کوئی ان سے سیکھے !

پیر 22 دسمبر 2014

Muhammad Irfan Nadeem

محمد عرفان ندیم

قوت فیصلہ،سنجیدگی اور حکمرانی کے فن کوئی پاکستانی حکمرانوں سے سیکھے ۔
ساری دنیا جا نتی ہے امریکہ نے جاپان پر ایٹم بم گرائے تھے لیکن بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ ایٹم بم گرانے کامشکل فیصلہ چند لمحوں میں ہو گیا تھا ۔ 6دسمبر 1941تک امریکہ دوسری جنگ عظیم سے لاتعلق دنیا کے ایک کونے میں بیٹھا تماشہ دیکھ رہا تھا لیکن 7دسمبرکے ایک فیصلے نے امریکہ کودوسری جنگ عظیم کا سب سے بڑا فریق بنا دیاتھا ۔

جاپان اور جرمنی کی فوجیں تباہی مچاتی آگے بڑ ھ رہی تھیں ، جاپان کو اگر خطرہ تھا تو صرف جزیرہ ہوائی میں موجود امریکی بحریہ سے ، جاپان کی نیوی نے اس خطرے سے نمٹنے کا بھی فیصلہ کر لیا ، جاپانیوں کا خیال تھا اگر وہ جاپان کے پہلو میں موجود امریکی بحریہ کو تباہ کر دیتے ہیں تو دنیا کی کوئی طاقت اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکے گی اور امریکی فضائیہ کے لیئے ناممکن ہو گا کہ وہ اتنی دور سے آ کر جاپان پر حملہ کرے ، پرل ہاربر پر حملہ ہوا ،امریکہ کے چھ بحری جہاز، 188جنگی طیارے اور 2400امریکی فوجی ہلاک ہوگئے۔

(جاری ہے)

امریکہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ کوئی ملک اس کی ساری فضائیہ کو تباہ کر سکتا ہے ،یہ امریکہ کی انا کا مسئلہ تھا ،یہ اس کے قومی وقار اور اس کی عزت پر حملہ تھا اس لیئے اگلے ہی لمحے امریکہ جنگ عظیم دوئم کا سب سے بڑا فریق بن کر جنگ میں کود چکا تھا۔ امریکہ نے اپنی انا کی تسکین کے لیئے انسانی تاریخ کے سب سے مہلک ہتھیار استعمال کیئے اور اسے کوئی پچھتاوا بھی نہیں تھا ، کیوں کہ اس نے اپنی انا کا بدلہ لیا تھا ، لاکھوں جاپانی موت کی گود میں چلے گئے ، لاکھوں معذور اور بے گھر ہوئے ، ہیرو شیما اور ناگا ساکی دنیا کے لیئے نشان عبرت بنا دیئے گئے ، یہ وہ فیصلہ تھا جو چند لمحوں میں کیا گیا اور اس فیصلے نے ساری دنیا پر امریکہ کا رعب جما دیا تھا۔

امریکیوں نے اسی طرح کا فیصلہ ایبٹ آباد آپریشن کے وقت بھی کیا تھا ، امریکی انتظامیہ کشمکش کا شکا رتھی کہ پاکستان کے اندر گھس کر حملہ کیا جائے یا نہیں ، پاکستان کو اعتماد میں لیا جائے یا خود ہی ساری کاروائی کو ہینڈل کیا جائے ،لیکن امریکیوں نے ایک بار پھر ثابت کر دیا کہ وہ بر وقت فیصلہ کر نے کی صلاحیت رکھتے ہیں ۔
یہ سب چھوڑیں پڑوسی ملک ایران سے ہی کچھ سیکھ لیں ، سب کچھ ریکارڈ پر موجود ہے ، آپ پچھلے دو تین ماہ کے اخبارات نکال کر دیکھ لیں ، ایرانی فورسز نے پاکستانی علا قوں میں گھس کر اپنے ہدف کو نشانہ بنایا تھا ، حقیقت کیا تھی ایک لمحے کے لیئے اسے سائیڈ پے رکھ دیں ، صرف قوت فیصلہ دیکھیں ، اپنے شہریوں کی عزت اور ان کا حسا ب بے باک کرنے کا انداز دیکھیں ، کبھی ہمیں بھی توفیق ہوئی افغانستان سے گھس کر پاکستانی فورسز پر حملہ کرنے والوں کا تعا قب کریں ؟ کبھی کسی نے ڈرون گرانے کا سوچا ؟ کبھی کسی نے بھارتی جارحیت کا موٴثر جواب دیا؟ عوام کی اہمیت ہی کیا ہے ، کیڑے مکوڑے ہیں مرنے دو ۔

اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ ڈرون حملے میں کتنی معصوم جانیں ضائع ہوئیں ؟ کیا فرق پڑتا ہے اگر دو چار فوجی جوان شہید ہوگئے؟کیا فرق پڑتا ہے کہیں بم بلاسٹ سے پچاس ساٹھ ماوٴں کی گودیں اجڑ گئیں ؟ہمارے حکمران اشاروں کے پابند ہیں ،جہاں سے جو اشارہ ملے گا صرف اسی کے مطابق چلنا ہے ۔ قوت فیصلہ تو کب کی ختم ہو چکی ہے ، غیرت کو تیمور کے گھر سے رخصت ہوئے زمانے بیت گئے ۔

نہ عزت ، نہ غیرت ، نہ قوت فیصلہ اور بنے پھرتے ہیں حکمران۔ دنیا کی نوویں سپر پاور اور ساتویں ایٹمی طاقت کے حکمران۔ جو فون بھی وضو کر کے سنتے ہوں ان سے آپ کیا امید کر سکتے ہیں ۔آپ پشاور سانحے کو دیکھ لیں ،سکول پر حملہ کرنے والے تمام دہشت گرد اپنے پچھلوں کے ساتھ مسلسل رابطے میں تھے، انہیں افغانستان کے علاقے کنڑ سے کنٹرول کیا جا رہا تھا اور وہاں سے مسلسل ہدایات یاری ہو رہی تھیں ، ایک حملہ آور کہتا ہے ”سب بچوں کو مار دیا آگے کیا کرنا ہے “ دوسری طرف سے ہدایات جاری ہوتی ہیں ” بچوں کے والدین کا نام پوچھ کر انہیں نشانہ بناوٴ“ ۔

یہ ساری گفتگو خفیہ ایجنسیوں کے پاس ریکارڈ ہے،۔ دہشت گرد صبح ساڑھے دس بجے اسکول میں داخل ہو ئے تھے اور گیارہ بجے تک ہماری ایجنسیوں کو پتا چل چکا تھا کہ دہشت گردوں کو کہاں سے کنٹرول کیا جا رہا ہے ۔ اگر قوت فیصلہ ہوتی اور حکمرانوں میں ذرا سی جرائت ہو تی تو ان سارے فسادیوں کو بروقت ختم کیا جا سکتا تھا لیکن اتنی ہمت کرے کون۔ آخر پانچ سال بھی تو پورے کرنے ہیں اورمرنے والے کون سا ہمارے بچے ہیں جو اتنی عجلت سے کام لیا جائے۔

ذیادہ سے ذیادہ یہی کرنا تھا نہ کہ اشرف غنی اور ایساف کمانڈر کو اعتماد میں لے کر ہدف کو نشانہ بنا یا جا سکتا تھا ، صرف دو منٹ کی کال کرنی تھی اور ہدف ہاتھ میں تھا لیکن پھر وہی بات ہے بچے کون سا اپنے تھے اور غیرت و حمیت تو بات ہی فضول ہے۔ اگر ایکشن لیا بھی تو چوبیس گھنٹے بعد ، جنرل راحیل گئے بھی تو صرف مطا لبہ کر کے آ گئے ۔ افغانی بھی اب کافی چالاک ہو گئے ہیں اگلے ہی روز اشرف غنی کے مشیر نے بیان بدل ڈالا کہ آرمی چیف نے ملا فضل اللہ کی حوالگی کا مطالبہ نہیں کیا ، وہ بھی اب جان گئے ہیں دو دن کا رولا ہے پھر سب رام رام۔

جب دہشت گردوں کے ٹھکانے کا علم ہو چکا تھا تو اشرف غنی کو سیدھا کیوں نہیں کہا ہدف فلاں جگہ پر موجود ہے اسے نشانہ بناوٴ ورنہ ہم آ رہے ہیں،ابھی اور اسی وقت۔اب ان کو پھانسیاں یا د آئی ہیں ، اسلامی نظریاتی کونسل روتی رہی کہ اس سزا کو بحال کرو لیکن یورپی یونین سے ڈالر بھی تو لینے تھے، اگر سزائے موت بحال ہو جاتی تو جی ایس پی پلس کا اسٹیٹس منسوخ ہو جاتا ، چلو تم اس جی ایس پی پلس کو گلے میں ڈال لو سزائے موت جا ئے بھاڑ میں۔

چلو اچھا ہوا ابھی بحال ہوئی ، تم ان کو پھانسیاں دو وہ تمہارے بندوں کو دیں گے، وہ شہباز تاثیر اور گیلانی کے بیٹے کو سولی پے لٹکائیں گے ، کم از کم اس سے ان کو اتنا تو احساس ہو جائے گا کہ بیٹو ں کی قربانی کیسے دی جاتی ہے ۔اور حد تو یہ ہے کہ انہیں اب بھی شرم نہیں آئی ،یہ اب بھی ٹاک شوز میں بیٹھ کر دندیا ں نکال رہے ہیں ، انہیں اب بھی احساس نہیں ہواکہ مرحوم بچوں کے والدین کو تسلی کیسے دینی ہے، یہ اب بھی منرل واٹر کی بوتلیں پی کر پریس کانفرنسیں کر رہے ہیں ۔

کچھ دنوں کے لیئے چہروں پر سنجیدگی کے غلاف چڑھیں گے ،بیان بازی کا مقابلہ ہو گا ، کمیٹیاں بنیں گی اور چار دن کے بعد سب کھو کھاتے۔ کون جانے او ر کس کو پتا کتے بچے مرے تھے اور کس کس ماں کی گود اجڑی تھی۔ یہ کوئی پہلا واقعہ ہے ، یہ کو ئی پہلی دفعہ بچے مرے ہیں ، 13سالوں سے مائیں رو رہی ہیں لیکن ان کو کیا ، ان کے بچے تو لندن، پیرس اور نیو یارک میں موجیں منا رہے ہیں ۔

آ جا کے نیکٹا کا ایک ادارہ بنایا تھا وہ بھی پیدائش سے قبل وفات پا گیا ، جون میں کراچی ایئر پورٹ پر حملہ ہوا تو ان کی آنکھیں کھلی ، نیکٹا کو دوبارہ قبر سے اٹھا لائے، بورڈ آف گورنر بنا لیکن چھ ماہ کزرنے کے باوجود اس کا ایک اجلاس بھی نہیں ہو ا۔ کیا کمال ہے ، کون سا کسی نے پوچھ لینا ،اٹھارہ کرو ڑ بھیڑ بکریاں ہیں چلنے دو سب ۔اب ایک بات عوام کو بھی جان لینی چاہئے ، طالبان طالبان طالبان ، کیا ہے سب ، اب طالبان صرف وہی ہیں جو افغانستان میں برسر پیکار ہیں باقی اب پاکستان میں جو بھی کاروائی کرے گا یا کر رہا ہے وہ ظالمان، را اور موساد کا ایجنٹ تو ہو سکتا ہے طالبان نہیں ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :