لوگوں کی خوشحالی شاہراہوں سے وابستہ

پیر 22 ستمبر 2014

Shabbir Rakhshani

شبیر رخشانی

دھول اڑاتا ہوا یہ راستہ آواران سے تربت کے لئے نکلتا ہے جہاں ٹریفک کی بہت کم آمد ور رفت ہوتی ہے جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے یہ سڑک تربت اور ملحقہ علاقوں کے لئے کراچی اور کوئٹہ یا دیگر علاقوں تک عوامی سفر اور سامان کی ایمپورٹ اور ایکسپورٹ کے لئے بہت مشہور تھا۔ جہاں سے ایرانی اشیاء کو فروخت کرنے کے لئے وہاں کے بارڈرز سے ملحقہ علاقوں کے لوگ سامان کی ترسیل کا کام کیا کرتے تھے۔

اس شاہراہ پر مسافر اور مال بردار گایوں کی آمد و رفت کی وجہ سے نہ صرف یہ تربت بلکہ آواران کے عوام کے معیشت کا اہم مذریعہ سمجھا جاتا تھا۔ اس شاہراہ پرٹریفک کی روان دوانی کی وجہ سے ان علاقوں کے عوام کافی خوشحال تھے۔ انہیں نہ گورنمنٹ ملازمت کی ضرورت تھی اور نہ ہی پرائیوٹ اداروں سے منسلک ہونے کی۔

(جاری ہے)

جب بھی اس شاہراہ پر نظر پڑتی ہے تو مجھے میرا بچپن یاد آتا ہے جب اسی روڑ کی روان دوانی کی وجہ سے ہوٹل، پنکچر کی دکانیں اور کیبن پوری رات کھلے رہتے تھے مسافر اور مال بردار گاڑیاں رات کو انہی ہوٹلوں، دکانوں پر رکتے تھے ۔

بازاروں میں ایرانی سامان، تیل اور موٹرسائیکل کے پرزہ جات بارعایت داموں میں دستیاب تھے اور ایرانی موٹرسائیکل یاماہا لوگوں کی مخصوص سواری ہوا کرتے تھے۔ اور یہ سامان علاقے کے لوگوں کو پاکستانی اشیاء کی نسبت نہایت ہی سستے داموں مہیا ہوتے تھے۔ ایرانی ڈیزل ، پٹرول اور یوریا کے دستیاب ہونے کی وجہ سے علاقے کے لوگ اپنے زمینوں کو اچھے طریقے سے آباد کیا کرتے تھے۔

اور ٹرانسپورٹیشن کا واحد ذریعہ یہی شاہراہ تھی جسکا فاصلہ آواران سے تربت تک 230کلومیٹر ہے جو آواران سے ہوتا ہوا گیشکور، ڈنڈار، بیدرنگ، شاہرگ، ہوشاب ، تربت، مندتا ایرانی سرحد کو جاتا ہے۔ اور پھر ہوشاب سے ایک راستہ پنجگور کی طرف نکل جاتا ہے اگر یہ کہا جائے کہ ہوشاب آواران، کیچ اور پنجگور کو ملانے والی شاہراہ ہے تو بے جا نہیں ہوگا۔

اور اس وقت آواران کو ایک سینٹر کی حیثیت حاصل تھی۔ لیکن مشرف دور حکومت میں نہ صرف آواران کے عوام سے یہ زیادتی کی گئی کہ ان سے یہ آمد و رفت کا ذریعہ چھین لیا گیا اگر یہ کہا جائے کہ آواران سے اسکی ترقی چھین لی گئی تو بے جا نہیں ہوگا۔ جونہی مکران کوسٹل ہائی وے کی تعمیر کا کام مکمل ہو گیا تو تربت سے مسافر کوچز اور مال بردار گاڑیوں کا روٹ بھی تبدیل ہو گیا۔

اور آواران ٹو تربت روڑ ویران سا ہو گیا۔ جس سے اسی شاہراہ پر لوگوں کے روزگار کا اہم ذرائع ہوٹل، دکانیں، کیبن، پنکچر کی دکانیں بند ہو گئیں۔ اس اقدام سے علاقے کی معیشت پر بے حد اثر پڑگیا۔ مشرف دور حکومت میں ایک کام یہ بھی کیا جا سکتا تھا کہ کوسٹل ہائی وے کی تعمیر کے ساتھ ساتھ وہ آواران ٹو تربت روڑ کی تعمیرات کا کام شروع کرتے اور اس شاہراہ کا کام مکمل کرتے تو یقینا تربت ٹرانسپورٹرز اسی شاہراہ کو استعمال میں لاتے۔

لیکن یہ کام بھی نہیں کیا گیا۔ جس سے آواران نہ صرف ایک صدی پیچھے کی جانب چلا گیا۔ بلکہ اسکے ساتھ ساتھ یہاں کے عوام کے روزگار کے ذرائع اور کھیتی باڑی پر اثر پڑ گیا۔ اور وہی راستہ جسے تربت کے ٹرانسپورٹرز استعمال میں لا رہے تھے تو محکمہ بی اینڈ آر کی جانب سے اس شاہراہ کی خستہ حالی کو دور کرنے کے لئے روڑ کی مرمت کا کام کیا کرتے تھے لیکن جونہی آواران کا زمینی رابطہ تربت سے کٹ گیا تو نہ صرف حکومتی توجہ اس جانب سے ہٹ گیا بلکہ اسکے ساتھ ساتھ محکمہ بی اینڈ آر نے بھی اسکی جانب توجہ دینا مناسب نہیں سمجھا۔

اس سڑک کی ایک خوبی یہ بھی تھی کہ آواران کے لوگوں کو اس شاہراہ پر کسی بھی وقت سواری مل جاتی تھی اگر وہ تربت یا کراچی جانا چاہتے۔ البتہ جب گڈانی حادثے میں چالیس سے زائد افراد کے جھسلنے کا واقعہ جو روڑ ایکسیڈنٹ کی وجہ سے ہوا تھا جس سے تیل بردار گاڑیوں پر مکران کوسٹل ہائی وے سے تیل کی برآمدات پابندی لگ گئی ۔ جسکی وجہ سے تیل بردار گاڑیوں نے اپنا رخ ایک مرتبہ پھر آواران کے روٹ سے کیا جس سے کچھ مہینے علاقے کے لوگوں کو فائدہ پہنچنا شروع ہو گیا۔

جس سے ہوٹل، دکانیں پھر سے آباد ہو نا شروع ہو گئی تھیں لیکن چند مہینے گزرنے کے بعد پھر سے اس روٹ پر ان گاڑیوں کی آمدورفت معطل ہو گئی۔ علاقے کے وہ لوگ جنکے دلوں میں ایک مرتبہ پھر کاروبار شروع ہونے امید جاگ اٹھی تھی وہ ایک مرتبہ پھر بجھ سی گئی ۔
تربت ٹو آواران روڑ کی تعمیر جو آواران اور تربت کے عوام کے لئے ایک خوشحال تبدیلی کا ضامن بن سکتی ہے۔

وزیر اعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ جو خود ہی تربت سے تعلق رکھتے ہیں وہ علاقے کے مسائل کا دکھ درد سمجھ سکتے ہیں اور یقینا اس مسئلے کی ادراک وہ کر سکتے ہیں اگر وہ دوبارہ اس روڈ کی بحالی کے لئے اپنی تمام تر کوششیں بروئے کار لائیں کیونکہ اس سے نہ صرف آواران کے عوام کے لئے خوشحالی آسکتی ہے بلکہ اسکے ساتھ تربت کے عوام کو کراچی کا مسافت طے کرنے کے لئے زیادہ وقت بھی درکار نہیں ہوگا اور اسکے ساتھ ساتھ انکے روزمرہ زندگی میں ایک خوشگوار تبدیلی آسکتی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ موجودہ حکومت تربت اور آواران کے عوام کے دیرینہ مسئلے کو حل کرنے کے لئے اہم اقدامات اٹھائیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :