کے اداروں کی بحالی سمیت کوئی قدم اٹھایا گیا اور نہ آئندہ کوئی امید ہو سکتی ہے کیونکہ ایسے اقدامات کی میڈیا میں تشہیر کا کوئی خاص امکان نہیں ہے ۔

الٹا گزشتہ پانچ سال سے سڑکوں اور بسوں میں لوٹ مار کو ختم کرنے والی پیٹرولنگ پولیس زیر عتاب ہے کیونکہ یہ انقلابی منصوبہ پرویز الہی نے متعارف کروایا تھا جو کہ پٹرولنگ پولیس اور عوام کی بد قسمتی سے میاں صاحبان کے سیاسی حریف ٹھہرے ہیں۔
دنیا کے تمام ترقی یافتہ ملکوں میں لوکل باڈیز کے ذریعہ معاشرے کی نچلی ترین سطح تک فنڈز کی ترسیل اور یونین کونسل کی طرح کے اداروں کے ذریعہ فنڈزکا استعمال معاشرے کے ہر طبقے تک فلاح کا بنیادی سبب رہا ہے ۔

لیکن ہمارے سیاسی دانشور، اپم پی اے اور ایم این اے کو ترقیاتی فنڈزکے ساتھ ان کو پولیس اور پٹواری کی طاقت دے کر عوام کو ان کا محتاج اور بھکاری بنا کر رکھنا چاہتے ہیں اور اس کا بھی بنیادی مقصد اگلا الیکشن جیتنا ہی ہوتا ہے۔
ٹیکس نیٹ کو بڑھانے کے جتنے دعوے الیکشن سے پہلے کیے گئے تھے ان کا کوئی عملی پہلو دیکھنے کو نہیں ملا۔اور مل بھی کیسے سکتا تھا کہ جن لوگوں پر ٹیکس لگنا چاہیے وہ تو سب " پاور " میں ہیں ۔

لہذا ترقیاتی منصوبوں کے لیے نیے نوٹ چھاپنے اور آئی ایم ایف سے قرضہ لینے کے علاوہ کوئی حل نہیں رہ جاتا جو کہ روز بروز مہنگائی کی وجہ بن رہے ہیں۔طرفہ تماشا یہ کہ آئی ایم ایف سے قرضہ کی منظوری کو وزیر خزانہ صاحب اپنی کامیابی گردانتے ہونے قوم کو گویا خوشخبری دینا چاہ رہے ہوں، اس پر مجھے سہیل احمد کے مزاحیہ پنجابی ڈرامے کا فقرہ یاد آتا ہے " بے غیرتا شرمندگی والی گل اے"
اب تک ان کی اکثر سکیمیں بشمول پیلی ٹیکسی ، سستی روٹی، لیپ ٹاپ سکیم ، قرضہ سکیم ایسی سکیمیں تھیں جو بغیر کسی مغز ماری کے، بنیادی مسائل کو نظر انداز کر کے میڈیا کے ذریعہ تہشیر کا مقصد لیے ہویے نظر آتی ہیں جن کے معاشرے کی ترقی اور فلاح پر کوئی اثرات دیکھنے کو نہیں ملے۔


جیسے کراچی کے تمام مسائل کا ایک شافی حل میٹرو بس کی صورت میں دریافت کیا گیا ہے اور اس کی اس قدر تشہیر کی گئی ہے کہ یوں گماں ہوتا ہے کہ اس سے نہ صرف امن و امان کا دیرینہ مسئلہ بھی اچانک ختم ہو جائے گا بلکہ بھتہ خور بھی فل فور توبہ تائب ہو جائیں گے۔اسی طرح میٹرو بس سے کراچی کے عوام کو پینے کے ناقص پانی کے حصول کے لیے ٹینکروں کے آگے قطاریں بنا کر اپنی عزت نفس کو مجروح کرنے کی ضرورت بھی نہ رہے گی۔

رہے ابلتے گٹر، ٹوٹی پھوٹی گلیاں ، غربت میں لتھڑی گندی بستیاں ، سکولوں سے محروم لاکھوں کام کرتے اور بھیک مانگتے بچے تو یہ سب مسائل اربوں روپے کی میٹرو بس کے افتتاح کے ساتھ ہی کراچی کے صفحہ زیست سے مٹ جائیں گے۔
کسی نے سوشل میڈیا پر سچ کہا ہے کہ مسئلہ فلسطین کا حل بھی میاں صاحب یہی نکالیں گے کہ غزہ میں میٹرو بس کا منصوبہ اور چند فلائی اوور بنا دینے جائیں تو بس مسئلہ ہمیشہ کے لیے ختم ۔حماس اور اسرائیل کو اس پہلو پر غور کرنا چاہیے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :