خادم حرمین شریفین ، شاہ عبداللہ مرحوم

اتوار 1 فروری 2015

Qari Hanif Jalandhri

قاری حنیف جالندھری

دنیائے عالم میں اس وقت75 ممالک ایسے ہیں جن کے حکمران مسلمان ہیں، ان حکمرانوں میں حال ہی میں رحلت کر جانے والے سعودی فرماں روا شاہ عبد اللہ بھی تھے۔ بشری کمزوریوں سے انبیاء کرام علیہم السلام کے سوا کوئی مستثنیٰ نہیں تاہم جس مسلمان کی نیکیاں غالب ہوں اس کی تحسین اور اس کے ساتھ" حسنِ ظن" شریعت مطہرہ کا حکم ہے ، بالخصوص جب وہ دنیا سے رخصت ہو جائے تو ہمیں اس کی نیکیوں کا تذکرہ اور کمزوریوں سے صرف نظر کا حکم دیا گیا ہے۔

سعودی فرماں روا شاہ عبداللہ میں بھی کچھ ایسی خصوصیات اور امتیازی اوصاف تھے جن کا تذکرہ نہ کرنا یقینا ً نا انصافی ہو گی۔
شاہ عبد اللہ نے حرمین شریفین کی جس تدبر ،تدبیر اور محبت و خلوص کے ساتھ خدمت کی ،جس انداز سے حرمین شریفین کی توسیع کا اہتمام کیا ،جس فیاضی کے ساتھ حرمین شریفین کے نظام کو خوب سے خوب تر بنانے کیلئے خرچ کیا ،جس قسم کے ماہرین کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر حرمین شریفین کی خدمت پر لگایا اور جس طرح ہر گزرتے دن کے ساتھ انہوں نے حرمین شریفین میں سہولیات ،نفاست ،تعمیر اور صفائی ستھرائی کا اہتمام کیا اسے دیکھ کر انسان بے ساختہ یہ کہنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ حرمین شریفین کی خدمت پر مامور افراد اللہ تعالیٰ کے خاص اور منتخب بندے ہیں اور اللہ نے ان لوگوں کا صرف انتخاب ہی نہیں فرمایا ،بلکہ ان کے لیے توفیق بھی ارزاں فرمائی اور حرمین شریفین کی خدمت کو ان کے لیے سہل بھی فرما دیا۔

(جاری ہے)

جس کے نتیجے میں انہوں نے حرمین شریفین کی خدمت کا حق ادا کر دیا۔
شاہ عبداللہ کے دورِ حکومت میں حج کے فریضہ کی ادائیگی کو آسان سے آسان تر بنانے کے لیے اور حاجیوں کو سہولتوں کی فراہمی کے لیے جو اقدام اٹھائے گئے وہ بلا شبہ آبِ زر سے لکھنے کے قابل ہیں ،کہاں وہ دور جب رَمی کے دوران کئی جانیں ضائع ہو جایا کرتی تھیں اور کہاں آج کا وقت جب ہر سال کے حج میں گزشتہ سال کے حج کے مقابلے میں سہولتوں اور آسانیوں کے حیرت انگیز مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں ،قدم قدم پر حجاج خادم الحرمین الشریفین کو دعائیں دیتے نظر آتے ہیں ،شاہ عبداللہ کی ایک خصوصیت یہ تھی کہ وہ انسانیت کے خادم حکمران تھے،دنیا کے جس خطے میں کوئی آفت یا مصیبت آتی ،کوئی حادثہ ہوتا ،کہیں مسلمان مظلوم ہوتے ،کسی قدرتی آفت کا شکار ہوتے تو شاہ عبداللہ ان کی ہر ممکن خدمت اور تعاون کرنے کو اپنا فرضِ منصبی سمجھتے تھے۔


شاہ عبداللہ کی پاکستان کے ساتھ محبت بھی مثالی تھی،پاکستا ن پر جب بھی کوئی مشکل وقت آیا شاہ عبداللہ پا کستانی عوام اور حکمرانوں کے شانہ بشانہ دکھائی دیے،شاہ عبداللہ نے پاکستانی عوام کی خدمت کے لیے ایک مستقل ادارہ قائم کیا ،متائثرین زلزلہ کے ساتھ خصوصی تعاون کیا ،سیلاب سے دو چار لوگوں کی ہر ممکن مدد کی ،ان کے لیے مکانات بنوائے، راشن تقسیم کروایا، خیمے مہیا کیے ،مساجد اور اداروں کی تعمیرِ نو کی،شاہ عبداللہ پاکستا ن کو اپنا دوسرا گھر سمجھتے تھے ،پاکستانی قوم کے لیے وہ مضطرب ہو جاتے تھے۔

کچھ عرصہ قبل ان کی طرف سے پاکستانی عوام کے لئے دیا گیا تحفہ اس کی واضح مثال ہے،پاکستان کے دور دراز اور پسماندہ علاقوں میں شاہ عبداللہ بن عبدالعزیز کی پاکستانیوں سے محبت کے مظاہر دیکھے جا سکتے ہیں۔
شاہ عبداللہ کی ایک خصو صیت یہ تھی کہ انہوں نے بین المذاہب ہم آ ہنگی پیدا کرنے اور دنیا کو امن و سکوں کا گہوارہ بنانے کے لیے مثالی کردار ادا کیا،انہوں نے دنیا کے مختلف مذاہب کے پیروکاروں کو انسانی بنیادوں پر ایک دوسرے کے قریب لانے کے لیے گراں قدر خدمات سر انجام دیں۔

شاہ عبداللہ نے اپنے دور میں اس بات کا اہتمام کیا کہ دنیا بھر کے اہلِ علم کی، دین کی خدمات میں مصروف ِ عمل لوگوں کی جس قدر خدمت ہو سکے انہوں اس میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا ،دنیا بھر کے اہلِ علم کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر انہیں حج کے لیے بلاتے ،ان کا اعزاز واکرام کر تے ،و فاق المدارس العربیہ پاکستان کو عالم ِ اسلام میں سب سے زیادہ حفاظ تیا ر کرنے پر عالمی سطح کے اعزاز اور ایوارڈ سے نوازا،اب طویل عرصہ تک ان کی یادیں ہمارے دلوں میں زندہ رہیں گی ،ان کے کارہائے نمایاں تاریخ کے صفحات میں چمکتے دمکتے رہیں گے ،اللہ تعالیٰ ان کو بلند درجات عطا فرمائے۔

امید ہے ان کے جانشین اور سعودی فرماں روا شاہ سلمان بن عبدالعزیز بھی ان کے نقش قدم پہ چلتے ہوئے خیر کے ان کاموں کو یونہی جاری و ساری رکھیں گے۔اللہ ان کی مدد و نصرت فرمائے ،آمین

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :