جمہوریت کے نام پرکھیل

ہفتہ 20 ستمبر 2014

Nayyar Sadaf

نیئر صدف

بلاشبہ سیلاب کی تباہ کاریوں کادائرہ وسیع ہوتاجارہاہے ۔ ہرروز کئی آبادیوں کے پانی میں غرق ہونے کی خبریں ذہن کومنتشرکررہی ہیں تو دوسری جانب سیلاب میں گھرے ہوئے لوگ کسی سہارے امداد یا معجزے کے منتظرہیں۔ حکومت اس سیلاب کو تاریخ کاسب سے بڑاسیلاب قراردیتے ہوئے سیلاب متاثرین کی دلجوئی کرتے ہوئے سیاسی بیانات جاری کررہے ہیں۔ وزیراعظم نوازشریف کے چند روزکے بیانات ملاحظہ کریں۔

متاثرین کی بحالی تک چین سے نہیں بیٹھیں گے نیز متاثرین کی مدد کرناحکومت کافرض ہے ۔ میرادل پانی میں گھرے ہوئے لوگوں کے ساتھ دھڑکتا ہے ۔چہرے پر خوشیاں لوٹنے تک آپ کے ساتھ رہوں گا۔ مکانات کی تعمیر کے کام میں خودآکرحصہ لوں گا۔ ملک مشکل میں ہے۔ سیاسی سنجیدگی وقت کی ضرورت ہے جب دھرنے کاراج اسلام آباد میں طویل ہوگیا تویکدم سیاسی رہنما کارویہ بھی تلخ ہوگیا۔

(جاری ہے)

پھر عرض کرنے لگے کہ” حکومت شرافت دکھارہی ہے۔ سڑکیں خالی کرانا کوئی مشکل نہیں نیز 18کروڑ عوام نے وزیراعظم منتخب کیا۔ 5ہزار افراد کے کہنے پر استعفیٰ نہیں دے سکتا۔ دھرناسیاست وطن عزیز اور قوم کی کوئی خدمت نہیں۔ خدارا ملکی مفادکے لئے اسے فی الفور ختم کریں۔ وزیراعظم نوازشریف کے بیان کی روشنی میں پنجاب کے وزیراعلیٰ شہبازشریف عمران خان کوباورکراتے ہوئے شرم دلارہے ہیں کہ پنجاب کی عوام نے 33سیٹیں دیں۔

عمران انہی کی شرم کریں لہذاعمران سیلاب کے ایام میں غریبوں کی خدمت کی لذت سے بے خبرہیں۔ پھرکہتاہوں رقص اور سرورکی محفلوں کیلئے عمرپڑی ہے لہذا مل کرمتاثرین کی مدد کے لئے باہرنکلیں۔ لگتا ہے عمران کو سیلاب متاثرین کاخیال نہیں۔ لہذا الیکشن میں عوام بھی ان سے ایساہی سلوک کریں۔“
جناب یقینا پاکستان کے وزیراعظم میاں نوازشریف اورپنجاب کے وزیراعلیٰ سیلاب کی تباہ کاریوں کے سبب دن رات صوبوں کاہنگامی دورہ کررہے ہیں بلکہ باوربھی کروارہے ہیں کہ جیسے ہی یہ بحران ختم ہوگاآئندہ کے لئے اس آفت سے بچنے کے اقدامات پر غورکیاجائے گا۔

آئندہ کے سیلاب کی روک تھام کے سلسلے میں گورنرپنجاب کابیان حقیقت کی حیثیت رکھتاہے کہ سیلاب میں پھنسے ہوئے متاثرین کی دادرسی میں کوئی کسراٹھانہ رکھیں گے۔ ڈیم وقت کی ضرورت ہے کاش بھارت کی طرح یہاں بھی ڈیم بنائے جاتے۔ یہاں ذراغورکریں …قوم اورملک کے مسائل کوحل کرنے والی شخصیات اپنی نااہلی کاروناروتے محسوس ہوتے ہیں۔ جناب عوام نے توڈیم نہیں بنانے۔

اُن کاکام حکومت کے کاروبار کوچلانے کیلئے ہر چھوٹی بڑی شے پر ٹیکس اداکرنا ہے۔ باقی کام ملکی مفاد میں پالیسیاں بنانا اورپایہ تکمیل تک پہنچانا حکمرانوں کاکام ہوتاہے۔ اگرسیاسی جماعت مشکل وقت پر کاش اور آئندہ جیسے الفاظ استعمال کرینگے تو پھر عوام سے آپ سے بددل کیسے نہیں ہوگی پھرآپ کے جاتے ہی گو نواز گو کے نعرے کیوں نہ لگائے گی۔ حکمران طبقہ احساس کرتاہے مگر نظراندازکرتاہے۔

عوام ٹی وی سکرین پر قومی اسمبلی میں سیاستدانوں کو جمہوریت کے نام پر اپنے اپنے ذاتی مفادات میں متعدد اختلافات کے باوجود متحدہ ہوتے دیکھ رہی ہے توسوچتے ہیں کہ پھریہی سیاستدان کیوں ملکی مفادات میں منتشرنظرآتے ہیں۔ یہ کیسی کٹ پتلی حکمران ہیں جو عوام کے خون پیسنے کی کمائی کے ٹیکس پرمزے لوٹتے ہیں پاکستان پر حکومت کرتے ہیں مگر بات جب ملکی مفاد کی آتی ہے تو اپنے ملک کو چھوڑ کر سرحد پار ایجنڈے کے مفادات کوترجیح دیتے ہیں مگرپاکستانی عوام کے لئے اگرمگرکاش جیسے الفاظ رہ جاتے ہیں ۔

آپ کیوں یہ بھول جاتے ہیں پاکستانیوں کے لئے نہ توبارشیں اورنہ ہی سیلاب کوئی نئی چیز ہے۔ قدرتی آفات ملک میں آئے روز ہی حکمرانوں کی نااہلی کے سبب متواترنازل ہوتے رہتے ہیں۔ اَب تو ماشاء اللہ یہ حالات ہیں کہ انڈیاپاکستان کے دریاوٴں میں پانی چھوڑتا ہے پھر اُسی کے وزیراعظم پاکستان کے سیلاب زدگان کی امداد کے لئے پیشکش بھی کرتے نظرآتے ہیں۔ کیایہ حالات پاکستانی حکمرانوں کے ضمیروں کوجھنجھوڑنے کے لئے کافی نہیں۔ حکمران ادراک کریں یانہ کریں دھرنوں سے عوام کاشعورجاگاضرور ہے ورنہ گزشتہ دنوں قومی ایئرلائن کی پرواز میں پیش آنے والے واقع کو اتنی پذیرائی اندرون اوربیرون ملک حاصل نہ ہوتی۔ VIPکلچر پرلگنے والی ضرب سے ہی حکمرانوں کو دیوارپرلکھاسمجھ لیناچاہئے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :