لاہور پولیس کامسجدمیں عدل و انصاف کی فراہمی کا پروجیکٹ

جمعرات 21 اگست 2014

Hafiz Zohaib Tayyab

حافظ ذوہیب طیب

اسلام میں مسجد کو عبادت،تعلیم و تربیت ،ثقافت و تہذیب و تمدن کے اعتبار سے مر کزی مقام حاصل رہا ہے بلکہ اگر یہ کہا جائے تو مناسب ہو گا کہ مسلمانوں کی تمام سر گر میوں کا مرکز و منبع مسجد ہی تھی ۔نبی رحمت ﷺ نے ہجرت فر مائی تو مدینہ سے باہر مسجد کی بنیاد رکھی جو سب سے پہلی مسجد ہے اور پھر مدینہ منورہ میں دوسری مسجد” مسجد نبوی ﷺ “بنائی۔

اس میں ایک دوسرے کے جان کے دشمنوں اور بر س ہا برس سے جہالت کی تاریکی میں پھنسے ہوئے لوگوں کے لئے دینی و دنیاوی تعلیمات کی شروعات کیں جس کے نتیجے میں ان میں علم و عرفان،تہذیب و تمدن ،اتحاد ویگانگت ،اجتماعیت،مساوات واخوت کے جذبات پروان چڑھنا شروع ہوئے ،معاشرہ روز بروز منور ہو تا چلا گیااورایک ایسی غیر فانی اسلامی تہذیب وجود میں آئی کہ اس کے نقوش رہتی دنیا تک باقی رہیں گے۔

(جاری ہے)


مسجد کی یہ حیثیت نبی رحمت ﷺ کے زمانے سے لیکر صدیوں بعد تک قائم رہی ۔اسلام کے مثالی دور میں مسجد ہی عدل و انصاف کا مرکز تھی ۔ خود نبی رحمت ﷺ ،خلفائے راشدین اور ان کے تمام حکام مسجد میں ہی بیٹھ کر لوگوں کے معاملات کو سنتے اور یہاں ہی عدل و انصاف کے پیمانوں کے مطابق فیصلے صادر کرتے تھے۔
تاریخ گواہ ہے کہ جب تک مسجد کا یہ مقام باقی رہا امت مسلمہ امت واحدہ کی حیثیت سے اپنا فریضہ احسن طریقے سے سرانجام دیتی رہی لیکن جب یہ رشتہ کمزور ہوا اور اجتماعی زندگی کی مرکزیت مسجد سے منتقل ہو کر دوسری سمتوں اور مرکزوں میں چلی گئی تو امت دین سے دور ہو کر ملی وحدت سے کٹ کر انتشارکا شکار ہو گئی۔

دور حاضر میں ہماری اجتماعی زندگی کا شیرازہ بکھر چکا ہے جو امت کے لئے زہر قاتل ثابت ہو رہا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ امت واحدہ قرار دئے جانے والی امت اب مختلف فرقوں ،
گروہو ں اور گروپوں میں تقسیم ہو چکی ہے۔ہمارا معاشرہ بگاڑ ،انتشاراور خلفشار کا بھیانک نمونہ پیش کر رہا ہے ۔بے چینی ،بد امنی،بے سکونی ،وحشت و دہشت گردی عام ہے۔قتل و غارت ،ڈاکہ زنہ،رہزنی ،بددیانتی ،بد عہدی،رشوت خوری،دھوکہ دہی،ملاوٹ،جھوٹ اور فریب کا دور دورا ہے۔

ان عذابوں سے نجات حاصل کر نے کے لئے ایسے اقدامات کی ضرورت ہے جو قرون اولیٰ میں کئے گئے تھے کہ جن کی بدولت معاشرہ امن وسکون،محبت و آشتی،اور خوشحالی کا ایسا بے مثال نمونہ بن کے ابھرا تھا کہ یمن کے دار الخلافہ صنعا ء سے ایک اکیلی عورت حج کے لئے تما م زیب و زینت اور زیوارت پہن کر چلتی ہے تو مکہ تک کسی شخص کو اس کی طرف نظر اُٹھانے کی ہمت نہ ہوتی تھی۔

آج درد دل رکھنے والے امت مسلمہ کے ہر فرد میں یہ تڑپ اورخواہش مو جود ہے کہ مایوسیوں اور نا امیدیوں کی وجہ سے ہر جانب منحو سیت چھائے ہو ئے ان حالات میں ایک دفعہ پھر قرون اولیٰ کا با برکت اور خیر سے بھر پور امن و امان والا ماحول میسر آسکے۔
قارئین !اس ماحول کو پروان چڑھانے اور مسجد سے لوگوں کے تعلق کو جوڑنے کے لئے لا ہور پولیس کے ڈی، آئی،جی آپریشن نے مسجدوں میں کھلی کچہریوں کا اہتما م کر کے مو قع پر ہی لوگوں کے لڑائی جھگڑوں اور دوسرے معاملات جن کی وجہ سے معاشرہ انتشار کی جانب بڑھ رہا ہے کو عدل وانصاف کے تقاضوں کو مد نظر رکھتے ہوئے حل کرنے کا ”نسخہ کیمیا“تشکیل دیا ہے جس کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے۔

ڈاکٹر حیدر اشرف کا تعلق پولیس کے ان چند پولیس افسران میں ہوتا ہے جن کا اس ادارے میں قحط پڑتا جا رہا ہے اور جنہیں تلاش کرنے کے لئے دیکھنے والی آنکھ اور دور بین کی ضرورت ہو تی ہے۔ فیصل آباد میں پولیس کے چیف ہونے کے ناطے انہوں نے امن و امان کو قائم رکھنے اور دہشت و وحشت کا بازار گرم رکھنے والے مافیاز کے خلاف جس طور پر کاروائی کی ہے وہ بھی قابل تحسین ہے۔

تھانوں سمیت پولیس ریکارڈ کو کمپیوٹرائزد کرنے،خصوصی ہاٹ لائن کے ذریعے چوبیس گھنٹے عوام کی شکایات کو سن کر فوری ان کی داد رسی کر نا ان کا خاصہ ہے۔ڈاکٹر صاحب میرٹ کو مقدم جانتے ، عوام کو صبح سے شام اپنے دفتر میں دستیاب ہو نے ،پولیس اور عوام کے درمیان نفرتوں کی دیوار کو منہدم کر نے سمیت انقلابی وژن رکھنے والے شخص ہیں ۔
قارئین کرام !امید کی جا سکتی ہے کہ ڈاکٹر حیدر اشرف کے مسجدوں میں عدل و انصاف کی فراہمی والے اس پروجیکٹ کے ثمرات بہت جلد معاشرے میں دیکھنے کو ملیں گے ۔

کیونکہ اس بات میں کسی بھی قسم کا کوئی شک نہیں ہے کہ اسلامی معاشرے کی بہتری میں مساجد کا کردار نمایاں اور عیاں ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ آج کے اس پُر فتن دور میں ہمیں اصلاح معاشرہ اور عدل و انصاف کی فراہمی کے لئے مسجد کے کردار کو پھر سے فعال بنانا ہو گااور انہی خطوط پر عمل پیرا ہو نا پڑے گا جنہیں اپنا کر عرب کے بُدودنیا کے امام و رہبر بن گئے تھے۔ اللہ کرے ایسا ہو جائے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :