خدارا بس کیجیے

جمعرات 17 اپریل 2014

Hafiz Muhammad Faisal Khalid

حافظ محمد فیصل خالد

دورِ حاضر میں پاکستان درِ پیش مسائل میں دہشتگردی سب سے اہم مسئلہ ہے۔ سابقہ حکومتوں کی طرح موجودہ حکومت نے بھی طالبان نامی بلا سے مذکرات کا بیٹرا اٹھایا تا کہ ملک میں امن و سلامتی کو یقینی بنایا جائے اور عام عام آدمی کو جان و مال کا مکمل تحفظ فراہم کیا جائے۔ اسی سلسلہ میں حکومت نے طالبان سے مذاکرات کا عمل شروع کیا جس کے بعد دونوں اطراف سے مثبت جواب ملنے کے بعد دونوں اطراف سے مذاکرات کے لیے وفود کا اعلان کیا گیا۔

اس موقع پر طالبان نے پاکستان میں اپنی سر گرمیاں معطل کرنے کااعلان کیا جبکہ حکومت سے طالبان کے چند اہم اراکین کی رہائی کا مطالبہ کیا۔ مذکراتی عمل مثبت انداز میں جا رہا ہے، مگر اس مذکراتی عمل کو پہلا جھٹکا اس وقت لگا جب طالبان کی طرف سے پاکستان کی حدود میں کوئی بھی کارروائی نہ کرنے کی یقین دہانی کروانے کے بعد اسلام آباد جیسے شہر میں دہشتگردی کے واقعات پیش آئے جن کے نتیجہ میں کوئی قیمتی جانہیں لقمہ اجل بن گئیں جبکہ تحریک طالبان پاکستان نے ان حملوں سے مکمل طور پر تا تعلقی کا اظہار کرتے ہوئے ایسے حملوں کوبزدلانہ کارروائی سے تعبیر کیا۔

(جاری ہے)

ان حملوں کے فوراً بعد یونائیڈ بلوچ آرمی نامی ایک تنظیم نے ان حملوں کی ذمہ داری قبول کی مگر خفیہ اداروں کی مصدقہ رپورٹ کے مطابق ان حملوں میں کوئی اور تنظیم ملوث ہے جس کا نام صیغہ راز میں رکھا گیا ہے۔ اب حیران کن بات یہ ہے کہ جب طالبان دہشتگردانہ سرگرمیاں بند کرنے کا اعلان کرچکے ہیں تو آخر کار وہ کونسی طاقتیں ہیں جو پاک سر زمین میں امن کے لیے کی جانے والی ہر کاوش کو ناکام کرنے کے لیے سر گرمِ عمل ہیں؟ آخر وہ کونسی ایسی طاقتیں ہیں جو پاکستان میں قیامِ امن کو برداشت نہیں کر سکتی؟ شاہد یہ وہ سوالات ہیں جو اس صورتحال میں ہر آدمی کے دل میں کانٹے کی طرح چبھ رہے ہیں۔

لیکن یاد رہے کہ یہ معاملہ کوئی پہلی مرتبہ پیش نہیں آیا بلکہ جب بھی پاکستان حکومت نے طالبان سے مذکراتی عمل شروع کیا تو ہمیشہ امریکہ یاہندوستان کی جانب سے اس مذاکراتی عمل کو متاثر کر دیاگیا۔ کیونکہ مذاکرات کی کامیابی ان کے مفاد میں نہیں۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان میں پڑوسی ملک ہندوستان کے خفیہ ادارے اس سر زمین کو غیر مستحکم کرنے کے لیے عرصہ دراز سے سر گرم عمل ہیں۔

اور بلا شبہ ایسی بزدلانہ کارروائیوں میں ہندوستان براہ راست ملوث ہے اور ہمارے ہی اپنوں کو ہمارے خلاف استعمال کر رہا ہے۔ اپنی کئی تحاریر میں التماس کر چکا ہوں کہ خدارا پاکستان میں بڑھتی ہوئی ہندوستانی مداخلت کو روکیں اور پاک سر زمین کی بربادی کا باعث بننے والے کرداروں کو کیفرِ کردار تک پہنچا کر نشانِ عبرت بنائیں تا کہ آئندہ کبھی کسی کو جرأت نہ ہو کہ وہ پاک سر زمین کے بارے میں ناپاک عزائم رکھے۔

لیکن حکومت پاکستان کو شاید بھارت سے تعلقات قومی مفادات سے زیادہ عزیز ہیں۔ نہ جانے وہ کونسی ایسی وجہ ہے جو پاکستان کے حکمرانوں کو بھارت کے عشق سے نہیں نکلنے دیتی۔ کیوں بھارتی منفی رویے کے باوجود ہندوستان سے اچھے تعلقات کی یکطرفہ بھیک مانگی جا رہی ہے؟ کیوں قومی سلامتی اور غیرت کو داؤ پر لگایا جا رہا ہے؟ ان سوالوں کا جواب یا تو حکومت دینا نہیں چاہتی یا پھر شاید حکومت کو بھارت سے تجارتی تعلقات قومی مفادات سے بھی زیادہ عزیز ہیں۔

خدا کے لیے بس کیجیے اور بھیک کا کشکول توڑ کر بھارت اور دیگر قوتوں سے برابری کی سطح پر تعلقات کے فروغ کو یقینی بنائیں۔ تا کہ توازن قائم ہو سکے اور وزیر اعظم اور ان کی کابینہ مہربانی فرما کر اپنے ذاتی مفادات پر قومی مفادات کو ترجیح دیں اور بھارت کو اس کی بدمعاشی کا منہ توڑ جواب دیتے ہوئے بھارت کے غلیظ چہرے کو عالمی سطح پر بے نقاب کریں اوربھارت کے ساتھ اچھے تعلقات کو برابری سے مشروط کریں اور پاکستان میں ہونے والی بھارتی سرگرمیوں کا سختی سے نوٹس لیتے ہوئے ان عناصر کے خلاف ایک واضح حکمتِ عملی وضع کریں جو ملک و قوم کو اس لعنت سے چھٹکارہ دلوائیں اور بھارت کو خبردار کریں کہ وہ خطے قیام امن کے لیے اپنی دہشتگردانہ کارروائیاں بندکرے ورنہ ایسا نہ ہو بھارت کو ہاتھوں سے دی گئی گرہ دانتوں سے کھولنی پڑ جائے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :