کشمیر…الیکشن،بی جے پی اور بائیکاٹ!

جمعرات 20 نومبر 2014

Sareer Khalid

صریر خالد

اب جبکہ جموں و کشمیر اسمبلی کے انتخابات بس چند ہی دن دور ہیں بھارتیہ جنتا پارٹی(بی جے پی)نے ریاست میں اپنے مشن44کی تکمیل کے لئے تیاریاں تیز کرتے ہوئے سارے کشمیر کو اس شش و پنج میں ڈال دیا ہے کہ بائیکاٹ کی صورت میں بھاجپا کا خواب پورا ہوا تو پھر مستقبل کا کشمیر کیسا ہوسکتا ہے۔جموں و کشمیر میں لوک سبھا انتخابات کے دوران پہلی بار بہت اچھا کرنے کے بعد بی جے پی نے اب ریاستی اسمبلی کو اپنے نام کرنے کا نشانہ مقرر کیا ہے اور پارٹی کو ”یقین“ہے کہ یہ نشانہ سر کیا جا سکتا ہے،اگرچہ بعض لوگ بی جے پی پر دن میں خواب دیکھنے کے طعنے دے رہے ہیں۔

انتخابات شروع ہونے سے قبل تاہم بھاجپا اس حد تک کامیاب ہو چکی ہے کہ جموں و کشمیر ریاست میں اسکی جیت کے امکانات موضوعِ بحث بنے ہوئے ہیں۔

(جاری ہے)


حالانکہ جموں و کشمیر ،با الخصوص وادی،کے لئے بی جے پی حال ہی تک ایک ایسے پیڑ کی مانند مانا جاتا رہا ہے کہ جسکے لئے یہاں کی سرزمین اْسی طرح غیر موافق ہے کہ جس طرح دلی کی سرزمین کشمیر کے چنار کے لئے ناکارہ۔

وادی تو دور خود ہندو آبادی والے جموں صوبہ میں بھی پارٹی کو کبھی اپنے بال و پر پھیلانے کا موقع نہیں ملا یہاں تک کہ 2008میں ہوئے امرناتھ زمین تنازعہ کے دوران جموں کی جانب سے کشمیریوں کا اقتصادی بائیکاٹ ہوا اور اس ماحول کو ہوا دیکر بی جے پی نے پہلی بار اسمبلی میں11سیٹوں پر قبضہ جمالیا۔ایسا پہلی بار ہورہا تھا کہ پارٹی کو مسلم اکثریت والی ریاست کے ہندو آبادی علاقے میں اس قدر پذیرائی مل رہی تھی۔

نفرت کی سیاست کو ہوا دیکر پارٹی نے یہ ”چمتکار“ضرور کیا تھا لیکن اس رجحان کے مظبوط ہونے یا کم از کم بنے رہنے کی کوئی ضمانت نہیں تھی کہ ریاستی اسمبلی کے ایوانِ بالا کے لئے ہوئے انتخابات میں پارٹی کے 11میں سے 7ممبران نے بغاوت کرکے ،مبینہ طور پیسے کے عوض،حکمران نیشنل کانفرنس کے حق میں ووٹ کیا اور یوں پارٹی کی پوزیشن خراب کر دی۔

پارٹی کے سابق مرکزی صدر راجناتھ سنگھ نے ان سبھی ”باغیوں“کو پارٹی سے معطل بھی کر دیا تھا جسکی وجہ سے ظاہر ہے پارٹی کے لئے وہ پوزیشن برقرار رکھنا محال ہو رہا تھا کہ جو امرناتھ شرائن بورڈ تنازعہ کے بطن سے اسکے لئے پیدا ہو چکی تھی۔
سیاسی دنیا میں مگر کب کیا ہو جائے کوئی وثوق کے ساتھ نہیں کہہ سکتا ہے بلکہ سیاسی پنڈتوں کی مانیں تو سیاست نا قابلِ فہم واقعات و امکانات کا ہی نام ہے۔

چناچہ سیاسی دنیا کے اسی ناقابلِ پیشگوئی مزاج کے تحت ہی جب لوک سبھا کے انتخابات میں مودی نام کی لہر اُٹھی تو پہلی بار ایسا لگا کہ اس ہوا نے کسی نہ کسی طرح جموں و کشمیر میں بھی اثرات چھوڑ دئے ہیں۔اچانک ہوئی اس تبدیلی کا ہی نتیجہ ہے کہ بی جے پی کے حوصلے یوں بلند ہیں کہ جس ریاست (جموں و کشمیر)میں اسے کبھی کھاتہ کھولنے کی فکر ہوا کرتی تھی وہاں اس نے اپنے بل پر” سرکار بنانے “کے خواب دیکھنا شروع کئے ہیں۔

ایسا نہیں ہے کہ جموں و کشمیر کی پوری ریاست مودی لہر کی لپیٹ میں آکر بہہ گئی ہے لیکن اتنا ضرور ہے کہ ریاست کے بعض علاقوں میں ایک شور سا بپا ہو گیا ہے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ نریندر مودی نے سبھی توقعات کے برعکس مسئلہ کشمیر پر کوئی راست بات کرنے سے احتیاط بھرتتے ہوئے اُس Liberalپالیسی کو محض ایک افواہ بناکے چھوڑا ہے کہ جسکی بعض حلقے اُن سے توقع کرنے لگے تھے لیکن اسکے باوجود بھی تاحال جموں و کشمیر کے انتخابات میں اپنی متعلقیت قائم کئے ہوئے ہے۔

البتہ بی جے پی جموں و کشمیر جیسی ریاست میں اپنے مشن44کے خواب کو کس طرح پائے تکمیل تک پہنچا سکتی ہے یا ایسی کوشش کر سکتی ہے یہ دیکھنے والی بات ہے۔حالانکہ پارٹی کا باندھا ہوا نشانہ بہت واضح دکھائی دے رہا ہے لیکن اسے سر کرنا اُتنا آسان نہیں ہوسکتا ہے کہ جس آسانی کے ساتھ پارٹی نے یہ نشانہ مقرر کیا ہوا ہے۔گو پارٹی کی جانب سے بار بار دہرایا جارہا ہے کہ مقرر نشانے کو پانا اسکا مقصد ہے لیکن ذرائع کا کہنا ہے کہ جموں صوبے میں 24سے25سیٹوں کے حصول کے ساتھ پارٹی کل ملا کر 31سیٹیں حاصل کرنے کی اُمید رکھتی ہے۔

ان ذرائع کے مطابق پارٹی کا اصل انحصار ہندو اکثریت والے جموں صوبے پر ہے جہاں اسے حالیہ لوک سبھا انتخابات میں نہ صرف دو کی دو نشستیں ملی ہیں بلکہ مجموعی طور پارٹی کے ووٹ میں بھی اضافہ ہوا ہے۔جانکاروں کا کہنا ہے کہ بی جے پی لداخ صوبہ میں بھی کم از کم تین نشستوں کی حصولی کی اُمید کئے ہوئے ہے کہ جہاں کی اکیلی لوک سبھا نشست بھی پارٹی نے ووٹوں کی اچھی شرح فیصد کے ساتھ جیتی ہوئی ہے۔

ہاں کشمیر میں پارٹی کے لئے صورتحال کچھ خاص نہیں بدلی ہے تاہم وادی میں کھاتہ کھولنے کے لئے بے قرار پارٹی نے حالات کو اپنے حق میں کرنے کے لئے ایک جامع حکمتِ عملی مرتب کی ہوئی ہے جسکا،ذرائع کے مطابق،اصل محور مسلمانوں کی تقسیم کا وہی منصوبہ ہے کہ جو یوپی اور دیگر مسلم علاقوں میں حال ہی پارٹی کے لئے چمتکار کی وجہ ثابت ہوگیا ہے۔
وادیٴ کشمیر میں جیسے تیسے کرکے اپنی موجودگی کا احساس دلانے کے لئے حالانکہ بی جے پی کو لوک سبھا انتخابات کے فوراََ بعد سے ہی بے قرار بتایا جارہا ہے تاہم حالیہ دنوں میں پارٹی کے کئی لیڈروں نے کہیں خفیہ تو کہیں کھلے عام یہاں کے دورے کرکے یہاں کے کئی ”لیڈروں“کے ساتھ سانٹھ گانٹھ کرنے کی کوشش کی ہے۔

علیٰحدگی پسندی کا چوغہ پھینک کر کئی سال سے کُرسی کے لئے دوڑنے لگے سجاد غنی لون کی وزیرِ اعظم نریندر مودی کے ساتھ ملاقات نے اس طرح کی ساز باز پر پڑے پردے کو تو اُتار دیا ہے اور اب اس حوالے سے بہت کچھ واضح ہو گیا ہے۔لیکن جن لوگوں پر تکیہ کرکے بی جے پی وادیٴ کشمیر میں کنول کھلانے کا کواب دیکھ رہی ہے وہ اس پارٹی کے لئے زمین ہموار کرنے کی کتنی صلاحیت رکھتے ہیں یہ سوچنے میں پارٹی سے کہیں نہ کہیں چوک ہوگئی ہے۔

ابھی تک معلوم ہونے والی تفصیلات کے مطابق بی جے پی کو سہارا دینے کا وعدہ کرنے والوں میں سے سجاد غنی لون ”سب سے بڑے لیڈر“ہیں۔بھاجپا کے رابطے میں بتائے جارہے دیگر لیڈر چونکہ سجاد لون سے بھی چھوٹے ہیں لہٰذا اُن کی سیاسی اہمیت کا اندازہ لگانا کوئی مشکل کام نہیں ہو سکتا ہے۔
جموں و کشمیر اسمبلی میں کْل 87نشستیں ہیں جبکہ مزید دو نشستوں کی نامزدگی ہوتی ہے۔

تین مختلف النوع خطوں(جموں،کشمیر،لداخ)پر مشتمل اس مسلم اکثریت والی ریاست میں اسمبلی نشستوں کی تقسیم کچھ اس طرح ہے کہ جموں کے لئے 37،کشمیر کے لئے46اور لداخ کے لئے 4مقرر ہیں۔چناچہ لداخ کے لیہہ علاقہ میں دو نشستوں پر بودھ فرقے کی اکثریت ہے جبکہ جموں میں 21اسمبلی حلقوں میں غیر مسلم ووٹروں کی واضح اکثریت ہے جبکہ یہاں کے بقیہ علاقوں میں مسلمان اکثریت میں ہیں۔

وادیٴ کشمیر میں مسلمانوں کی اکثریت واضح ہے اگرچہ سرینگر کے حبہ کدل،پلوامہ کے ترال اور سوپور کے بعض علاقوں میں غیر مسلموں کا کچھ ووٹ ہے جن میں سے بیشتر وادی چھوڑ کر جا چکے ہیں۔موجودہ اسمبلی میں حکمران نیشنل کانفرنس کے پاس 28،شریک حکمران کانگریس کے پاس 17،اپوزیشن پی ڈی پی کے پاس 21،بی جے پی کے پاس 11اور دیگراں کے پاس 10نشستیں ہیں۔
نریندر مودی کو ”بڑے بھائی“کے بطور کشمیر میں گود لے چکے سجاد غنی لون کا جہاں تک تعلق ہے وہ اُنکے مقتول باپ عبدالغنی لون کی پیوپلز کانفرنس کے ”ایک دھڑے“کے چیرمین ہیں۔

سینئر لون کے جنگجووٴں کے ہاتھوں قتل ہونے تک پیوپلز کانفرنس ،جسکا دائرہٴ اثر شمالی کشمیر کے کپوارہ ضلع تک محدود ہے،علیٰحدگی پسند تنظیموں کے اتحاد حریت کانفرنس کی اکائی تھی۔لون کے قتل ہونے پر سجاد اور اُنکے بھائی بلال غنی نے پارٹی کا کاروبار سنبھالا اور جہاں چھوٹے بھائی سجاد لون پارٹی کے چیرمین ہوگئے وہیں بڑے بھائی بلال کو حریت کانفرنس میں پارٹی کا نمائندہ بنایا گیا۔

بعدازاں سجاد پر حریت کانفرنس کی پالیسی کے برعکس انتخابات میں درپردہ اُمیدوار کھڑا کرنے کا الزام آنے کے بعد ایک طرف حریت کانفرنس تقسیم ہوگئی اور دوسری جانب خود پیوپلز کانفرنس بھی دو بھائیوں کے مابین ”بٹ“گئی۔بلال لون اب بھی مولوی عمر فاروق کی قیادت والی حریت کانفرنس میں شامل رہتے ہوئے ”آزادیکا سودا“بیچ رہے ہیں جبکہ سجاد غنی لون برسوں سے اقتدار کی نیلم پری سے بغلگیر ہونے کے لئے ناکامی سے دوڑ رہے ہیں۔

یہ ایک الگ بات ہے کہ ایک موجودہ ممبرِ اسمبلی کے بارے میں کچھ وقت پہلے عالمی سہارا کو یہ علم ہوا تھا کہ ”علیٰحدگی پسند“بلال غنی لون نے اُنہیں اپنے چھوٹے بھائی”سجاد غنی“کی پیوپلز کانفرنس میں شامل ہونے کے لئے راضی کرنا چاہا تھا لیکن معاملہ طے نہ ہو سکا۔
سجاد غنی لون کے وزیرِ اعظم نریندر مودی سے ملنے سے میڈیا نے دو غلط فہمیاں پیدا کی ہیں ،ایک یہ کہ سجاد کوئی علیٰحدگی پسند لیڈر ہیں جبکہ وہ پہلے ہی کم از کم دو بار پارلیمانی انتخاب لڑ اور ہار چکے ہیں۔

دوسرا یہ کہ جیسے بی جے پی کو وادیٴ کشمیر میں کسی بہت بڑی پارٹی کا ساتھ مل گیا ہو۔در اصل پیوپلز کانفرنس آج بھی کپوارہ،با الخصوص یہاں کے ہندوارہ قصبہ،تک محدود ہے۔انتخابی سیاست کے رموزواوقاف کا تجربہ رکھنے والوں کے مطابق پیوپلز کانفرنس کا زیادہ سے زیادہ مذکورہ بالا علاقہ کے پانچ انتخابی حلقوں میں اثر ہے لیکن اسے زیادہ سے زیادہ دو نشستوں پر کامیابی مل سکتی ہے۔

خود ہندوارہ کے ایک سیاسی کارکن کا کہنا ہے”اس بات میں شک نہیں ہے کہ مرحوم لون صاحب کا اب بھی علاقے میں اثر ہے لیکن مجھے نہیں لگتا ہے کہ پارٹی کو دو سے زیادہ نشستیں مل سکتی ہے“۔وہ کہتے ہیں”نریندر مودی کے ساتھ بغلگیر ہوکر اور اُنہیں بڑا بھائی اور نہ جانے کیا کیا بتاکر سجاد نے ایک دلچسپ صورتحال پیدا کردی ہے کہ جس شخص کی اتنی تعریفیں ہندوستان کے کسی کونے میں کسی مسلمان نے نہیں کی ہیں اُسے سجاد نے کشمیری ہوکر بھی آسمان پر بٹھانا چاہا،بہت ممکن ہے کہ سجاد کو خود اپنے لوگ اس بات کے لئے سزا دینگے“۔


شمالی کشمیر کے ہی ایک سرگرم ممبرِ اسمبلی انجینئر رشید کے بارے میں بھی خبر ہے کہ وہ بی جے پی کے ساتھ رابطے میں ہیں۔انجینئر رشید نے،جو عوامی اتحاد پارٹی نام کی اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد قائم کئے ہوئے ہیں،اگرچہ صاف الفاظ میں بھاجپا کے رابطے میں ہونے کی تصدیق نہیں کی ہے تاہم گذشتہ دنوں ایک پریس کانفرنس کے دوران پوچھے جانے پر اُنہوں نے مذکورہ رابطے کا اشارتاََ اعتراف کیا ہے۔

اُنہوں نے کہا”ہم کسی کی بھی حمایت کرنے کے بارے میں سوچ سکتے ہیں،ایک سیاستدان کے لئے کسی سے ملنا کوئی بُری بات نہیں ہے اور پھر ہم ہر اُس شخص یا پارٹی کی حمایت پر آمادہ ہیں کہ جو مسئلہ کشمیر کو حل کی چاہ رکھتی ہو“۔انجینئر رشید کپوارہ کے لنگیٹ حلقہ کی اسمبلی میں نمائندگی کرتے ہیں۔حالانکہ اُنکی”پارٹی“نے کئی علاقوں میں اپنے اُمیدوار کھڑا کئے ہوئے ہیں تاہم حالات بتارہے ہیں کہ انجینئر رشید اپنے ذاتی اثر و رسوخ کی بنا پر مشکل سے اپنی نشست برقرار رکھ سکتے ہیں۔


نیشنل کانفرنس سے لیکر پیوپلز ڈیموکریٹک پارٹی(پی ڈی پی)تک کئی پارٹیوں کے ”لیڈر“بننے کے بعد ڈیموکریٹک نیشنلسٹ پارٹی نام کی اپنی ”جماعت“بناچکے غلام حسن میر بی جے پی کی نیا کے ایک اور کھیون ہار بتائے جارہے ہیں۔میر ،جن کے متعلق سابق فوجی چیف اور اب بی جے پی لیڈر وی کے سنگھ نے یہ سنسنی خیز انکشاف کیا تھا کہ وہ فوج کے خفیہ فنڈ سے رقومات حاصل کرتے رہے ہیں،شمالی کشمیر کے ٹنگمرگ علاقہ سے تعلق رکھتے ہیں اور اُنکی پارٹی نصف درجن سیٹوں پر جیت درج کرنے کے امکانات ظاہر کرتی آرہی ہے تاہم جانکاروں کا کہنا ہے کہ میر کے ستارے گردش میں نہ آئے تو وہ خود اسمبلی میں اپنی سیٹ بچا سکتے ہیں جبکہ دیگر کئی لوگوں کو ساتھ لیجانے کا اُنکا خواب فقط ایک خواب ہی بتایا جا رہا ہے۔


پیوپلز ڈیموکریٹک فرنٹ نام کی ”پارٹی“کے سربراہ اور وسطی کشمیر کے بڈگام ضلع میں حلقہ انتخاب خان صاحب کے ممبرِ اسمبلی حکیم محمد یٰسین بھی بی جے پی کے رابطے میں ہیں جن کا اُنہوں نے اعتراف بھی کیا ہے اور کہا ہے ”ہم نے بھاجپا کے سامنے کئی شرائط رکھی ہیں اور اگر وہ شرائط مان لی جاتی ہیں تو ہم اس پارٹی کے ساتھ کام کرنے پر تیار ہیں“تاہم یٰسین کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ بی جے پی کے،کشمیر میں،باقی ستونوں کی ہی طرح وہ بمشکل خود کھڑا رہ سکتے ہیں اگرچہ اُنہیں کئی علاقوں میں اُمیدواروں کو میدان میں اُتارنے کا ارادہ ہے۔


ان ”پارٹیوں“کے بل پر بھاجپا جو الیکشن کشمیر میں لڑنے جارہی ہے وہ یقیناََ دلچسپ ہوگا لیکن اس سے بھی زیادہ دلچسپ یہ ہے کہ پارٹی نے وادیٴ کشمیر میں بھی بہر حال ایک ہوا کھڑا کی ہوئی ہے کہ جس نے کشمیری عوام کو با العموم اور علیٰھدگی پسند قیادت کو با الخصوص ایک مخمصے میں ڈالا ہوا ہے۔چناچہ بھاجپا نے مذکورہ بالا شرکاء کے علاوہ سید علی شاہ گیلانی کے آبائی علاقہ سوپور سمیت ایسے کئی علاقوں کی نشاندہی کی ہے کہ جہاں کبھی کشمیری ہندووٴں کی بڑی تعداد آباد تھی مگر اب وہ جموں یا دیگر شہروں میں رہ رہے ہیں۔

پارٹی کی کوشش ہے کہ ان لوگوں کے ووٹ کو ایک کیا جائے اور اگر وادی میں علیٰحدگی پسندوں کی کال پر بائیکاٹ ہو تو وادی سے باہر رہنے والے ان ہندووٴں کے ووٹ ،بھلے ہی وہ کم ہوں،سے پانسہ پلٹ سکتا ہے۔سوپور کے ایک نوجوان رمیض احمد کہتے ہیں”ہم چونکہ گیلانی صاحب کے کہنے پر بائیکاٹ کرتے ہیں جبکہ سوپور کے ہندو بی جے پی کے لئے ووٹ دینے جا رہے ہیں،ایسے میں اگر سوپور کی سیٹ بی جے پی کی جھولی میں چلی گئی تو یہ ہمارے لئے شرم کی بات ہوگی لہٰذا ہم مخمصے میں ہیں کہ بائیکاٹ کریں یا نہ کریں“۔

کشمیر یونیورسٹی میں زیرِ تعلیم حبہ کدل سرینگر کے ایک نوجوان کو علیٰحدگی پسند قیادت سے ناراضگی ہے اور وہ کہتے ہیں”بدلتے حالات میں قیادت کو حکمتِ عملی بدلنی چاہیئے تھی،ہم بائیکاٹ کرینگے تو بھاجپا کا راستہ صاف ہوگا اور نہیں کرینگے تو انتخابات کو ریفرنڈم کے بطور پیش کرنے کی وہی کوششیں ہونگی کہ جو مرکزی سرکار اب تک کرتی آئی ہے،ایسے میں واقعی فیصلہ مشکل ہوگیا ہے“۔

علیٰحدگی پسندوں کے اخباری بیانات کا جائزہ لینے پر ان سوالوں کا کوئی جواب نہیں مل رہا ہے کہ جو بھاجپا کے عروج کے بعد کشمیریوں کے دلوں میں درد اُٹھائے ہوئے ہیں تاہم انتہائی مشکل سے،اُنکا نام نہلئے جانے کی شرط پر آمادہ بہ گفتار ہوئے ،ایک حریت لیڈر نے کہا”بائیکاٹ کے بغیر کوئی چارہ بھی نہیں ہے لیکن ہاں ہمیں بھی بھاجپا کو لیکر تشویش لاحق ہے،ہمارے سامنے یقیناََ ایک سخت صورتحال کھڑا ہوگئی ہے لیکن ابھی کوئی ایسا راستہ بھی نہیں دکھائی دے رہا ہے کہ جس سے ہمیں اس نئی صورتحال سے رخصت نصیب ہو“۔وہ کہتے ہیں کہ حریت نے بائیکاٹ کا فیصلہ بر قرار رکھا ہے اور اب حالات ہی بتائیں گے کہ با الآخر اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔(بشکریہ عالمی سہارا،دلی)۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :