میں برا نہیں اے دنیا والو!

ہفتہ 25 اپریل 2015

Hamad Raza Khan

حماد رضا خان

ہر گزرتے دن کے ساتھ مسلمان اور پاکستانی کا امیج دنیا بھر میں خراب سے خراب تر ہوتا جا رہا ہے۔میرے جیسے تارکین وطن پاکستانیوں کو بارہا سننا پڑتا ہے۔کہ تم پاکستانی لوگ بم باندھ کر اپنے آپ کو ہجوم میں اڑا دیتے ہو تم لوگ بہت عجیب اور خطر ناک ہو ہمارا یہ امیج ہما رے اپنے میڈیا کی بدولت ہے ہر چینل اپنی ریٹنگ بڑھانے کے لیے دوسر ے چینل سے بڑھ چڑھ کر پل ،پل کی خبر دے رہا ہوتا ہے کو ئی اس پہلو پر غور نہیں کر تا کہ اس کا دوسرے ممالک اورخود ہماری عوام پر کیااثر ہو رہا ہے افسوس از افسو س ہما ری حکومت اور متعلقہ ادارے بھی اس پہلو پرذرا بھر توجہ نہیں دے رہے You tube,Facebook,Twitter,اور دیگر سوشل میڈیا پر ہر لمحہ گزرتے ہمارا امیج خراب سے خراب تر ہو تا جا رہا ہے ہما رے باب اقتدار اور امراء اپنے بچوں کے پیٹ میں جاتے ہوتے وٹامن کا تو بہت خیال کرتے ہیں مگر پاکستانی عوام کے ذہنوں میں اور دیگر ممالک کے لوگوں کے ذہنوں میں مسلمان اور پاکستان کیا امیج جا رہا ہے اس کا ذرہ بھر خیا ل نہیں کرتے۔

(جاری ہے)


کوئی اس بات پر غور نہیں کر رہا کہ یا اس بات پہ غور نہیں کرنا چاہتا کہ اے دنیا والو!ہر دھماکے میں خواہ وہ خود کش ہو یا ریمورٹ کنٹرول مر تا تو صرف مسلمان اور پاکستانی ہی ہے۔جو بچ جاتا ہے یا وہ اپنا کوئی جسم کا کوئی حصہ ناکارہ کروا بیٹھا ہے یا عمر بھر کے لیے مکمل معذور ہو جاتا ہے اے دنیا کے ایوانو ں سنو وہ مرنے والا،وہ بہرہ ہونے والا،وہ آندھا ہونے والا،وہ لنگڑا ہونے والا ،وہ عمر بھر کے لیے مکمل معزور ہونے والا صرف اور صرف مسلمان اور پاکستانی ہے۔

پھر برا بھی مسلمان اور پاکستانی کیوں؟ کیا یہ ظلم کی انتہا نہیں کہ مر ے بھی مسلمان اور پاکستانی اور پابندیاں بھی مسلمان اور پاکستانی پر لگیں ۔امیج بھی اس بیچارے کا ہی خراب ہے۔ہونا یہ چایئے تھا کہ تمام اقوام عالم اس کی داد رسی کریں الٹا اس کو ہی برا بھلا کہا جا رہا ہے۔یہ کہا ں کا انصاف ہے اور کہا ں کا قانون ہے۔
میں بھی مسلمان اور پاکستانی ہوں۔

میں جب اپنی اہلیہ کے ہمراہ لندن آیا۔میرے بیٹے کی پیدائش پر لندن ہسپتال کی انتظامیہ نے ایک فارم میری اہلیہ کو تھما دیا اور کہا کہ اس پر سائن کریں آپکو گورنمنٹ کی طرف سے فنڈز مل جائینگے میں نے باوجود نوکر ی نہ ہونے کی اپنی اہلیہ سے کہا کہ ہمارے Visa Status پر لکھا ہوا ہے کہNo Recourse To Public Fundsتو ہم یہ فنڈز نہیں لینگے ۔باوجود سٹاف کے اصرار پر نہ ہم نے وہ فنڈز لیے اور نہ ہی بچے کو ملنے والے فنڈزلیے ۔

اے اقوام عالم دیکھو میں بھی مسلمان اور پاکستانی ہوں مجھے دیکھو میر ے کردار کو دیکھو ۔
لندن سے یورپ شفٹ ہونے پر مجھے ان یورپین لوگوں سے بھی کام کرنے کا اتفاق ہوا ہے میں نے ان لوگوں کو بہت قریب سے دیکھا ہے ایک بلڈنگ میں اپنے اہل خانہ کے ساتھ رہ رہا تھا کہ بلڈنگ کی اک مشین ایک یورپین Marlenaنامی لڑکی نے خراب کر دی اور ہمسائے میں رہنے والے ایک بوڑھے نے میر ی فیملی پر الزام لگا دیا (باوجود اس کے کہ میں اس کی بلیوں کے لیے خوراک کا تحفہ لایاجو کہ اس نے واپس کر دیا اوروقتا ً فوقتاًاس کی کوئی نہ کوئی مددکرتا رہتا )۔

میں نے Landlord Building کو اپنے گھر بلایا اور کہا کہ میں محسوس کر رہا ہوں کہ تم سمجھتی ہو کہ یہ مشین ہماری فیملی نے خراب کی ہے۔تو وہ کہنے لگی مجھے اس بوڑھے آدمی نے بتایا تھا۔میں نے کہا کہ Marlena نامی لڑکی سے خراب ہو ئی ہے اگر میری فیملی سے خراب ہوتی تو میں خود بتادیتا اور تم کو نئی مشین لا دیتا اسی گفتگو کے دوران Marlena نامی لڑکی بھی آ گئی اور Building landlord کے پو چھنے پر اس نے بتا دیا کہ مشین اسی سے خراب ہوئی تھی۔

میں نے Building landlordسے کہا کہ میں جب بھی تمہاری بلڈنگ خالی کر وں گا تم کو بلا لوں گا اور اگر کوئی چیز خراب ہو ئی تو تم کو ٹھیک کروا دوں گا یا نئی لا دوں گا میں ایک مسلما ن اور پاکستانی ہوں اور یہ بلکل نہیں چاہتا کہ میرے یہاں سے جانے کے بعدکوئی کہے کہ فلاں مسلمان اور پاکستانی نے کچھ غلط کر دیا۔جبکہ تم یہ دیکھ چکی ہو کہ میں سچ کہ رہا تھا ۔


یورپ کے شاپنگ مال بہت بڑے ہو تے ہیں وہا ں پر روزانہ کا Footfall کم از کم10سے15 ہزار تک کا ہو تاہے میں اگر کسی شاپ پر گیا اور کوئی چیزاٹھائی اورپسند نہ آئی تو واپس جا کر اسی جگہ پر رکھ دی بیشک مجھے اس کے لیے 2سے 3منٹ کی واک کیوں نہ کرنی پڑے جبکہ یہ یورپین شاپ پر جا کر اس کا حلیہ بگاڑ دیتے ہیں ۔جو مسلما ن اور پاکستانی ایک شاپ میں ذرا برابر بگاڑ پسند نہیں کرتا وہ کیسے بے گناہ انسانوں کا قتل کر سکتا ہے۔


یورپ میں کبوتروں کی بہتات ہے گاڑی چلاتے وقت اگر کوئی کبوتر سٹرک پر آگیا تو میں گاڑی روک دیتا ہوں یا ٹریفک کی صورت میں گاڑی کو جھٹکے سے آہستہ کر لیتا ہوں تاکہ کبوتر اڑ جائے اور میں گاڑی آگے لے جاؤں۔دیکھو اقوام عالم اور غور کرو جو مسلمان اور پاکستانی ایک کبوتر کیلئے ایسا کر تا ہے وہ کیسے معصوم اور بے گناہ لوگوں کی جان لے سکتا ہے۔


پچھلے دنوں ایک خبر سوشل میڈیا پر دیکھی کہ ایک یوپین یا برطانوی (ملک کا نام یاد نہیں)بھکاری (جو کہ عموماً شرابی لوگ ہی ہوتے ہیں )نے دیانتداری کی مثال قائم کر دی اور گمشدہ بٹوا اس کے مالک کو واپس کر دیا ۔یورپ یا برطانیہ کا بھکاری (جو کہ عموماًشرابی ہی ہوتے ہیں) اگر شراب پی کر گر جائے تو 5سے 10 منٹ میں ہسپتال انتظامیہ اسی جگہ پہنچ کر اسے فوری طبی امداددیتی ہے اور اگر ہسپتا ل لے جانا مقصود ہو تو ہسپتال لے جاتی ہے اس سے کوئی پیسے نہیں لیے جانے بلکہ اس کے مکمل صحت یاب ہونے تک اسے ہسپتال میں رکھا جاتا ہے اور بھی بہت سی سہولتیں اس بھکاری کو میسر ہوتی ہیں مثلاً کھانے کا ساما ن اور رہنے کی جگہ وغیرہ ۔


اس بھکار ی کا توخوب چرچہ ہو رہا ہے اب ذرا اس دوسرے واقعہ کو بھی سُن لیجئے کچھ دنوں پہلے ایک پاکستانی مسلمان پولیس آفیسر کی دیانت داری کی خبر چھوٹی سی سرخی کی صورت میں پڑھنے کا اتفاق ہواکہ پشاور کے ایک پولیس آفیسر نے پیسوں سے بھرا بریف کیس سڑک سے ملنے پر جو کہ کافی دنوں سے غائب تھا متعلقہ ادارے کو پہنچا دیا یہ خبر تھی جو کہ اصل میں دیانتداری کی مثال ہے وہ کیسے ذرا غور کیجئے !میں کچھ عرصہ ہائی وے پٹرولنگ پولیس کا حصہ رہا ہوں اور مجھے کا فی قریب سے پاکستانی پولیس کے محکمے کو دیکھنے کا موقعہ ملا ہے اور میرے کافی دوست ابھی بھی اس محکمے اور دیگر پولیس کے اداروں سے وابستہ ہیں لہذامجھے باخوبی پولیس محکمے کے مسائل کا ادراک ہے اگر آپ پاکستانی پولیس میں ہیں اور آپ کو کوئی حادثہ پیش آگیا ہے تو علاج سول ہسپتال میں ہو گا (جس کی سہولتوں کا آپ سب کو بخوبی اندازہ ہے)وہ بھی کافی منت سماجت اور کوشش کے بعد ،مرنے پر کوئی پنشن نہیں ،ریٹائر منٹ پر کوئی علاج کی سہولت نہیں، نہ ہی کوئی میڈیکل آلاؤنس ،مرنے پر آپ کے خاندان کو صرف دکھے ملتے ہیں۔

ان دونوں واقعات کو سننے کے بعد اے اقوام عالم اور اے ایوان عالم خود ہی فیصلہ کرو کہ دیانت دار کو ن ہے اگر تم صحیح معنوں میں فیصلہ کروگے تو یقینا دیانتداریہی مسلمان اور پاکستانی پولیس آفیسر (میں سلیوٹ کرتا ہوں ایسے آفیسر کو )ہو گا۔
وہ پولیس آفیسر جس کو نہ چھٹی ملتی ہے ،نہ پنشن ملتی ہے ،نہ ہی میڈیکل ملتا ہے اور نہ ہی مرنے پر خاندان کی کفالت کی گارنٹی ملتی ہے وہ ہے اصل میں دیانتدار ۔

مگر افسوس از افسوس ہمارے میڈیا نے آدم خور بھائیوں کو تو میڈ یا میں Highlight کیا اور سوشل میڈیا تک مسلمان اور پاکستان کی بدنامی کے لیے پہنچا دیا مگر اس دیانتدار مسلمان اور پاکستانی پولیس آفیسر کو کسی میڈیا چینل نے خاطر خواہ کوریج نہیں دی ۔میں پشاور کے خادم اعلی سے درخواست کرتا ہوں کہ اس پولیس آفیسر کو میڈیا ،سوشل میڈیا اور پرنٹ میڈیا پر لائیں اور تمام اقوام عالم کو یہ بتائیں ۔

یہ ہے دیانتداری جو بھوک میں ہو ، افلاس میں ہو ۔بغیر پانی ،بجلی،آٹے ،چینی اور پٹرول والے ملک میں ہو۔اے اقوام عالم سنو! یہ ہے ایک مسلمان اور پاکستانی ۔ہمارا دین وہ ہے جو کہتا ہے کہ اپنے لفظوں سے بھی کسی کی دل آزاری نہ کرو تو یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک مسلمان اور پاکستانی کسی معصوم کی جان لے اسلام سلامتی کا درس دیتا ہے آؤ پہلے اسلام کو سمجھو پھر ہمیں برُا کہنا ۔

اے اقوام عالم ،اے ایوانِ عالم ذرّا سنو!
مارا جاتا ہے مجھے لوٹاجاتا ہے مجھے
اور الزام بھی مجھ پہ ہی لگایا جاتا ہے
مقتول بھی ہوں اور قاتل بھی ہوں
ایسا انصاف کا کٹہیرا لگایا جاتا ہے
بتا اے ایوانِ عالم یہ ظلم نہیں تو اور کیا ہے
سن ذرا یہ ظلم نہیں بلکہ ظلم کی انتہا ہے
اپنے مضمون کے اختتام پر امید کرتا ہوں کہ میڈیا صاحبان اور خود حکومت اس پہلو پر ضرور غور کرے گی کہ ہمیں اپنے مسائل دنیا کی نظر میں لانے ہیں اور اپنے امیج کو دنیا کی نظر میں Positive کرنا ہے نہ کہ Nagetive اگر اس کے لیے قانون سازی کی ضرورت ہے تو حکومت کو فوری قانون سازی کر نی چائیے ۔

اور ایوان عالم جو کہ انصاف کی بات کرتے ہیں نا چیز کے مضمون پر دھیان دیں گے۔کہ واقع ہی مسلما ن اور پاکستانی مظلوم ہیں۔
کسی ایک شخص یا گروہ کی وجہ سے ہم تمام اُمت مسلمہ اور پاکستان کو برا نہیں کہ سکتے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :