ماہِ رمضان ہے مگرماحول نہیں ہے

جمعرات 24 جولائی 2014

Nayyar Sadaf

نیئر صدف

غزہ کے گلی کوچے لاشوں سے لت پت گئے ہیں۔ مظلوم فلسطینییوں کا خون بے دریغ بہہ رہا ہے لیکن اسرائیل کے مظالم اورسفاک حکمرانوں کاہاتھ روکنے کے لئے اقوام متحدہ کی جانب سے کوئی نتیجہ خیز اقدام نہ کیاجارہاہے اور نہ مسلم ممالک کی تنظیم OIC حرکت میں آرہی ہے۔ غزہ میں خونریزی بند کرانے کے لئے کہیں سے صدابلند نہیں ہورہی۔ حالانکہ یہ وقت غزہ کے شہریوں کیلئے اٹھ کھڑے ہونے کاہے۔

اسرائیل کی جارحیت کامقابلہ فلسطین کے نوان ٹینکوں، میزائلوں کاسامنا پتھروں اورغلیلوں کے ساتھ کررہے ہیں جبکہ پاکستان کے نوجوان کے حالات ملاحظہ فرمائیں۔ پاکستان میں ماہِ رمضان ہے سخت گرمی ہے سحراورافطاربجلی کی لوڈشیڈنگ سے عوام پریشان ہے۔ گویاایسامحسوس ہوتاہے بجلی کی لوڈشیڈنگ کاعوام سے مذاق ہے۔

(جاری ہے)

اس سخت بے چین ماحول میں صبح کی سیر کے بہانے منزل مقصودپرجانے کے ارادے سے قدم گھر سے باہررکھا تو سڑک پر نوجوانوں کے عجیب و غریب انداز سے گھبراکردل کی دھڑکن نے نظروں سے سوال کیا۔

کیاہم اس وقت ایک اسلامی جمہوریہ پاکستان کی سرزمین پر موجود ہیں۔ کیاان نوجوانوں کو جو نماز کے نام پر گھر سے مسجد آئے مگرگھرجانے کی بجائے راہ چلتے افراد پر پتھر پھینک رہے ہیں۔تو کہیں نہرکاپانی پلاسٹک کے شاپر میں بھر کر چلتی موٹر سائیکلوں، آٹورکشہ پر گولے کی طرح پھینک کراپنے دل خوش کررہے ہیں ایسے ماحول میں دو ر دور تک پولیس کانام ونشان نظرنہیں آتا۔

ایک آدھا دن نظرآئی بھی تو اُسے شکایت کری توجواب آیا یہ لڑکے ہمارے کنٹرول سے باہرہیں۔ لہذاچند خواتین نے تنگ آکر اپنی مدد آپ کے تحت رنگے ہاتھوں 12تا 15سال کے لڑکوں کو اُن کی غلطی اور بے راہ روی پر سرزنش کی تو اگلی صبح انہی بچوں نے کھلے میدانوں میں سینکڑوں افراد کی موجودگی میں ان خواتین سے نازیبا حرکات کیں بلکہ بے ہودہ جملے، فقرے کسنے شروع کردئیے گویاباہمت خواتین نے نیک نصیحت اپنے لئے عذاب اوربدنامی کا سرٹیفکیٹ لے لیا۔

جناب بات اگریہاں ختم ہوجائے تو غنیمت تھی ہمارااسلامی معاشرہ اتنابے حس ہوچکاہے کہ جوچاہے کرو کوئی روک ٹوک نہیں باغ میں بیٹھ کر کھلے عام نوجوان جوڑا جوچاہے کرے۔ اُن کاحق سمجھ کر آنکھ بندکرلی جاتی ہے اگرکسی نے اعتراض کرلیا یا برہمی کا اظہارکردیا یااُن کے گھر والوں سے شکایت کرڈالی تو الٹااصلاح کرنے والا بدکار، فحاشہ، زناکارثابت کرنا اُس آوارہ گروپ کاایجنڈابن جاتا ہے۔

سوال یہ ہے کہ کیا یہ اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے۔ کیاایسے ماحول میں کوئی کسی کی اصلاح کاکس طرح سوچ سکتا ہے۔ یہ کیسی آوارگی ہے جو راہ چلتی عورتوں پر فحاشہ بنانے کا الزام بے دھڑک لگاکراپنے دوستوں میں اپنی شا ن بناتے ہوئے دوسروں کی پاک دہلیز کواپنی جھوٹی باتوں جھوٹی زبان سے داغدار اوربدنما کرنے میں کسر نہیں چھوڑتے۔ حیرت ہے ایسے بے راہ روی بچوں کے والدین پر جواپنے بچوں کے عیب جانتے ہوئے بھی سوپردوں میں چھپاکررکھنے کی خاطر اُن کی اصلاح کرنے والے پر اُلٹا فحاشی، بے غیرتی جیسے جملوں کی برسات کرکے ایک باعزت شخص کی ساری زندگی بھر کی کمائی کوچندلمحوں میں تار تار کرکے رکھ دیتے ہیں۔

آفرین ہے ایسے والدین پر اور ایسے آوارہ دوستوں پر جو دوسروں کی ما ں بہن بیٹیوں کو اپنی ہوس کی خواہش کاسامان سمجھتے ہیں اور اپنی ماں بہن بیٹیوں کی باری آنے پر قتل و غارت کا بازارگرم سے دریغ نہیں کرتے۔ آفرین ہے انتظامی اداروں پر جو حکومتی گاڑیوں کاپیٹرول گشت پر ضائع کرتے ہیں مگر موقع پر موجود نہیں ہوتے۔ گویاہرسوجنگل کاسماں ہے ، درندگی بے راہ روی کاعالم ہے۔

نہ رمضان کے تقدس کاخیال، نہ رشتوں کاخیال، نہ اپنے فرائض پوراکرنے کی فکر، ہرسوماہ رمضان کی صدابلندہورہی ہے مگر افسوس کہیں بھی رمضان کاماحول حکومتی سطح پر بنتا نظرنہیں آرہا۔ شاید ہم بھول گئے ہیں کہ اگر انسان بے حیاہوجائے تو اُس سے پھر خیر کی کوئی توقع رکھنا بے کار ہے لہذا ایسے گھمبیر حالات میں گزشتہ دنوں پانچ سوسے زائد علماء کا وزیراعظم کو 27رمضان المبارک میں ملک میں نظام مصطفی کے نفاظ کامطالبہ دل کی صدابن گیا تاکہ قیام پاکستان کے مقاصد پورے ہوسکیں اور ملک کو بحرانوں سے نکالاجاسکے۔

بلاشبہ نظام مصطفی ہی ملک کے ہرمسئلے کاحل ہے ۔ مگرحکومت تو پلوں ،سڑکوں سے آگے چل ہی نہیں رہی۔ غورکریں بلاشبہ ترقیاتی منصوبے بھی وقت کی اہم ضرورت ہیں مگربنیادی ضروریات اور اخلاقیاتی معاشرہ بھی ان منصوبوں سے کہیں زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :