خونِ شہیداں سے پھوٹتی ہے سحر

جمعرات 21 اگست 2014

Raja Muhammad Attique Afsar

راجہ محمد عتیق افسر

اقوام کی زندگی میں جنگ کا نہایت اہم کردار ہوتا ہے کیونکہ اس کے اثرات نسلوں تک رہتے ہیں ۔ آزاد اقوام عالم کا یہ وطیرہ ہے کہ وہ جنگ میں کام آنے والے محسنوں کو ہمیشہ یاد رکھتی ہیں اور جس مقصد کے حصول کے لیے فرزندان وطن قربان ہوتے ہیں اسے قومی مشن کے طور پر آگے بڑھاتی ہیں ۔ وہ چاہے عروج کی جانب گامزن ہوں یا زوال پزیر ہوں مقصد کی خاطر جان ہار دینے والوں کی زندگیاں ان کے لیے نقوش پا بن جاتی ہیں ۔

انہی نقوش پا کو چراغ منزل کئے ہوئے قومیں تاریکیوں میں اپنا سفر کاٹتی ہیں ۔جب بات ہو کشمیر کی ہمالیائی ریاست کی تو اس کے برفزار ، مرغزار ، وادیاں اور کوہ ودمن ایسے ہزاروں فرزندان توحید کو اپنے سینے میں لیے ہوئے ہیں جو اپنا خون جگر دے کر ہمیشہ کے لیے امر ہو گئے اور قوم کو تاریکیوں میں نویدسحر دے گئے۔

(جاری ہے)

ایسے ہی فرزندان توحید میں سے ایک راجہ یٰسین خان جنجوعہ بھی ہیں جو کارگل کو محاذ پر اپنے لہو سے ایساچراغ روشن کرگئے جو پھوٹتی سحر تک قوم کو نشان منزل دکھاتا رہے گا۔


شہیدراجہ یٰسین جنجوعہ ۱۹۷۴ءء میں آزاد کشمیر کے مردم خیز ضلع باغ کے نواحی گاوں چک سریاں میں پیدا ہوے۔آپ جنجوعہ قبیلے کے ایک معمولی زمیندار کے چشم وچراغ ہیں ۔ پیرانہ سالی میں اولاد نارینہ کا ملنا والدین کے لئے دنیا کی تمام تر نعمتوں اور خوشیوں پر حاوی تھا۔اسی لیے تو شہید کو انتہائی لاڈ سے پالا گیا۔کم عمری ہی میں ان کی شادی کر دی گئی اور وہ دو بچوں کے باپ بن گئے۔

آپ کمسنی سے ہی فوج کی طرف مائل تھے ۔شاید اسکی وجہ یہ تھی کہ شہید کے دادا عقل دین خان جنجوعہ دوسری جنگ عظیم میں فوجی کی حیثیت سے شریک رہے۔ آپ کو بھی اس پر فخر تھا کہ دادا کے بعد خاندان میں آپ دوسرے شخص ہیں جنہوں نے فوجی ملازمت اختیار کی۔ آپ پر فوج میں بھرتی کا گویا جنون سوار تھا اسی لیے مڈل پاس کرتے ہی انہوں نے فوج میں ملازمت کے لیے درخواست دی۔

آپ کی کم عمری راہ میں رکاوٹ بن گئی ۔ آپ کو ایک برس ٹھہرنا پڑا اور بالآخر آپ کو فوج میں ملازمت مل ہی گئی۔ذوق جہاد اور شوق شہادت سے سرشار اس کڑیل جوان کو 3-NLI راہ منزل اور زاد منزل کے طور پر نصیب ہوئی۔
شہید کو محض فوج میں بھرتی کا شوق نہ تھا بلکہ اس نے اپنے لیے شہادت کو منزل بنا رکھا تھا ۔یہی وجہ تھی کہ فوجی ملازمت کے دوران وہ اپنی شہادت کے تذکرے کیا کرتے تھے۔

شہید کو شاید اپنی شہادت پر یقین بھی تھا۔وہ شہادت سے سات ماہ قبل اپنے گھر آئے تو اپنے تمام اقارب سے اس طرح ملے گویا وہ انکی آخری ملاقات ہو۔اس طرح جون ۱۹۹۹ءء کو انہوں نے گھروالوں کو لکھے گئے خط میں اس چیز کا اشارہ بھی کر دیا تھا۔
جب کارگل کے برفزاروں نے وطن کے فرزندوں کو پکارا تو یہ جانباز بھی پکار پہ لبیک کہتے ہوئے اپنا زادراہ لیے میدان کارزار کی اگلی صفوں میں پہنچ گیا۔

آپ کو کارگل کی بیس ہزار فٹ بلند بلال نامی پہاڑی پر چار ساتھیوں سمیت متعین کیا گیاتھا۔دشمن اس چوٹی پر بہرصورت قبضے کا خواہشمند تھا۔اسلیے وہ ایڑی چوٹی کا زور لگا رہا تھااور آپ کو شدید نقصان پہنچا رہا تھا۔ایک روز پانچ سو بھارتی فوجیوں کے مسلح دستے نے پوسٹ پر حملہ کر دیا۔چشم فلک اس پر گواہ ہے کہ اللہ کے ان پانچ شیروں نے دشمن کے اس ٹڈیدل کے لشکر کو ناکوں چنے چبوا کر رسوائی ، ذلت اور پسپائی پہ مجبور کر دیا۔

جب دشمن نے یہ حملہ پسپا ہوتے دیکھا تو پچھلی پوسٹوں سے مارٹر گولوں سے حملہ کر دیا۔ایک گولہ آپ کے بھی آکر لگا جس سے آپ کا کندھا اکھڑ گیا۔ دیگر سپاہیوں نے جب دشمن کا یہ حملہ بھی پسپا کر دیا تو ساتھیوں نے آپ کو مرہم پٹی کے لیے پیچھے لانا چاہا۔ ابھی آپ کوزخمی ہوئے سات منٹ بھی نہ گزرے تھے کہ ایک گولہ سنسناتے ہوئے آیا اور راجہ یٰسین جنجوعہ شہید ، کیپٹن تیمور اور دیگر تین ساتھیوں کو وہ آب حیات پلا گیا جسکے پینے سے موت ہمیشہ کے لیے انسان کے رستے سے دور ہو جاتی ہے۔


موسم کی شدت کے باعث لاش کو اٹھایا نہ جا سکا ۔اسی دوران اعلان واشنگٹن کا بگل بجا اور جیتی ہوئی بازی ہار دی گئی۔بڑھتے اقدام کو پیچھے آنا پڑا۔جو پوسٹ دشمن کی کیل کانٹے سے مسلح فوج ہتھیا نہ سکی وہ مذاکرات کی میز پر دشمن کی جھولی میں ڈال دی گئی ۔دشمن نے مادر وطن کے عظیم فرزندوں کی لاشوں کو بھی قبضے میں لے لیا اور ایک ماہ سے زائد اس کے قبضے میں رہیں۔

جو بعد میں عالمی ریڈکراس کے ذریعے پاکستان آئیں۔
۲۵ اگست ۱۹۹۹ءء کو شہید کی سبز ہلالی پرچم میں لپٹی لاش کو عوام الناس کی کثیر تعداد کے استقبال کے بعد فوجی اعزاز کے ساتھ بندوقوں کی سلامی کے ساتھ سپرد خاک کیا گیا۔۲۷ اگست کو باغ کے بریگیڈ کمانڈر زرین خان نے شہید کے گھر جا کر اہل خانہ کو زبردست الفاظ میں خراج تحسین پیش کیا۔بریگیڈیئر صاحب نے جب شہید کے تین سالہ فرزند راجہ زریاب یٰسین سے پوچھا کہ وہ بڑا ہو کر کیا بنے گا تو اس نے فوجی وردی کو ہاتھ لگا کر معصومیت سے کہا ﴿ میں بھی ابو کی طرح فوجی بنوں گا﴾ یہ اس بات کا اعلان کر رہا تھا کہ:
جئیں تو غازی جو مر جائیں تو شہید سحر
ہمیں قبول نہیں کوئی درمیان کی بات
وطن عزیز کا یہ عظیم سپوت اپنے آبائی گاوٴں چک سریاں میں سبز ہلالی پرچم کی چھاؤں میں بغیر کوئی تمغہ سجائے اللہ سے رزق پا رہا ہے اورساتھ ہی فردوس کے بالا خانوں سے ہمیں یہ پیغام بھی دے رہا ہے کہ میں تو اپنی منزل کو پہنچ گیامگر تحریک آزادیء کشمیر کو اپنے منطقی انجام تک پہنچانا اب ہمارا فرض ہے۔


شہید تم سے یہ کہ رہے ہیں لہو ہمارا بھلا نہ دینا

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :